Saturday, May 16, 2015

May2015: Local govt system is real democracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مقامی حکومت‘ بنیادی حکومت!
عالمی برادری بالخصوص امریکہ کا امدادی ادارہ ’یوایس ایڈ‘ چاہتا ہے کہ ’خیبرپختونخوا میں درپیش بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ شعوری اور حقیقی معنوی انداز میں طے ہو۔‘ اِس مقصد کے لئے غیرسرکاری تنظیم ’اسکائین‘ کے تجربے سے فائدہ اُٹھایا گیا ہے جو خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں انتخابی عمل سے متعلق اُمیدواروں اور رائے دہندگان کی رہنمائی کر رہی ہے۔ ایبٹ آباد میں ’اسکائین‘ کے زیراہتمام منعقدہ نشست میں سول سوسائٹی‘ سیاسی جماعتوں‘ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اُور الیکشن کمیشن کے اَراکین کو مدعو کیا گیا۔ سب کو اَیک دوسرے کا نکتۂ نظر‘ رائے اور تجاویز ’تسلی و تشفی‘ سے سننے کا موقع ملا‘ لیکن یہ سب ایک ایسے وقت میں ایک دوسرے کی ذہانتوں کا امتحان لے رہے تھے جبکہ ’الیکشن شیڈول‘ کا اعلان ہو چکا ہے اور آئندہ بارہ دن بعد پولنگ ہونا ہے!

پوری صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ ۔۔۔ بلدیاتی اِنتخابات سے متعلق قانون سازی کے مرحلے پر صوبائی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کا نکتۂ نظر سمجھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اُور جب انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے حصے میں آئی تو اُنہوں نے ’ضابطۂ اخلاق‘ پر مبنی قواعد و ضوابط تشکیل دینے میں اِس بات کو ضروری نہیں سمجھا کہ صوبائی حکومت سمیت جملہ سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد پولنگ سے قبل‘ پولنگ کے دن اور پولنگ کے بعد پیش آنے والے انتخابی مراحل کے بارے میں ہدایات و شرائط اُور لائحہ عمل مرتب کی جائیں‘ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ بلدیاتی انتخابات ایک سمت اور اس کے انعقاد کے لئے ذمہ دار ادارہ دوسری سمت میں سفر کر رہا ہے اور اگرچہ دونوں ہی کو کوشش ہے کہ ’سرخرو‘ ہوں لیکن ہر انتخابات کی طرح اِس مرتبہ بھی کئی محروم توجہ شعبے رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ۔۔۔’’جب ایک ووٹر کو 7 مختلف رنگوں کی پرچیاں تھمائی جائیں گی تو کم سے کم کتنے وقت میں اپنا ووٹ کاسٹ کر سکے گا؟‘‘ تصور کیجئے کہ کسی پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل ہونے اور پھر اپنے پولنگ بوتھ میں تصدیق کے مراحل طے کرنے میں اوسطاً کتنا وقت لگے گا؟ غیرسائنسی بنیاد پر حساب کتاب کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ہم فی ووٹ کاسٹ ہونے کا دورانیہ ’پانچ منٹ‘ اُوسط لگائیں تو مقررہ دورانیئے 9 گھنٹے میں 108 یا زیادہ سے زیادہ 120سے 150 ووٹ ہی کاسٹ ہو سکیں گے اور ووٹ ڈالنے کی یہ اوسط دیہی علاقوں میں مزید کم متوقع ہے کیونکہ ایک طرف سات مختلف رنگوں کی پرچیاں نبھانی ہیں اُور دوسری طرح کئی ایک مضحکہ خیز انتخابی نشانات کی تلاش میں عام ووٹرز (بالخصوص کم خواندہ یا بزرگوں) کو جس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘ اُس کا عملی مظاہرہ پولنگ کے دن عام ہوگا! الیکشن کمیشن کے مطابق شماریات کے سائنسی حساب کتاب کی روشنی میں 27 سے 30 سیکنڈ میں کسی ووٹر کو سات پرچیاں (ووٹ) جاری کئے جائیں گی اور ہر پولنگ بوتھ پر زیادہ سے زیادہ دو ہزار ووٹ کاسٹ ہونے کی بنیاد پر آبادی کو پولنگ مراکز میں تقسیم کیا گیا ہے جو کہ ایک آئیڈیل صورتحال ہے اور اِس کا حصول موجودہ بلدیاتی انتخاب کے موقع پر حصول ناممکنات میں سے ہوگا۔ لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لئے ایک صوبے نے ووٹ ڈالنے کے لئے کم سے کم عمر کی حد ’اٹھارہ سال‘ کی بجائے ’اکیس سال‘ مقرر کی ہے‘ جس کی وجہ سے گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے مقابلے اِس مرتبہ شرح پولنگ مزید کم آئے گی‘ پھر نتیجہ یہ نکالا جائے گا کہ دیکھئے عام آدمی کا جمہوری نظام پر سے اعتماد اُٹھ رہا ہے! شکر ہے خیبرپختونخوا میں ووٹ ڈالنے کے لئے عمر کی کم سے کم ’اٹھارہ سال‘ کی حد حسب سابق مقرر ہے! جو بہت سی تجاویز سنی اَن سنی کر دی گئیں ان میں کہ ۔۔۔ ’’1: ضلع‘ تحصیل یا دیہی و ہمسائیگی کونسل کے لئے پولنگ انتخابات اَلگ اَلگ یعنی ’تین دن‘ میں کرائے جائیں۔2: بلدیاتی انتخابات میں خواتین کا بطور اُمیدوار اور ووٹر حصہ لینے کے لئے الگ سے حکمت عملی ترتیب جاتی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر عظمی خان اُور ثوبیہ خان کا تعلق ’لوئر دیر‘ سے ہے لیکن ’لوئر دیر‘ میں جب ضمنی اِنتخابات ہوئے تو بطور اُمیدوار حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے آپسی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ’’خواتین کی پولنگ نہیں ہوگی!‘‘ اُور ’واہ واہ‘ تو الیکشن کمیشن کے لئے جس نے ایک ایسے انتخابی نتیجے کو درست تسلیم کر لیا‘ جہاں غیرتحریری و غیراعلانیہ (درپردہ) خواتین کو پولنگ کے عمل سے الگ رکھا گیا! سیاسی جماعتوں پر مسلط آمریت (تضادات)کا خاتمہ اُور آمرانہ فیصلوں میں قیادت کے اختیار الیکشن کمیشن ہی کے ذریعے ختم کئے جا سکتے ہیں۔ بہرکیف خیبرپختونخوا کی سطح پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں جو دانستہ کوتاہیاں رہ گئیں ہیں‘ ان کی اصلاح دیگر صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے موقع پر کیا جاسکتا ہے۔

