ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی انتخابات: حالات و مشکلات
بلدیاتی انتخابات: حالات و مشکلات
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے انتظامات کو جس قدر ’کریدا‘ جائے اُتنی
ہی خول در خول پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں‘ جس سے پورا عمل پہلی مرتبہ ہونے جا
رہے اُس تجربے جیسا ہے‘ جس کے نتائج سے بہتری کے لئے پراُمید نہ ہونے والے
بھی سمجھتے ہیں کہ یہ تسلسل بہرحال جاری رہنا چاہئے کیونکہ منظم اَنداز
میں مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے انتخابات کا سلسلہ بہتر ہوتا چلا جائے گا
یقیناًاگر قسمت ساتھ دے تو ایسا ہی ہوگا لیکن سب جانتے ہیں کہ
خیبرپختونخوا کے داخلی حالات ملک کے دیگر تین صوبوں سے کتنے مختلف ہیں۔
یہاں قبائلی علاقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے نہ تو امن و امان کی صورتحال
مثالی ہے اور نہ ہی شہری و دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کے ڈھانچے پر
افغان مہاجرین و قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا بوجھ قابل
برداشت رہا ہے۔ ایسی صورت میں مقامی حکومتوں سے وابستہ توقعات اور اُمیدیں
تین قسم کی ہیں۔ سب سے پہلے تو قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہونے
کے بعد اپنے اپنے انتخابی حلقوں کو بھول جاتے ہیں‘ تو وہاں کے رہنے والوں
کی رائے کلیدی فیصلوں‘ باہمی تنازعات و مسائل کے حل‘ ترقیاتی حکمت عملیاں
اُور‘ روزمرہ کے دیگر اَمور کے بارے مقامی سطح پر ہی غوروخوض ہو۔ مقامی
حکومتوں سے وابستہ دوسری اُمید امن و امان کے قیام کی ہے کہ برسراقتدار آنے
کے بعد ہر ضلع و تحصیل اور دیہی و ہمسائیگی کونسل کی سطح پر پائی جانے
والی اجنبیت کا خاتمہ ہوگا جبکہ تیسری اُمید قانون نافذ کرنے والے اداروں
کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ جن علاقوں کو عسکریت پسندوں یا انتہاء پسندوں سے
خالی کرایا جاتا ہے وہاں کی نگرانی کا نظام انتظامیہ اور مقامی افراد اپنے
ہاتھ میں نہیں لیتے۔ جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ اُٹھاتے
ہوئے سماج دشمن عناصر پھر سے متحد و فعال ہو جاتے ہیں۔
ماضی کی مقامی حکومتوں کے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ قیام (تجربے) کا حاصل یہ رہا کہ جن ناظمین کے صوبائی یا وفاقی حکومت سے تعلقات بہتر تھے‘ اُنہیں اپنے اپنے ضلع کے لئے نہ تو مالی وسائل حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتیں اور نہ ہی اُن کے وضع کردہ ترقیاتی منصوبوں میں کیڑے نکالے جاتے۔ ماضی کے نظام میں اختیارات ’پرنسپل اکاونٹ آفیسر‘ کے پاس تھے‘ جنہوں نے ناظمین کو انگلیوں پر نچایا اور یہی وجہ تھی کہ مالی و انتظامی بدعنوانیوں اِس حد تک سنگین ہوئیں کہ پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دینا پڑی۔ مستقبل کی مقامی حکومتوں پہلے دو تجربات سے مختلف ہوں گی اور ’سیاسی وابستگیاں‘ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کریں گی‘ اِس کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے میں مضائقہ نہیں لیکن چونکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ’سیاسی بنیادوں‘ پر ہو رہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی جماعت کا پلڑہ بھاری کرنے کے لئے ہر کوئی اپنی اپنی ’مہارت اور انتخابی ہنر‘ کا استعمال کر رہا ہے‘ اِس لئے زیادہ فعال معتبر ادارے الیکشن کمیشن کو ادا کرنا ہوگا‘ جس نے ضابطۂ اخلاق تو جاری کر دیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کو شکایات پر منحصر رکھ چھوڑا ہے کہ اگر کسی انتخابی حلقے میں کوئی اُمیدوار انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کہ مخالف اِنتخابی اُمیدوار اِس بارے میں شکایت کر سکتے ہیں! مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹر شائع کرنے کا ایک زیادہ سے زیادہ سائز مقرر کردیا گیاہے لیکن جب سبھی انتخابی اُمیدوار اس کی خلاف ورزی کر رہے تو شکایت کون کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد بھی مقرر ہے جسے یکساں خاطر میں نہیں لایا جارہاتو اِس کی شکایت بھی کوئی نہیں کرے گا۔
ماضی کی بلدیاتی اور مستقبل کی مقامی حکومتوں کے درمیان صرف نام ہی کا فرق ہے‘ جس سے زیادہ ضروری اِن کے مقاصد کو سمجھنا ہے کہ کس طرح ’منتخب مقامی حکومت کا جمہوریت اور نظم ونسق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔‘ منتخب مقامی حکومت عوامی اختیارات کی وہ سطح ہے کہ جہاں روزمرہ مسائل کے فوری حل کے لئے رجوع کیا جائے گا اور یہ جمہوری نظام کی وہ پرت ہوگی جس سے مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں براہ راست اور بھرپور انداز میں شرکت کا موقع میسر آئے گا لیکن اِس مرحلۂ فکر پر انتخاب کے روز پیش آنے والی اُس مشکل کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جو 7 مختلف رنگوں کے بیلٹ پیپرز کی صورت پیش آئے گی۔ جنرل نشست کے لئے سفید‘ خاتون نشست کے لئے گلابی‘ کسان و مزدور نشست کے لئے ہلکا سبز‘ غیرمسلم کے لئے بھورا‘ نوجوان (یوتھ) نشست کے لئے پیلا‘ تحصیل یا ٹاؤن کونسل کی جنرل نشست کے لئے ہلکا سرمئی (سیاہی مائل سفید) جبکہ سٹی ڈسٹرکٹ یا ڈسٹرکٹ کونسل کی جنرل نشست کے لئے نارنجی (سرخی مائل سفید) رنگ کا بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔ اب بیلٹ پیپرز کی اِس قوس قزح (سات رنگوں) کا یاد رکھنا بالخصوص کم خواندہ افراد یا کم شرح خواندگی رکھنے والے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کے لئے کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا‘ یہ سوال سنجیدہ توجہ اور ووٹرز کی عملی تربیت کا متقاضی ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ ذرائع ابلاغ اور مختلف علاقوں کی سطح پر تربیت کا انتظام بھی کرے۔ یوں تو ووٹ کی قدر ہر عام انتخاب کے موقع پر اہم بیان کی جاتی ہے لیکن اِس ’ایک ووٹ‘ کی اہمیت ’مقامی حکومتوں‘ کی سطح پر کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ اب فیصلہ صرف اور صرف ووٹ سے ہونا طے ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی کی مقامی حکومتوں کے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ قیام (تجربے) کا حاصل یہ رہا کہ جن ناظمین کے صوبائی یا وفاقی حکومت سے تعلقات بہتر تھے‘ اُنہیں اپنے اپنے ضلع کے لئے نہ تو مالی وسائل حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتیں اور نہ ہی اُن کے وضع کردہ ترقیاتی منصوبوں میں کیڑے نکالے جاتے۔ ماضی کے نظام میں اختیارات ’پرنسپل اکاونٹ آفیسر‘ کے پاس تھے‘ جنہوں نے ناظمین کو انگلیوں پر نچایا اور یہی وجہ تھی کہ مالی و انتظامی بدعنوانیوں اِس حد تک سنگین ہوئیں کہ پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دینا پڑی۔ مستقبل کی مقامی حکومتوں پہلے دو تجربات سے مختلف ہوں گی اور ’سیاسی وابستگیاں‘ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کریں گی‘ اِس کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے میں مضائقہ نہیں لیکن چونکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ’سیاسی بنیادوں‘ پر ہو رہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی جماعت کا پلڑہ بھاری کرنے کے لئے ہر کوئی اپنی اپنی ’مہارت اور انتخابی ہنر‘ کا استعمال کر رہا ہے‘ اِس لئے زیادہ فعال معتبر ادارے الیکشن کمیشن کو ادا کرنا ہوگا‘ جس نے ضابطۂ اخلاق تو جاری کر دیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کو شکایات پر منحصر رکھ چھوڑا ہے کہ اگر کسی انتخابی حلقے میں کوئی اُمیدوار انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کہ مخالف اِنتخابی اُمیدوار اِس بارے میں شکایت کر سکتے ہیں! مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹر شائع کرنے کا ایک زیادہ سے زیادہ سائز مقرر کردیا گیاہے لیکن جب سبھی انتخابی اُمیدوار اس کی خلاف ورزی کر رہے تو شکایت کون کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد بھی مقرر ہے جسے یکساں خاطر میں نہیں لایا جارہاتو اِس کی شکایت بھی کوئی نہیں کرے گا۔
ماضی کی بلدیاتی اور مستقبل کی مقامی حکومتوں کے درمیان صرف نام ہی کا فرق ہے‘ جس سے زیادہ ضروری اِن کے مقاصد کو سمجھنا ہے کہ کس طرح ’منتخب مقامی حکومت کا جمہوریت اور نظم ونسق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔‘ منتخب مقامی حکومت عوامی اختیارات کی وہ سطح ہے کہ جہاں روزمرہ مسائل کے فوری حل کے لئے رجوع کیا جائے گا اور یہ جمہوری نظام کی وہ پرت ہوگی جس سے مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں براہ راست اور بھرپور انداز میں شرکت کا موقع میسر آئے گا لیکن اِس مرحلۂ فکر پر انتخاب کے روز پیش آنے والی اُس مشکل کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جو 7 مختلف رنگوں کے بیلٹ پیپرز کی صورت پیش آئے گی۔ جنرل نشست کے لئے سفید‘ خاتون نشست کے لئے گلابی‘ کسان و مزدور نشست کے لئے ہلکا سبز‘ غیرمسلم کے لئے بھورا‘ نوجوان (یوتھ) نشست کے لئے پیلا‘ تحصیل یا ٹاؤن کونسل کی جنرل نشست کے لئے ہلکا سرمئی (سیاہی مائل سفید) جبکہ سٹی ڈسٹرکٹ یا ڈسٹرکٹ کونسل کی جنرل نشست کے لئے نارنجی (سرخی مائل سفید) رنگ کا بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔ اب بیلٹ پیپرز کی اِس قوس قزح (سات رنگوں) کا یاد رکھنا بالخصوص کم خواندہ افراد یا کم شرح خواندگی رکھنے والے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کے لئے کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا‘ یہ سوال سنجیدہ توجہ اور ووٹرز کی عملی تربیت کا متقاضی ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ ذرائع ابلاغ اور مختلف علاقوں کی سطح پر تربیت کا انتظام بھی کرے۔ یوں تو ووٹ کی قدر ہر عام انتخاب کے موقع پر اہم بیان کی جاتی ہے لیکن اِس ’ایک ووٹ‘ کی اہمیت ’مقامی حکومتوں‘ کی سطح پر کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ اب فیصلہ صرف اور صرف ووٹ سے ہونا طے ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment