Is the sun the answer
شمسی توانائی: ایک حل
پاکستان میں توانائی کے بحران کا موسم گرما میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اور
یہی وجہ ہے کہ نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعتیں بھی بجلی نہ ہونے کی وجہ
سے متاثر ہوتی ہیں۔ برقی رو کے طویل تعطل پر احتجاج بھی کوئی نئی بات نہیں
اور اخبارات میں ایسی خبریں تو اب شہ سرخیوں کے ساتھ شائع بھی نہیں ہوتیں
کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف اگر کسی شہر میں صارفین یا صنعتی مزدور احتجاج
کر رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ توانائی کے اس بحران کا کوئی ایسا فوری حل بھی
موجود ہے جس سے حالات پر قابو پایا جا سکے جبکہ پن بجلی کے چھوٹے بڑے
منصوبے یا تیل وگیس سے بجلی کے پیداواری منصوبوں کے قائم کرنے میں سالہا
سال کا عرصہ اور کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
توانائی کی سب سے زیادہ ضرورت صنعتی شعبے کو ہے جس سے لاکھوں ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور اگر حکومت صنعتوں کی مالی سرپرستی کرے تو ہر ایک صنعت اپنی ضروریات کے مطابق بجلی کے پیداواری یونٹس لگا سکتی ہے جس سے مرکزی پیداواری نظام (نیشنل گرڈ) پر بجلی کی طلب کا بوجھ کم ہو سکتا ہے لیکن اس قسم کی حکمت عملی اور سوچ میں تبدیلی اپنی جگہ ایک بڑا کام ہے جس کے کرنے کے لئے نہ صرف سیاسی قیادت کا رضامند ہونا ضروری ہے بلکہ صنعتکاروں اور چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتوں کو قائل کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کی طرف رغبت اُور اِس کے استعمال کے فائدوں سے زیادہ نقصانات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
جب ہم بجلی تیل یا مائع گیس سے پیدا کر رہے ہوتے ہیں جو کہ ایک درآمد ہونے والا ایندھن ہے تو اس کی قیمت مستقل نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی ردوبدل آتا رہتا ہے اور یہ بات گھریلو صارفین کے لئے قابل برداشت نہیں ہوتی کہ بجلی کی قیمت تیل کے نرخوں کے اتارچڑھاؤ سے جڑ جائے۔ پھر یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ جب بجلی خام تیل یا مائع گیس یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے تو اس سے ماحول کے لئے خطرناک قسم کی گیسیں خارج ہوتی ہیں جس کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر ہم نسبتاً کم قیمت بجلی کی پیداوار فضائی آلودگی کی قیمت پر حاصل کرنے کو آسان سمجھ رہے ہیں تو یہ ہماری بھول ہے کیونکہ ماحول کی تباہی سے زیادہ بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘ جیسا کہ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ایک ہوائی بگولے نے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں اور قبائلی علاقوں میں زندگی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ بجلی کی پیداواری لاگت اور نقصانات اگرچہ زیادہ ہیں لیکن ہماری صنعتیں اور حکومتیں اس کے متبادل ذرائع پر توجہ نہیں دے رہیں جس پر ابتدأ میں تو لاگت زیادہ آتی ہے لیکن ماحول دوستی اور لمبے عرصے کی سرمایہ کاری جیسے دیگر کئی ایک محرکات کو دیکھا جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ متبادل توانائی کے ذرائع میں شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت (پن چکیوں) سے بجلی کے پیداواری وسیع امکانات موجود ہیں۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے ’کلو واٹ‘ منصوبے چھوٹے پیمانے پر بھی نصب ہیں لیکن اِنہیں ’میگاواٹ‘ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اب تک حکومت اور صارفین کی جانب سے جو ملا جلا رجحان سامنے آیا ہے اُس میں مخالفت کی بڑی وجہ اِس ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ واقفیت اور اس کی بعدازفروخت دیکھ بھال (مینٹیننس) کا ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی نہیں کہ جن کا مقامی طور پر بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ضرورت صرف اور صرف اس بات کا فیصلہ کرنے کی ہے کہ اگر ہمیں توانائی بحران سے نمٹنا ہے تو اس کے لئے ہمارے پاس کیا کچھ وسائل و امکانات موجود ہیں اور اُن سے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر کس حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کو وسعت دینے کے لئے میں تحقیق کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اگر ہم اپنی جامعات میں توانائی ہی کو موضوع بنا دیں تو کوئی وجہ نہیں ہونہار طلباء و طالبات ایسے کئی دیگر وسائل بھی کھوج نکالیں جو مقامی دستیاب اشیاء سے بنائے گئے ہوں اور جن کی قیمت بھی کم ہو۔
