ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قبائلی علاقے اِصلاحات: خواب یا حقیقت
قبائلی علاقے اِصلاحات: خواب یا حقیقت
وفاقی حکومت کے زیرغور قبائلی علاقوں میں کثیرالجہتی اِصلاحات (ریفارمز)
ہیں‘ جن میں سرفہرست امن و امان (سیکورٹی) کی صورتحال میں بہتری‘ ملک کے
دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقوں میں انصاف کے دائرۂ کار کی توسیع‘ مؤثر و
بلاامتیاز اُور فوری انصاف کی فراہمی‘ قبائلی علاقوں کے انتظامی معاملات کی
فعالیت میں اضافہ‘ طرز حکمرانی میں شفافیت اور انتظامی معاملات پر حکومت
کی دسترس (گرفت) بڑھانے کے لئے کئی ایک اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ اِس
سلسلے میں ’مفکرین و دانشوروں‘ پر مبنی ’قبائلی علاقوں سے متعلق اصلاحات
وضع کرنے والی کمیٹی‘ نے اپنی سفارشات حکومت کے حوالے کر دی ہیں اُور توقع
کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ۔۔۔ ’’اگر اِن اصلاحات کو عملی طور پر نافذ کر
دیا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال
میں بہتری کے ساتھ اُس اقتصادی ترقی کا دور بھی شروع ہو جائے جس کا ایک
عرصے سے انتظار ہے!‘‘ لیکن سب سے اہم‘ کلیدی اور بنیادی سوال ’قبائلی
علاقوں کی حیثیت‘ ڈھانچے میں تبدیلی‘ اور وہاں پر رائج امتیازی قواعد
’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر)‘ کو یکسر تبدیل کرنے کا ہے لیکن
افسوس کہ وضع کی جانے والی اصلاحات میں اِن دونوں پہلوؤں کو لائق توجہ نہیں
سمجھا گیا۔ جن دانشوروں نے سرکاری خرچ پر ہونے والے اجلاسوں میں غوروخوض
کا عمل مکمل کیا اُن کی پہلی کوشش یہی دکھائی دی کہ قبائلی علاقوں کی الگ‘
امتیازی و منفرد حیثیت کو ’جوں کا توں‘ برقرار رکھا جائے۔ قبائلی علاقے
پاکستان کا حصّہ تو ہیں لیکن انہیں ملک کے دیگر بندوبستی علاقوں کے رہنے
والوں کی طرح مساوی حقوق نہ دیئے جائیں۔ انہیں ساتھ گنتے ہوئے بھی الگ
سمجھا جائے‘ الگ رکھا جائے اور اِن سے الگ معاملہ کیاجائے۔ دوسری اہم بات
’ایف سی آر‘ قواعد کی ہے کہ جن چند ظالمانہ شقوں کو ’نرم‘ کرنے پر اِتفاق
سامنے آیا ہے (وہ ایسی نئی یا انوکھی بات بھی نہیں) لیکن اِس بات کا کوئی
’منطقی جواز اُور ضرورت‘ سرے سے موجود ہی نہیں کہ ’اَیف سی آرز‘ کو باقی
رکھاجائے۔ کیا یہ بات مبنی برانصاف معلوم ہوتی ہے کہ ایک ہی ملک میں رہنے
والوں کو دو الگ الگ طریقوں سے اِنصاف تک رسائی کا حق دیا جائے؟
قبائلی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اعجاز احمد قریشی نے حتمی رپورٹ گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب احمد خان کے حوالے کر دی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ ’’اب جو بھی کرنا ہے حکومت نے کرنا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ماضی میں اِسی قسم کی 2عدد ’پرمغز تجاویز و شفارشات‘ پر مبنی ’ضخیم رپورٹیں‘ تیار کی گئیں جن میں سے ایک معروف قانون داں لطیف آفریدی اور دوسری جسٹس ریٹائرڈ میاں محمد اجمل نے دیگر اراکین کی مشاورت (اِن پٹ) کے ساتھ تیار کیا لیکن اُن الفاظ پر بھی تمام تر اُمیدوں اُور زبانی دعوؤں کے باوجود عمل درآمد نہ ہوسکا!
