Monday, May 18, 2015

May2015: LG Polls & Expenses

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی اِدارے: توقعات و حسابات
مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا‘ وہیں سے بحال ہونے جا رہا ہے اور اِس موقع پر انتخابی اُمیدواروں میں کہنہ مشق انتخابات اِنتخابات کھیلنے والے گرو بھی ہیں‘ جنہیں ’سب معلوم ہے‘ لیکن ایسے ناتجربہ کار کھلاڑیوں کے لئے جو سماجی خدمت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور جنہیں کسی سیاسی جماعت کی آشیرباد بھی حاصل نہیں‘ صورتحال زیادہ موافق نہیں۔ درحقیقت قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری کے بعد بلدیاتی انتخابات بھی اُنہی کے نام ہوں گے جو انتخابات کے اخراجات اور اس کے کبھی ختم نہ ہونے والی ضروریات پورا کرنے کا ’حوصلہ‘ رکھتے ہیں۔ آزاد حیثیت سے مقامی حکومتوں کے اِنتخابات میں حصہ لینے والوں کو صرف مدمقابل اُمیدوار کا ہی بلکہ کئی سیاسی جماعتوں کے ’اِنتخابی اِتحاد‘ کا سامنا ہے‘ جو اپنے اپنے ووٹ بینک کی قیمت پر نشستوں کو پہلے ہی مل بانٹ چکی ہیں تو کیا آزاد اُمیدوار ایسے ’ہیوی ویٹ‘ انتخابی اتحادوں کا مقابلہ کر پائیں گے‘ جن کے پاس مالی وسائل اور افرادی قوت کی کمی نہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری وسائل کا استعمال کرکے ترقیاتی کام کرنے والے اپنے اپنے ناموں کی تختیاں لگاتے ہیں۔ پیسہ عوام کے ٹیکسوں سے خرچ ہو رہا ہوتا ہے لیکن نیک نامی کسی ایک سیاسی جماعت اور اُس سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے کے نام لکھ دی جاتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اگر کسی مقام پر بجلی کی فراہمی کا نظام توسیع چاہتا ہے‘ ٹرانسفارمر یا کھمبوں کی ضرورت ہے تو یہ کام بجائے متعلقہ حکومتی اِدارہ منتخب نمائندے اپنی ذاتی یا سیاسی ترجیح کے مطابق کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال اربوں روپے کے ’ترقیاتی فنڈز‘ خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ تو ’ترقی کا معیار‘ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اِس سے اَکثریت کی ضروریات پوری ہو پائیں ہیں۔ قانون ساز اسمبلیوں کے اَراکین حلف اُٹھانے کے بعد اِس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ متعلقہ اضلاع میں زیادہ سے زیادہ مالی وسائل‘ سرکاری ملازمتیں‘ تعیناتیوں اور تبادلوں پر اختیار حاصل کر سکیں تاکہ اُس ’ووٹ بینک‘ کی توقعات پر پورا اُترا جا سکے جو اُن کی انتخابی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اب بھلا ’فکروعمل‘ کے ایسے منظم اور مفاد پرستوں کی اکثریت کا مقابلہ ’آزاد حیثیت‘ سے انتخابات میں حصہ لینے والے کیسے کر پائیں گے جن کے پاس نہ تو رنگ برنگے پوسٹرز شائع کرنے کے لئے مالی وسائل ہیں اور نہ ہی کاروباری اور سرمایہ دار طبقات ایسے آزاد اُمیدواروں کو کامیاب ہونے کے لئے درکار ’سپورٹ‘ فراہم کرتے ہیں جن کی جیت کے اِمکانات روشن نہ ہوں۔ ’سیاست‘ اُور ’سیاسی جماعتوں‘ کے مفہوم کو جس طرح ہمارے ہاں محدود کرکے سمجھا گیا ہے‘ اُس کے ’فیوض و برکات‘ میں یہ منفی رجحان بھی شامل ہے کہ ’’آزاد حیثیت انتخابی اُمیدواروں کی اکثریت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی!‘