خیبرپختونخوا کی ’سلیکٹ کمیٹی‘ کے سامنے جب بلدیاتی قانون کی جزئیات طے کرنے کی ذمہ داری پڑی تھی اور ایک چھت تلے غوروخوض آخری مرحلے میں تھا تو اس بات کی کوشش کی گئی کہ بلدیاتی نمائندوں بشمول ناظمین (چیئرمینوں) کے اختیارات کم سے کم رکھے جائیں۔ ناظمین کو اِختیارات دینے کے مراحل تھے تو کئی ایک اراکین اسمبلی تلملا اُٹھے اور بولے کہ پھر ’’رکن اسمبلی (اِیم پی اَے) کے پاس کیا رہے گا؟‘‘ اراکین اسمبلی جب خود سفر کرتے ہیں یا حتی کہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں تو حسب شان ’ٹی اے/ڈی اے‘ لینا نہیں بھولتے لیکن جب بلدیاتی نمائندوں اور اِداروں کی بات آئی تو ملاحظہ کیجئے کہ صوبے کا 70فیصد ترقیاتی بجٹ قانون ساز اِسمبلی کے اَراکین کے پاس رہے گا اُور صرف 30 فیصد اُن بلدیاتی نمائندوں کو ملے گا‘ جن کے پاس بمشکل انتظامی اخراجات کے بعد جو کچھ بچے گا‘ اِس سے (اندیشہ ہے کہ) تحصیل‘ ضلع اُور دیہی و ہمسائیگی کونسل کے اراکین میں مسائل حل کرنے کے لئے یک سوئی و ہم آہنگی کی بجائے سیاسی اِختلافات ذاتی دشمنیوں کی صورت سامنے آئیں گے۔ مقامی حکومت ہی بنیادی حکومت ہے اور بنیادی حکومت کی روح‘ اس کی اہمیت کا کماحقہ ادراک وقت کی ضرورت ہے۔
SEMINAR Report on Local Govt Elections

No comments:

Post a Comment