تازہ ترین وضع کردہ اصلاحات کے مطابق قبائلی علاقوں کے لئے ایک ایسی سیکورٹی فورس بنائی جائے جس کے 500 اہلکار ہر ایک قبائلی علاقے میں تعینات کئے جائیں جبکہ اِسی ’خصوصی لیویز فورس‘ کے 200 اہلکار ہر ایک فرنٹیئر ریجن (ایف آرز) میں بھی الگ سے تعینات کئے جائیں گے۔ اِس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ’خصوصی (مستعد) لیویز فورس‘ کو جدید ترین ہتھیاروں اور تربیت سے لیس کیا جائے۔ شاید ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے برسرزمین حقائق کا ادراک کیا گیا ہے اور سیکورٹی صورتحال کے لئے اِس بات کو ضروری سمجھا گیا ہے کہ ایک نئی لیویز فورس تشکیل دی جائے۔ یہ تصور نیا نہیں بلکہ ماضی میں پیش کیا جا چکا ہے اور اِس کا مسودہ منظوری کے لئے مرحلہ وار مسافت طے کرتے ہوئے اُس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کی میز تک جا پہنچا جو مزید فائلوں نیچے دب کر دم توڑ چکا ہے! المیہ رہا ہے کہ ہم فیصلے تو کرتے ہیں لیکن بروقت اقدامات کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمارے حکمران اصلاحات و اقدامات کا ’کریڈٹ‘ لینے کے لئے ذرائع ابلاغ میں تشہیری مہمات پر عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن اُن کی کم عملی‘ کوتاہی‘ ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ترجیحات‘ سستی و کاہلی‘ سیاسی تفکرات آڑے آتی ہیں وہ حساس معاملات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ ہر چند برس بعد قبائلی علاقوں میں ایک فوجی کاروائی کی ضرورت پیش آتی ہے جس میں سینکڑوں فوجی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں! فیصلہ سازی جب سیاست دانوں کو سونپی جاتی ہے تو اب تک یہی حاصل رہا ہے کہ وہ ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے اور نہ ہی اُن کی وجہ سے پوری قوم کو نقصان اور خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے اُس کے لئے اُنہیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے! پانچ سال حکومت میں رہنا کوئی کمال نہیں تھا لیکن پانچ سال تک مسلط رہ کر پورے سیاسی و انتظامی نظام کو مفاد پرستی اور لین دین کے اصولوں پر چلانے سے جن خرابیوں نے جنم لیا‘ اُن کا ذکر بھی تو ہونا چاہئے؟ حقیقت تو یہی ہے کہ وفاق قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو بندوبستی علاقوں کے مساوی نہ تو حقوق دینا چاہتا ہے اور نہ ہی اُن کی کسمپرسی‘ غلامی و محکومی‘ غربت و ناخواندگی‘ بے ہنری و بے توقیری کا ذلت بھرا دور اِس لمحۂ موجود میں ختم کرنے کا خواہاں ہے۔ قبائلی علاقے کسی ’فائرنگ رینج‘ جیسے ہیں جہاں جس کا دل چاہتا ہے نشانہ بازی کی مشق کرنے جا پہنچتا ہے حالانکہ اصلاحات کوئی ایسا پیچیدہ عمل نہیں کہ اِس کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر کے رپورٹیں تیار کی جائیں اور ہر رپورٹ کے بعد ایک نئی دوسری رپورٹ کی ضرورت محسوس کی جائے۔ آخر یہ کس قسم کی اصلاحات ہیں کہ جن میں قبائلیوں کے بنیادی حقوق اور اُنہیں پاکستان کے آئین کے مطابق انصاف تک رسائی کا حق حاصل نہیں؟ تجویز کیا گیا ہے کہ ’فاٹا ٹربیونل‘ کے اراکین کی تعداد میں اضافہ کرکے 4 کردی جائے اور اِس ٹریبونل کی سربراہی ’ہائی کورٹ‘ میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے والے کسی (ریٹائر) جج کو سونپی جائے۔ اگر انصاف ریٹائرڈ ہونے والے جج ہی نے کرنا ہے تو یہ کام وہ بندوبستی علاقے میں کیوں نہیں کرتا کہ جو شخص عمر کے تقاضے اور جسمانی کمزوریوں کی وجہ سے عدالتی نظام کے لئے مزید مفید نہ سمجھا جائے اُسے قبائلیوں پر مسلط کر دیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ وہ بہتر انصاف فراہم کرے گا! یہ بھی خودفریبی اور خام خیالی ہے کہ جس ملک میں جرائم کا فیصلہ عدالتیں سالہا سال نہ کرسکتی ہوں وہاں کیونکر ممکن ہوگا کہ ’قبائلی علاقوں کے ٹریبونلز‘ 60 اور 90دن میں بالترتیب ’کریمینل اور سول مقدمات‘ کا فیصلہ کر پائیں گے! کیا نئی اصلاحات کے ذریعے طالبان طرز کی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو کھڑے کھڑے فیصلے سنایا کریں گی؟
اصلاحات کے مطابق ہر قبائلی علاقے میں 20سے 25اراکین پر مشتمل ’ایجنسی کونسل‘ ہوگی‘ جس کی تشکیل آبادی کے تناسب سے ہوگی جبکہ فرنٹیئر ریجنز (ایف آر) کے علاقوں میں 9سے 11 اراکین پر مشتمل ’ایجنسی کونسلز‘ ہوں گی۔ ملاحظہ کیجئے کہ بالغ رائے دہی کی بجائے اراکین کا انتخاب قبائلی رسم و رواج کے مطابق کیا جائے گا۔ اس کے علاؤہ منتخب نمائندے اور 4ٹیکنوکریٹ بھی اِس کونسل کا حصہ ہوں گے۔ پہلے 2برس پولیٹیکل ایجنٹس اور ایف آرز کے ڈپٹی کمشنرز ’ایجنسی کونسل‘ کے اجلاس کی صدارت کریں گے جبکہ منتخب اراکین ایک وائس چیئرمین بنائیں گے جو قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں سے متعلق ترجیحات کا تعین اور فیصلے کریں گے۔ ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح افسرشاہی قبائلیوں پر اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کی خواہشمند ہے! کس طرح ایک نظام کی بجائے اُن پر مختلف قسم کا ظالمانہ نظام مسلط کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ قبائلی ہوں یا بندوبستی‘ عوام سے بھیڑبکریوں کی طرح معاملہ کرنے سے بہتری نہیں آئے گی۔ درخشاں مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ حکمراں تصورات رکھنے والی افسرشاہی اور اصلاح و خدمت کی بجائے حکمرانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے والی حکمراں خاندان اپنے فکروعمل میں تبدیلی لائیں!
قبائلی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اعجاز احمد قریشی نے حتمی رپورٹ گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب احمد خان کے حوالے کر دی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ ’’اب جو بھی کرنا ہے حکومت نے کرنا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ماضی میں اِسی قسم کی 2عدد ’پرمغز تجاویز و شفارشات‘ پر مبنی ’ضخیم رپورٹیں‘ تیار کی گئیں جن میں سے ایک معروف قانون داں لطیف آفریدی اور دوسری جسٹس ریٹائرڈ میاں محمد اجمل نے دیگر اراکین کی مشاورت (اِن پٹ) کے ساتھ تیار کیا لیکن اُن الفاظ پر بھی تمام تر اُمیدوں اُور زبانی دعوؤں کے باوجود عمل درآمد نہ ہوسکا!
تازہ ترین وضع کردہ اصلاحات کے مطابق قبائلی علاقوں کے لئے ایک ایسی سیکورٹی فورس بنائی جائے جس کے 500 اہلکار ہر ایک قبائلی علاقے میں تعینات کئے جائیں جبکہ اِسی ’خصوصی لیویز فورس‘ کے 200 اہلکار ہر ایک فرنٹیئر ریجن (ایف آرز) میں بھی الگ سے تعینات کئے جائیں گے۔ اِس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ’خصوصی (مستعد) لیویز فورس‘ کو جدید ترین ہتھیاروں اور تربیت سے لیس کیا جائے۔ شاید ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے برسرزمین حقائق کا ادراک کیا گیا ہے اور سیکورٹی صورتحال کے لئے اِس بات کو ضروری سمجھا گیا ہے کہ ایک نئی لیویز فورس تشکیل دی جائے۔ یہ تصور نیا نہیں بلکہ ماضی میں پیش کیا جا چکا ہے اور اِس کا مسودہ منظوری کے لئے مرحلہ وار مسافت طے کرتے ہوئے اُس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کی میز تک جا پہنچا جو مزید فائلوں نیچے دب کر دم توڑ چکا ہے! المیہ رہا ہے کہ ہم فیصلے تو کرتے ہیں لیکن بروقت اقدامات کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمارے حکمران اصلاحات و اقدامات کا ’کریڈٹ‘ لینے کے لئے ذرائع ابلاغ میں تشہیری مہمات پر عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن اُن کی کم عملی‘ کوتاہی‘ ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ترجیحات‘ سستی و کاہلی‘ سیاسی تفکرات آڑے آتی ہیں وہ حساس معاملات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ ہر چند برس بعد قبائلی علاقوں میں ایک فوجی کاروائی کی ضرورت پیش آتی ہے جس میں سینکڑوں