سیاست اور سیاسی ذمہ داریوں کے بارے میں آگہی کے ساتھ اِنتخابی طریقۂ کار کے بارے میں اُمیدواروں کی رہنمائی کے لئے اَمریکہ کے اِمدادی اِدارے ’یو ایس ایڈ‘ نے ملک گیر سطح پر آگہی پھیلانے کے لئے مقامی نجی سرکاری اداروں کی مدد لی ہے لیکن چھبیس فروری سے جاری یہ عمل اِس لئے کافی نہیں کیونکہ اِس کا دائرۂ کار انتخابی اُمیدواروں تک محدود رکھاگیا ہے۔ دراصل امریکہ و یورپی ممالک اِس سے قبل ’مقامی حکومتوں کے انتخابات‘ کرانے کی وکالت (ایڈوکیسی) کرتے رہے۔ عام آدمی کے ذریعے حکومت پر مسلسل دباؤ رکھا گیا کہ وہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی آئینی ذمہ داری پوری کرے۔ جب رواں برس سولہ فروری کو چیف الیکشن کمشنر نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تین صوبوں (خیبرپختونخوا‘ پنجاب و سندھ) میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی منظوری دی تو شعور اُجاگر کرنے والوں نے اپنی توجہات کو انتخابی اُمیدواروں کی رہنمائی پر مرکوز کر لیا جسے بعدازاں ووٹروں تک پھیلایا گیا لیکن کچھ بھی منظم نہیں ہے۔بہت سے حلقوں میں خواتین‘ اقلیتوں اور نوجوانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے کسی نے کاغذات ہی جمع نہیں کرائے! جنہوں نے خود کاغذات جمع کرائے اُنہوں نے لڑ جھگڑ کر سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ حاصل کر لئے۔ دیرینہ کارکنوں سے سیاسی جماعتوں نے پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا کہ وہ کیوں انتخابی اُمیدوار نہیں۔ یہ بات ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہی نہیں کہ غریب کارکن کو اہمیت حاصل ہو‘ جو خودنمائی نہ کرتے اُن کی سیاسی جماعتوں میں حیثیت کیا ہوتی ہے؟ جن کا سیاسی قبلہ اور عقائد توحیدی ہوں‘ کیا اُنہیں اہمیت دی جاتی ہے؟ اِن حقائق کا اِحساس خود ’الیکشن کمیشن‘ کو بھی ہے لیکن وہ قانون ساز ادارہ نہیں۔ مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے جو کچھ ہورہا ہے وہ اگرچہ تاخیر سے ہے لیکن اس کے انعقاد کے لئے ضروری ہے کہ شرح پولنگ کم سے کم قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں (تیس سے چالیس فیصد) کے درمیان ہونی چاہئے چونکہ انتخابی قواعد یا عوام کی نمائندگی کے منصب کی وضاحت کرنے والی آئین کی شق میں ایسی کوئی شرط ہی نہیں لکھی گئی کہ کسی انتخابی حلقے کے کم سے کم کتنے فیصد ووٹ حاصل کرنے والے کو وہاں سے منتخب قرار دیا جائے گا‘ اِس لئے کم شرح پولنگ سے بھی اُمیدواروں کے درمیان جیت و ہار کا فیصلہ تو ہو جائے گالیکن ایسی جمہوریت چاہے اُوپری سطح کی ہو یا نچلی سطح کی‘ اِس سے عام آدمی کی بہتری‘ غربت کے خاتمے اور پائیدار تعمیر و ترقی پر مبنی توقعات‘ اُمیدیں یا خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تعمیر و ترقی کے لئے مختص ہر ایک سو روپے میں سے تیس روپے ضلع کونسل کو منتقل ہوں گے‘ جو اپنے انتظامی اخراجات (تنخواہیں‘ عمارتوں کی تزئین و آرائش‘ بجلی و گیس اور ٹیلی فون بل وغیرہ سمیت روزمرہ خرچے) منہا کر کے باقی پیسے تحصیل کی سطح پر نمائندوں کے حوالے کر دے گی‘ جہاں کے چیئرمین اور پرہجوم اَراکین پر مبنی اسمبلی کے اخراجات ادا کرنے کے باقی ماندہ پیسے ’دیہی و ہمسائیگی کونسلز‘ کے کھاتوں میں منتقل کر دی جائیں گی‘ جن کی نگرانی ایک کمیٹی کرے گی اور ایک سے پانچ دیہات (دو ہزار آبادی) پر مشتمل اِن کونسلز کے پاس اُس وقت تک ترقی کے لئے درکار مالی وسائل نہیں آئیں جب تک مقامی حکومتیں مقامی سطح پر نئے ٹیکس نہیں لگاتی یا اپنی آمدن بڑھانے کے لئے میلے ٹھیلوں کا اِنتظام نہیں کرتی۔ پانچ سطحی جمہوریت (قومی‘ صوبائی‘ ضلع‘ تحصیل‘ دیہی و ہمسائیگی کونسلز) کس کام کی‘ جس میں ترقیاتی فنڈز‘ غیرترقیاتی اَمور کی نذر ہوجائیں؟ 

No comments:

Post a Comment