Thursday, May 14, 2015

May2015: Poll Rigging

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قبل از انتخابات دھاندلی
کیا ’جمہوری نظام‘ ہمارے لئے موزوں ترین اور ہمارے رویئے ’جمہوری نظام‘ کے لائق ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا کے مختلف صوبائی حلقوں میں ’ترقیاتی منصوبوں‘ کے اعلانات کرنا اور وفاقی حکومت کی جانب سے الگ مالی وسائل فراہم کرنا‘ ایک ایسی دانستہ کوشش ہے جو یقیناًانتخابی نتائج پر اثر انداز ہوگی۔ حکمراں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی طرف سے نامزد بلدیاتی اُمیدواروں کا ’پلڑہ بھاری‘ کرنے کی یہ کوشش اگر قبل از انتخابات دھاندلی (Pre Poll Rigging) نہیں تو پھر کیا ہے؟

بلدیاتی انتخابات کے لئے جاری ہونے والا ’ضابطہ اخلاق‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پشاور دفتر سے جاری ہوا‘ جس پر ’اہم ترین ترجیح (Top Priority)‘ لکھا ہوا تھا اُور یہ ضابطۂ اخلاق خیبرپختونخوا کے تمام ضلعی الیکشن کمشنروں کے نام ڈپٹی ڈائریکٹر (الیکشنز) خوشدل خان کے دستخطوں سے جاری ہوا۔ اِس ضابطۂ اخلاق کی شق نمبر 3 کے چوتھے جز کے مطابق ’’الیکشن شیڈول کے جاری ہونے کے بعد‘ وزیراعظم‘ گورنر‘ وزیراعلیٰ‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر‘ وفاقی اُور صوبائی وزرأ‘ وزیراعظم کے مشیر یا وزیراعلیٰ کے مشیر یا دیگر منتخب نمائندے بلدیاتی انتخابات کے حلقوں (وارڈوں یونین کونسلوں) کا دورہ کرکے وہاں (کسی بھی حجم یا مالیت کے) ترقیاتی منصوبے یا منصوبوں کا اعلان نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی بلدیاتی نشست کے لئے اُمیدوار (چاہے وہ سیاسی حیثیت سے اُمیدوار ہو یا غیر سیاسی یعنی آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہا ہو اُس) کی اِنتخابی (رابطہ عوام) مہم میں حصہ لے سکتے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے صدر دفتر میں صوبہ سندھ‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے لئے ایک جائزہ اجلاس 6 فروری 2015ء کے روز منعقد ہوا‘ جس کے لئے باضابطہ شیڈول کی منظوری دی گئی۔ اِس کے بعد 4 اپریل 2015ء کو اسلام آباد سے جاری ’الیکشن شیڈول‘ کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے مطابق 30 مئی جو دو ہزار پندرہ کے دن صبح آٹھ بجے سے شام پانچ تک تین صوبوں میں پولنگ ہوگی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ’ضابطۂ اخلاق‘ میں یہ بات وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ ’الیکشن شیڈول‘ کے اعلان کے بعد سے وفاقی یا صوبائی حکومت کے وسائل کسی بھی صورت استعمال نہیں کئے جا سکتے۔ اِس پابندی کا مقصد بلدیاتی انتخابات کے عمل کو ’شفاف‘ بنانا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں دیگر صوبوں کی طرح ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل مالی سال 2014-15ء کے آغاز پر ہی کر دیئے گئے تھے جبکہ اُس وقت بلدیاتی انتخابات کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ ہر صوبائی حکومت سالانہ بنیادوں پر آمدن و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) مرتب کرتی ہے اور جب بجٹ مرتب ہو جاتا ہے تو اُن تمام منصوبوں پر مرحلہ وار ترقیاتی عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان چونکہ ’اے ڈی پی‘ بنانے سے قبل کر دیا گیا تھا‘ اِس لئے ’ترقیاتی حکمت عملی (اے ڈی پی)‘ کے بارے میں نکتۂ اعتراض نہیں اُٹھایا جاسکتا کہ صوبائی حکومت نے عین بلدیاتی انتخابات سے قبل ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر کے ’انتخابات پر اثرانداز‘ ہونے کی کوشش کی ہے۔'

 سوال یہ ہے کہ اگر ترقیاتی حکمت عملی مالی سال 2014-15ء کے آغاز پر مرتب کر لی گئی تھی تو چند منصوبوں پر کام کا آغاز مالی سال کے دو ماہ گزرنے کے بعد کیوں کیا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ ماہ مئی کے آغاز پر قومی اخبارات میں شائع ہونے والے ترقیاتی کاموں کے ٹینڈرز طلب کرنا کہاں کا انصاف ہے کہ جن کا مجموعی حجم 493.515 ملین ( 49کروڑ 93لاکھ 515) روپے بنتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اگر صوبائی اسمبلی کے 2حلقوں میں قریب پچاس کروڑ کے ترقیاتی کاموں کا آغاز عین بلدیاتی انتخابات سے تین دن قبل کرتی ہے تو وفاقی حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں جس نے ’ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز‘ کے عنوان سے خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی (ایم این ایز) کو 2 کروڑ (20ملین) روپے جاری کئے ہیں اور اب یہ ’ایم این ایز‘ کی مرضی ہے کہ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص مالی وسائل خرچ کریں۔ ظاہر ہے کہ ہر رکن اسمبلی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو خوش رکھے کیونکہ ہمارے ہاں سیاست کا اسلوب یہی ہے کہ پوری کی پوری سیاست ’انتخابی حلقوں‘کے گرد گھومتی ہے۔ یاد رہے کہ ’’ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز‘‘ نامی ترقیاتی اہداف کے لئے 8 شعبوں کا انتخاب کیا گیا جن میں غربت کا خاتمہ‘ پرائمری تعلیم کا فروغ‘ صنفی انصاف‘ ماں اور بچے کی صحت‘ بچوں کی اموات میں کمی‘ ایچ آئی وی ایڈز‘ ملیریا اور دیگر امراض کا خاتمہ‘ ماحولیاتی تنوع اور تحفظ اور ترقی کے لئے تعاون کی عالمی حکمت عملی کا اطلاق شامل تھا لیکن رواں برس کے آخر تک اِن میں کسی ایک بھی شعبے میں ترقی کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

اقوام متحدہ (یو این ڈی پی) کے ایک انتظامی آفیسر کے مطابق ’’آئندہ برس (2016ء) سے ’ملینیئم ڈویلمپنٹ گولز‘ کا نام تبدیل کیا جارہا ہے اور اس میں ’سیسٹین ایبل ڈویلپمنٹ‘ (پائیدار ترقی) کا اضافہ کیا جارہا ہے۔‘‘ لیکن نام سے کیا فرق پڑتا ہے مسئلہ تو یہ ہے کہ ہر ترقیاتی حکمت عملی یا تو ’سیاست‘ کی نذر یا پھر سیاسی عمل دخل کی وجہ سے ’بے معنی‘ ہو کر رہ جاتی ہے! اگر ہم پاکستان کا جمہوری مستقبل چاہتے ہیں اور یہ خواہش بھی ہے کہ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر مرتب ہونے والا نظام ہمیں ’راس‘ جائے تو اِس کے لئے دانستہ عملی کوششیں اور اپنے اپنے ذاتی‘ سیاسی اور کاروباری مفادات کی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی۔’’رکھا ہی گھر میں کیا ہے‘ کہ ترتیب دوں جسے۔۔۔کچھ خواب اِدھر سے اُدھر کر رہا ہوں۔‘‘

No comments:

Post a Comment