ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین امام
بلدیاتی انتخابات: درپیش مشکلات
بلدیاتی انتخابات: درپیش مشکلات
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے بارے
میں کئی ایسے امور کی وضاحت کی ہے جو نہایت ہی کلیدی نوعیت کی ہیں۔ مثال
کے طور پر اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ ’دیہی وہمسائیگی کونسل‘ کو سالانہ 20
لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے‘ جو منتخب نمائندے اپنے اپنے علاقے سے
متعلق وضع کردہ ترجیحات کے مطابق خرچ کریں گے۔ ’خیبرپختونخوا میں مقامی
حکومتوں کے قانون 2013ء‘ کے مکمل اطلاق کے احکامات جاری کرتے ہوئے اُنہوں
نے اِس امر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ سرکاری ادارے اختیارات کی نچلی سطح
پر منتقلی میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں اور قانون کی روح یہ ہے کہ
مقامی حکومتیں بااختیار ہوں گی۔صوبائی حکومت کی جانب سے بارہا اِس بات کا
بیان کیا جاچکا ہے کہ صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد مقامی حکومتوں کے
ذریعے خرچ ہوگا جس میں سے ضلع کو ساٹھ فیصد‘ تحصیل کو 30فیصد اور دیہی و
ہمسائیگی کونسل کو صوبائی ترقیاتی بجٹ میں سے مختص کئے گئے وسائل کا 10فیصد
دیا جائے گا۔ نئے قانون کے تحت ضلعی حکومت اس بات کے لئے بھی پابند ہوں گی
کہ وہ ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کریں جو زیادہ سے زیادہ عرصہ 2 برس میں
مکمل ہو سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت پہلے ہی 2.87 ارب
روپے جاری کر چکی ہے جس سے مقامی حکومتوں کے لئے دفاتر کی تعمیر یا پہلے سے
موجود دفاتر کی تزئین و آرائش اور دفاتر کے لئے درکار سرکاری ملازمین و
دیگر وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے پرامن و شفاف انعقاد کے لئے پاک فوج کے 11 دستوں (کمپینوں) کی خدمات سے استفادہ کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر معاون اداروں میں 8100 اہلکاروں کا تعلق فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری سے ہوگا۔ 2500 آزاد جموں و کشیر پولیس کے اہلکار‘ 500 گلگت بلتستان پولیس کے اہلکار خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم کل 11 ہزار 117 پولنگ اسٹیشنوں پر حفاظتی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ ان کے علاؤہ 500 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خواتین کے تھانہ جات میں تین دن کے لئے تعینات کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت پہلے ہی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ پولنگ بوتھ قائم کرے تاکہ حفاظتی انتظامات کرنے میں متعلقہ اداروں کو آسانی رہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے ’انتخابی عمل‘ کو محفوظ بنانے کے لئے کئی ایسے انتظامات کئے گئے ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہوگا لیکن عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کچھ حفاظتی انتظامات سے عام آدمی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے لیکن کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے انتظامیہ کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں کیونکہ دشمن کا بھیس ایسا ہے کہ اُس کی شناخت ممکن نہیں!‘‘