فوجی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں! فیصلہ سازی جب سیاست دانوں کو سونپی جاتی ہے تو اب تک یہی حاصل رہا ہے کہ وہ ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے اور نہ ہی اُن کی وجہ سے پوری قوم کو نقصان اور خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے اُس کے لئے اُنہیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے! پانچ سال حکومت میں رہنا کوئی کمال نہیں تھا لیکن پانچ سال تک مسلط رہ کر پورے سیاسی و انتظامی نظام کو مفاد پرستی اور لین دین کے اصولوں پر چلانے سے جن خرابیوں نے جنم لیا‘ اُن کا ذکر بھی تو ہونا چاہئے؟ حقیقت تو یہی ہے کہ وفاق قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو بندوبستی علاقوں کے مساوی نہ تو حقوق دینا چاہتا ہے اور نہ ہی اُن کی کسمپرسی‘ غلامی و محکومی‘ غربت و ناخواندگی‘ بے ہنری و بے توقیری کا ذلت بھرا دور اِس لمحۂ موجود میں ختم کرنے کا خواہاں ہے۔ قبائلی علاقے کسی ’فائرنگ رینج‘ جیسے ہیں جہاں جس کا دل چاہتا ہے نشانہ بازی کی مشق کرنے جا پہنچتا ہے حالانکہ اصلاحات کوئی ایسا پیچیدہ عمل نہیں کہ اِس کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر کے رپورٹیں تیار کی جائیں اور ہر رپورٹ کے بعد ایک نئی دوسری رپورٹ کی ضرورت محسوس کی جائے۔ آخر یہ کس قسم کی اصلاحات ہیں کہ جن میں قبائلیوں کے بنیادی حقوق اور اُنہیں پاکستان کے آئین کے مطابق انصاف تک رسائی کا حق حاصل نہیں؟ تجویز کیا گیا ہے کہ ’فاٹا ٹربیونل‘ کے اراکین کی تعداد میں اضافہ کرکے 4 کردی جائے اور اِس ٹریبونل کی سربراہی ’ہائی کورٹ‘ میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے والے کسی (ریٹائر) جج کو سونپی جائے۔ اگر انصاف ریٹائرڈ ہونے والے جج ہی نے کرنا ہے تو یہ کام وہ بندوبستی علاقے میں کیوں نہیں کرتا کہ جو شخص عمر کے تقاضے اور جسمانی کمزوریوں کی وجہ سے عدالتی نظام کے لئے مزید مفید نہ سمجھا جائے اُسے قبائلیوں پر مسلط کر دیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ وہ بہتر انصاف فراہم کرے گا! یہ بھی خودفریبی اور خام خیالی ہے کہ جس ملک میں جرائم کا فیصلہ عدالتیں سالہا سال نہ کرسکتی ہوں وہاں کیونکر ممکن ہوگا کہ ’قبائلی علاقوں کے ٹریبونلز‘ 60 اور 90دن میں بالترتیب ’کریمینل اور سول مقدمات‘ کا فیصلہ کر پائیں گے! کیا نئی اصلاحات کے ذریعے طالبان طرز کی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو کھڑے کھڑے فیصلے سنایا کریں گی؟
اصلاحات کے مطابق ہر قبائلی علاقے میں 20سے 25اراکین پر مشتمل ’ایجنسی کونسل‘ ہوگی‘ جس کی تشکیل آبادی کے تناسب سے ہوگی جبکہ فرنٹیئر ریجنز (ایف آر) کے علاقوں میں 9سے 11 اراکین پر مشتمل ’ایجنسی کونسلز‘ ہوں گی۔ ملاحظہ کیجئے کہ بالغ رائے دہی کی بجائے اراکین کا انتخاب قبائلی رسم و رواج کے مطابق کیا جائے گا۔ اس کے علاؤہ منتخب نمائندے اور 4ٹیکنوکریٹ بھی اِس کونسل کا حصہ ہوں گے۔ پہلے 2برس پولیٹیکل ایجنٹس اور ایف آرز کے ڈپٹی کمشنرز ’ایجنسی کونسل‘ کے اجلاس کی صدارت کریں گے جبکہ منتخب اراکین ایک وائس چیئرمین بنائیں گے جو قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں سے متعلق ترجیحات کا تعین اور فیصلے کریں گے۔ ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح افسرشاہی قبائلیوں پر اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کی خواہشمند ہے! کس طرح ایک نظام کی بجائے اُن پر مختلف قسم کا ظالمانہ نظام مسلط کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ قبائلی ہوں یا بندوبستی‘ عوام سے بھیڑبکریوں کی طرح معاملہ کرنے سے بہتری نہیں آئے گی۔ درخشاں مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ حکمراں تصورات رکھنے والی افسرشاہی اور اصلاح و خدمت کی بجائے حکمرانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے والی حکمراں خاندان اپنے فکروعمل میں تبدیلی لائیں!
No comments:
Post a Comment