ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی انتخابات: غیرمنطقی اَحکامات
بلدیاتی انتخابات: غیرمنطقی اَحکامات
عجیب منطق ہے کہ ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی جانب سے اَراکین قومی و
صوبائی اسمبلیوں بشمول سینیٹرز کو اِس بات سے روک دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی
بلدیاتی انتخابی اُمیدوار کی رابطہ عوام (انتخابی) مہم یا جلسۂ عام میں
شرکت نہ کریں اور نہ ہی اُن انتخابی حلقوں میں کسی قسم کے ترقیاتی کاموں کا
اعلان کریں۔ اِس حکمنامے کے تحت پہلے سے ’مختص مالی وسائل‘ کا استعمال بھی
بلدیاتی انتخابات کے موقع پر نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف خیبرپختونخوا کی
صوبائی حکومت ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کے سیاسی بنیادوں پر انعقاد کا
قانون منظور کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ شفاف
انداز میں عام انتخابات کا اعلان کرے۔ الیکشن کمیشن نے یہ ذمہ داری ملنے کے
بعد ’الیکشن شیڈول‘ کا اعلان کیا جس کے ساتھ ہی یہ حکمنامہ بھی جاری کردیا
گیا کہ اب کوئی رکن اسمبلی کسی بھی حیثیت سے کسی انتخابی اُمیدوار کی
حمایت کرتے ہوئے دوسروں کو اِس بات کے لئے ’کھلم کھلا‘ قائل نہیں کرسکتا کہ
وہ اپنے ووٹ اس کے حق میں استعمال کریں۔
ایک طرف سیاسی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات ہیں جس کے لئے سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی نامزدگیاں تقسیم کیں ہیں اور دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں ہی سے وابستگیاں رکھنے والے منتخب و آزاد نمائندوں کو حکم جاری کیا گیا ہے کہ وہ انتخابات پر اثرانداز نہ ہوں! اگر سیاسی کرداروں کی شرکت اور سرکاری وسائل کا استعمال اِسی قدر منفی اثرات رکھتی ہے اور اِس پر مستقل پابندی عائد ہونی چاہئے تھی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ انتخابات اپنی ساخت میں سیاسی ہیں لیکن اس میں سیاست دان شرکت نہیں کرسکتے۔ چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ حکمنامہ جاری کرتے ہوئے جن امور کا خیال نہیں رکھا گیا اُن میں ہمارا سماجی مزاج‘ ماضی کی روایات‘ سیاسی ثقافت‘ سیاست دانوں کی دیدہ دلیری‘ ہمت‘ حوصلہ‘ بااثر لوگوں کے قانون و قواعد سے نمٹنے کا فن اُور ہنر شامل ہے‘ اِس لئے یہ حکمنامہ بھی دیگر کئی ہدایات کی طرح خاطر میں نہیں لایا جارہا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے چترال اور چترال سے ہزارہ تک خیبرپختونخوا کے ہر ضلع سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کسی نہ کسی طور پر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کی دامے‘ درہمے‘ سخنے مدد کر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی تصاویر پر مبنی بینرز اور پوسٹرز بھی کھلے عام آویزاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان اور اِن نشانوں سے متعلق نغمے‘ گیت اور ترانوں کی گونج بھی سنی جاسکتی ہے تو کیا ہم اَندھے‘ بہرے اُور گونگے بن جائیں کہ انتخابی قواعد کی سرعام خلاف ورزی پر دھیان ہی نہ دیں یا پھر یقین کر لیں کہ الیکشن کمیشن بناء سوچے سمجھے ایسے قواعد مرتب کر رہا ہے‘ جن کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں۔ اگر بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہو رہے ہیں تو سیاسی شخصیات بالخصوص منتخب عوامی نمائندے اِس پورے عمل سے کس طرح علیحدہ رہ سکتے ہیں یا خود کو علیحدہ رکھ سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں اُور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن اِس بات کو باریکی سے دیکھا جاتا ہے کہ اُن سے وابستگی رکھنے والے وفاداری کا حق کتنا ادا کر رہے ہیں بالخصوص منتخب نمائندے تو متعلقہ پارٹی کارکنوں کے سامنے نہ چاہتے ہوئے اپنی بانچھیں کھلی رکھتے ہیں کہ مبادا اُنہیں شکایت کا موقع نہ ملے۔ جمہوریت کا حسن ہی یہ ہے کہ اِس میں سیاسی کارکردگی کا احتساب بذریعہ عام انتخابات ہوتا ہے۔ پھر سیاسی شخصیات اِس مجبوری کے تحت بھی کارکنوں کو خوش رکھتے ہیں تاکہ اگر وہ کسی پارٹی عہدے کے لئے اُمیدوار ہوں تو کارکن اُن کی حمایت کریں اور وہ اِسی حمایت کی بناء پر آئندہ انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے اہل قرار پائیں۔ یہ بالکل سر پر لٹکنے والی ’دو دھاری تلوار‘ جیسا معاملہ ہے کہ ایک طرف منتخب ہونے کے بعد مختلف قانونی ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف پارٹی کے کارکنوں کی توقعات کہ جنہیں جائز و ناجائز جیسے درجات میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ مجبوریوں کا نام سیاست اور سیاست کا نام سمجھوتہ نہیں تو اُور کیا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ وہ ایسے قواعد تشکیل نہ دیں‘ جن پر نہ تو وہ خود عمل درآمد کراسکیں اور نہ ہی اُن کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بروقت گرفت کر سکیں۔ اپنے اختیارات و حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اُن زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے‘ جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ شفاف انتخابات صرف اور صرف ایک ہی صورت ممکن ہیں کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی ’عام آدمی پارٹی‘ بنا دی جائے اور جو کوئی الیکشن کمیشن کے ہاں درج شدہ (رجسٹرڈ) کم وبیش تین سو سیاسی جماعتوں میں سے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہ ہوں‘ اُنہیں ’عام آدمی پارٹی‘ کی جانب سے نامزدگی عطا کی جائے۔ اِس ’عام آدمی پارٹی‘ کی قیادت‘ منشور وضع کرنا اور حسابات وغیرہ کی ذمہ داری مزدوروں کی ٹریڈ یونینز پر مشتمل اتحاد کو سونپ دینی چاہئے کیونکہ پاکستان میں اگر قانون ساز ایوانوں میں ’سیاسی نمائندگی‘ سے محروم کوئی ہے تو وہ ’غریب‘ متوسط اور مزدور کسان طبقات‘ ہیں جنہیں نہ تو قانونی و سماجی سطح پر اِنصاف میسر ہے اُور نہ ہی اِن کی صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ تعصب‘ امتیازات‘ سفارش‘ رشوت اور حکمراں خاندانوں کی سرمایہ پرستی کی وجہ سے مالی و انتظامی بدعنوانیاں سے متاثر ہونے والوں کو بھی سیاسی نمائندگی کا حق ملنا چاہئے۔ سیاسی انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والوں کے لئے صرف یہی ایک صورت باقی بچی ہے کہ وہ برسرزمین حقائق اور اپنی محرومیوں کا ادارک کریں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کی عادت ترک کریں۔
مزدوروں‘ کسانوں‘ محنت کشوں کو چاہئے کہ وہ استحصال پر مبنی ’جمہوری و سیاسی ثقافت و تقاضوں‘ سے مزید جڑے رہنے کی بجائے ’عام آدمی پارٹی‘ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کریں کیونکہ موجودہ سیاسی روائتی نظام و ثقافت سے جڑے اُن کے حقوق پورا ہونے کا دور دور تک کوئی صورت‘ کوئی اِمکان‘ حتیٰ کہ تبدیلی کا کوئی شائبہ تک دکھائی نہیں دے رہا!
ایک طرف سیاسی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات ہیں جس کے لئے سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی نامزدگیاں تقسیم کیں ہیں اور دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں ہی سے وابستگیاں رکھنے والے منتخب و آزاد نمائندوں کو حکم جاری کیا گیا ہے کہ وہ انتخابات پر اثرانداز نہ ہوں! اگر سیاسی کرداروں کی شرکت اور سرکاری وسائل کا استعمال اِسی قدر منفی اثرات رکھتی ہے اور اِس پر مستقل پابندی عائد ہونی چاہئے تھی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ انتخابات اپنی ساخت میں سیاسی ہیں لیکن اس میں سیاست دان شرکت نہیں کرسکتے۔ چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ حکمنامہ جاری کرتے ہوئے جن امور کا خیال نہیں رکھا گیا اُن میں ہمارا سماجی مزاج‘ ماضی کی روایات‘ سیاسی ثقافت‘ سیاست دانوں کی دیدہ دلیری‘ ہمت‘ حوصلہ‘ بااثر لوگوں کے قانون و قواعد سے نمٹنے کا فن اُور ہنر شامل ہے‘ اِس لئے یہ حکمنامہ بھی دیگر کئی ہدایات کی طرح خاطر میں نہیں لایا جارہا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے چترال اور چترال سے ہزارہ تک خیبرپختونخوا کے ہر ضلع سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کسی نہ کسی طور پر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کی دامے‘ درہمے‘ سخنے مدد کر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی تصاویر پر مبنی بینرز اور پوسٹرز بھی کھلے عام آویزاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان اور اِن نشانوں سے متعلق نغمے‘ گیت اور ترانوں کی گونج بھی سنی جاسکتی ہے تو کیا ہم اَندھے‘ بہرے اُور گونگے بن جائیں کہ انتخابی قواعد کی سرعام خلاف ورزی پر دھیان ہی نہ دیں یا پھر یقین کر لیں کہ الیکشن کمیشن بناء سوچے سمجھے ایسے قواعد مرتب کر رہا ہے‘ جن کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں۔ اگر بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہو رہے ہیں تو سیاسی شخصیات بالخصوص منتخب عوامی نمائندے اِس پورے عمل سے کس طرح علیحدہ رہ سکتے ہیں یا خود کو علیحدہ رکھ سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں اُور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن اِس بات کو باریکی سے دیکھا جاتا ہے کہ اُن سے وابستگی رکھنے والے وفاداری کا حق کتنا ادا کر رہے ہیں بالخصوص منتخب نمائندے تو متعلقہ پارٹی کارکنوں کے سامنے نہ چاہتے ہوئے اپنی بانچھیں کھلی رکھتے ہیں کہ مبادا اُنہیں شکایت کا موقع نہ ملے۔ جمہوریت کا حسن ہی یہ ہے کہ اِس میں سیاسی کارکردگی کا احتساب بذریعہ عام انتخابات ہوتا ہے۔ پھر سیاسی شخصیات اِس مجبوری کے تحت بھی کارکنوں کو خوش رکھتے ہیں تاکہ اگر وہ کسی پارٹی عہدے کے لئے اُمیدوار ہوں تو کارکن اُن کی حمایت کریں اور وہ اِسی حمایت کی بناء پر آئندہ انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے اہل قرار پائیں۔ یہ بالکل سر پر لٹکنے والی ’دو دھاری تلوار‘ جیسا معاملہ ہے کہ ایک طرف منتخب ہونے کے بعد مختلف قانونی ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف پارٹی کے کارکنوں کی توقعات کہ جنہیں جائز و ناجائز جیسے درجات میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ مجبوریوں کا نام سیاست اور سیاست کا نام سمجھوتہ نہیں تو اُور کیا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ وہ ایسے قواعد تشکیل نہ دیں‘ جن پر نہ تو وہ خود عمل درآمد کراسکیں اور نہ ہی اُن کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بروقت گرفت کر سکیں۔ اپنے اختیارات و حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اُن زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے‘ جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ شفاف انتخابات صرف اور صرف ایک ہی صورت ممکن ہیں کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی ’عام آدمی پارٹی‘ بنا دی جائے اور جو کوئی الیکشن کمیشن کے ہاں درج شدہ (رجسٹرڈ) کم وبیش تین سو سیاسی جماعتوں میں سے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہ ہوں‘ اُنہیں ’عام آدمی پارٹی‘ کی جانب سے نامزدگی عطا کی جائے۔ اِس ’عام آدمی پارٹی‘ کی قیادت‘ منشور وضع کرنا اور حسابات وغیرہ کی ذمہ داری مزدوروں کی ٹریڈ یونینز پر مشتمل اتحاد کو سونپ دینی چاہئے کیونکہ پاکستان میں اگر قانون ساز ایوانوں میں ’سیاسی نمائندگی‘ سے محروم کوئی ہے تو وہ ’غریب‘ متوسط اور مزدور کسان طبقات‘ ہیں جنہیں نہ تو قانونی و سماجی سطح پر اِنصاف میسر ہے اُور نہ ہی اِن کی صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ تعصب‘ امتیازات‘ سفارش‘ رشوت اور حکمراں خاندانوں کی سرمایہ پرستی کی وجہ سے مالی و انتظامی بدعنوانیاں سے متاثر ہونے والوں کو بھی سیاسی نمائندگی کا حق ملنا چاہئے۔ سیاسی انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والوں کے لئے صرف یہی ایک صورت باقی بچی ہے کہ وہ برسرزمین حقائق اور اپنی محرومیوں کا ادارک کریں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کی عادت ترک کریں۔
مزدوروں‘ کسانوں‘ محنت کشوں کو چاہئے کہ وہ استحصال پر مبنی ’جمہوری و سیاسی ثقافت و تقاضوں‘ سے مزید جڑے رہنے کی بجائے ’عام آدمی پارٹی‘ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کریں کیونکہ موجودہ سیاسی روائتی نظام و ثقافت سے جڑے اُن کے حقوق پورا ہونے کا دور دور تک کوئی صورت‘ کوئی اِمکان‘ حتیٰ کہ تبدیلی کا کوئی شائبہ تک دکھائی نہیں دے رہا!
![]() |
No logic in code of conduct of polls |
No comments:
Post a Comment