خوش آئند ہے کہ پاکستان اپنا پہلا 100 میگاواٹ کا ’آن گرڈ‘ شمسی پاور پلانٹ نصب کرچکا ہے جس نے کام بھی شروع کردیا ہے۔ اِس منصوبے پر کام کا آغاز 2013ء میں ہوا تھا جو قائد اعظم سولر پاور پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی (کیو اے سولر) نے سرانجام دیا اور یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی ملکیت ہے۔ اِس منصوبے کے لئے پنجاب کی صوبائی حکومت نے 25فیصد مالی وسائل فراہم کئے تھے جبکہ باقی 75فیصد مالی وسائل ’پنجاب بینک‘ سے قرض لے کر پورا کئے گئے اور یہ رقم بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے آئندہ 10برس میں ادا کی جائے گی یعنی دس سال بعد شمسی توانائی کے اِس منصوبے پر خرچ کئے جانے والی تمام رقم وصول ہو جائے گی بلکہ یہ منصوبہ آئندہ بیس برس تک بجلی بھی فراہم کرتا رہے گا اور اِسی قسم کے مزید دو بجلی کے پیداواری منصوبے لگائے جا سکیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ جب پنجاب حکومت ایک سو میگا واٹ شمسی توانائی کا پیداواری منصوبہ شروع کرنے جا رہی تھی تو اُس کے پاس ایسا کرنے کا زیادہ تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی اُنہیں غیرملکی تکنیکی امداد حاصل تھی اِس لئے بہت سی مشکلات پیش آئیں لیکن بہرکیف یہ ہدف حاصل کرلیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ ہماری صنعتیں سالانہ اوسطاً 3 ہزار 500 ایسے گھنٹے ضائع کردیتی ہیں جبکہ سورج اُن کے سروں پر چمک رہا ہوتا ہے اور اُس کی شعاؤں سے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک سنہرا موقع ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ صنعتیں اُٹھا سکتی ہیں۔ پنجاب حکومت نے بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کا ہدف حاصل کرکے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور اگر سیاسی مخالفت یا صوبائی تعصب جیسی عمومی منفی رجحانات آڑے نہ آئیں تو اِس عملی مثال کا مشاہدہ کرکے دیگر صوبے بھی یکساں مستفید ہو سکتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اسد نجیب۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
توانائی کی سب سے زیادہ ضرورت صنعتی شعبے کو ہے جس سے لاکھوں ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور اگر حکومت صنعتوں کی مالی سرپرستی کرے تو ہر ایک صنعت اپنی ضروریات کے مطابق بجلی کے پیداواری یونٹس لگا سکتی ہے جس سے مرکزی پیداواری نظام (نیشنل گرڈ) پر بجلی کی طلب کا بوجھ کم ہو سکتا ہے لیکن اس قسم کی حکمت عملی اور سوچ میں تبدیلی اپنی جگہ ایک بڑا کام ہے جس کے کرنے کے لئے نہ صرف سیاسی قیادت کا رضامند ہونا ضروری ہے بلکہ صنعتکاروں اور چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتوں کو قائل کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کی طرف رغبت اُور اِس کے استعمال کے فائدوں سے زیادہ نقصانات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
جب ہم بجلی تیل یا مائع گیس سے پیدا کر رہے ہوتے ہیں جو کہ ایک درآمد ہونے والا ایندھن ہے تو اس کی قیمت مستقل نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی ردوبدل آتا رہتا ہے اور یہ بات گھریلو صارفین کے لئے قابل برداشت نہیں ہوتی کہ بجلی کی قیمت تیل کے نرخوں کے اتارچڑھاؤ سے جڑ جائے۔ پھر یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ جب بجلی خام تیل یا مائع گیس یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے تو اس سے ماحول کے لئے خطرناک قسم کی گیسیں خارج ہوتی ہیں جس کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر ہم نسبتاً کم قیمت بجلی کی پیداوار فضائی آلودگی کی قیمت پر حاصل کرنے کو آسان سمجھ رہے ہیں تو یہ ہماری بھول ہے کیونکہ ماحول کی تباہی سے زیادہ بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘ جیسا کہ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ایک ہوائی بگولے نے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں اور قبائلی علاقوں میں زندگی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ بجلی کی پیداواری لاگت اور نقصانات اگرچہ زیادہ ہیں لیکن ہماری صنعتیں اور حکومتیں اس کے متبادل ذرائع پر توجہ نہیں دے رہیں جس پر ابتدأ میں تو لاگت زیادہ آتی ہے لیکن ماحول دوستی اور لمبے عرصے کی سرمایہ کاری جیسے دیگر کئی ایک محرکات کو دیکھا جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ متبادل توانائی کے ذرائع میں شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت (پن چکیوں) سے بجلی کے پیداواری وسیع امکانات موجود ہیں۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے ’کلو واٹ‘ منصوبے چھوٹے پیمانے پر بھی نصب ہیں لیکن اِنہیں ’میگاواٹ‘ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اب تک حکومت اور صارفین کی جانب سے جو ملا جلا رجحان سامنے آیا ہے اُس میں مخالفت کی بڑی وجہ اِس ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ واقفیت اور اس کی بعدازفروخت دیکھ بھال (مینٹیننس) کا ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی نہیں کہ جن کا مقامی طور پر بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ضرورت صرف اور صرف اس بات کا فیصلہ کرنے کی ہے کہ اگر ہمیں توانائی بحران سے نمٹنا ہے تو اس کے لئے ہمارے پاس کیا کچھ وسائل و امکانات موجود ہیں اور اُن سے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر کس حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کو وسعت دینے کے لئے میں تحقیق کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اگر ہم اپنی جامعات میں توانائی ہی کو موضوع بنا دیں تو کوئی وجہ نہیں ہونہار طلباء و طالبات ایسے کئی دیگر وسائل بھی کھوج نکالیں جو مقامی دستیاب اشیاء سے بنائے گئے ہوں اور جن کی قیمت بھی کم ہو۔
خوش آئند ہے کہ پاکستان اپنا پہلا 100 میگاواٹ کا ’آن گرڈ‘ شمسی پاور پلانٹ نصب کرچکا ہے جس نے کام بھی شروع کردیا ہے۔ اِس منصوبے پر کام کا آغاز 2013ء میں ہوا تھا جو قائد اعظم سولر پاور پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی (کیو اے سولر) نے سرانجام دیا اور یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی ملکیت ہے۔ اِس منصوبے کے لئے پنجاب کی صوبائی حکومت نے 25فیصد مالی وسائل فراہم کئے تھے جبکہ باقی 75فیصد مالی وسائل ’پنجاب بینک‘ سے قرض لے کر پورا کئے گئے اور یہ رقم بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے آئندہ 10برس میں ادا کی جائے گی یعنی دس سال بعد شمسی توانائی کے اِس منصوبے پر خرچ کئے جانے والی تمام رقم وصول ہو جائے گی بلکہ یہ منصوبہ آئندہ بیس برس تک بجلی بھی فراہم کرتا رہے گا اور اِسی قسم کے مزید دو بجلی کے پیداواری منصوبے لگائے جا سکیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ جب پنجاب حکومت ایک سو میگا واٹ شمسی توانائی کا پیداواری منصوبہ شروع کرنے جا رہی تھی تو اُس کے پاس ایسا کرنے کا زیادہ تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی اُنہیں غیرملکی تکنیکی امداد حاصل تھی اِس لئے بہت سی مشکلات پیش آئیں لیکن بہرکیف یہ ہدف حاصل کرلیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ ہماری صنعتیں سالانہ اوسطاً 3 ہزار 500 ایسے گھنٹے ضائع کردیتی ہیں جبکہ سورج اُن کے سروں پر چمک رہا ہوتا ہے اور اُس کی شعاؤں سے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک سنہرا موقع ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ صنعتیں اُٹھا سکتی ہیں۔ پنجاب حکومت نے بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کا ہدف حاصل کرکے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور اگر سیاسی مخالفت یا صوبائی تعصب جیسی عمومی منفی رجحانات آڑے نہ آئیں تو اِس عملی مثال کا مشاہدہ کرکے دیگر صوبے بھی یکساں مستفید ہو سکتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اسد نجیب۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
No comments:
Post a Comment