سیاسی بنیادوں پر ’مقامی حکومتوں‘ کے قیام سے خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول میں انقلابی تبدیلی آئے گی اور تیس مئی سے قبل اور بعد کا سیاسی ماحول بہت مختلف ہوگا۔ خیبرپختونخوا کی واحد ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ (ضلعی حکومت)‘ کا قیام پشاور میں ہوگا جس کے لئے کل 92 وارڈوں (یونین کونسلوں) کے 852 افراد منتخب ہوں گے جن میں سے 336نشستوں کے لئے سیاسی جماعتوں نے اُمیدوار نامزد کر رکھے ہیں۔ اگر حسب توقع سیاسی جماعتوں کے نامزد اُمیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پانچ سو باون اُمیدواروں میں سے تین سو چھتیس ساسی اراکین کا پلڑہ باقی آزاد اُمیدواروں کے مقابلے بھاری ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں یہ لچک بھی ہوتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل یا بعداز انتخابات اتحاد کر لیتی ہیں اور ایسی صورت میں آزاد اُمیدواروں کے لئے سوائے اپنی وفاداریاں کسی ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ کرنا ہی دانشمندی ہوگی جس کے پاس اختیارات‘ فیصلہ سازی اور سرکاری مالی وسائل ہوں! آزاد اُمیدوار یہ بھی چاہیں گے کہ اُنہوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں جن ترقیاتی کاموں کے لئے وعدوں کا اعلان کیا ہے‘ انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں اور ایسا کرنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعت سے خود کو وابستہ کر لیں! یہ صورتحال اُن موقع پرستوں کے لئے زیادہ سودمند دکھائی دے رہی ہے‘ جو آزاد حیثیت سے انتخابات میں ’سرمایہ کاری‘ کررہے ہیں اور زیادہ منظم و بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پشاور کی سٹی ڈسٹرکٹ کونسل کی 138 نشستیں ہوں گی‘ جن میں 92 نشستیں جنرل‘ 31 مخصوص برائے خواتین‘ 5 مخصوص برائے غیرمسلم‘ 5مخصوص برائے مزدور کسان اُور پانچ نشستیں نوجوانوں کے لئے مخصوص ہوں گی۔ پشاور سے جنرل کونسلرز کے لئے کل 582اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف 4 خواتین ہیں۔ آزاد اُمیدوار نیلوفر باسط (خالصہ ون)‘ عوامی نیشنل پارٹی کی نائلہ جہانزیب (اندر شہر)‘ آزاد اُمیدوار فخرالنساء (حیات آباد ٹو) اور آزاد ہی حیثیت سے نیلم نواز (ڈاگ) سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں کے لئے اُمیدواروں کے ذہن میں سب سے زیادہ اِبہام اُن کے ماہانہ وظائف و مراعات سے متعلق ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو کسی بھی قسم کی ماہانہ تنخواہ تو نہیں دی جائے گی البتہ جن اجلاسوں میں وہ شریک ہوں گے اُن کے اخراجات کی مد سے انہیں کچھ نہ کچھ آمدورفت کے اخراجات پورا کرنے کے لئے مالی وسائل دیئے جا سکتے ہیں تاہم یہ فیصلہ منتخب نمائندے خود اتفاق رائے سے کریں گے چونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے مالی وسائل خالصتاً ترقیاتی کاموں کے لئے ہوں گے‘ لہٰذا اصولی طور پر اُن کا استعمال غیرترقیاتی امور کی انجام دہی بشمول خدمات کے معاوضے کے لئے نہیں کیا جا سکے گا۔ آنے والے دنوں میں عام آدمی کے لئے اِس بات کو ’خوشخبری‘ کہا جائے یا نہیں کہ مقامی حکومتوں کو اَپنے اَخراجات پورا کرنے کے لئے آمدنی کے نت نئے وسائل تلاش کرنا ہوں گے جن میں ’نئے ٹیکس‘ لگانا بھی اِیک اِمکان ہے‘ تو ’ووٹ دینے اور اپنے کسی انتخابی اُمیدوار کی حمایت کرنے سے زیادہ آنے والے وقت کے اُس امتحان کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے‘ جو زیادہ کھٹن ثابت ہوگا۔
بلدیاتی انتخابات کے پرامن و شفاف انعقاد کے لئے پاک فوج کے 11 دستوں (کمپینوں) کی خدمات سے استفادہ کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر معاون اداروں میں 8100 اہلکاروں کا تعلق فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری سے ہوگا۔ 2500 آزاد جموں و کشیر پولیس کے اہلکار‘ 500 گلگت بلتستان پولیس کے اہلکار خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم کل 11 ہزار 117 پولنگ اسٹیشنوں پر حفاظتی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ ان کے علاؤہ 500 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خواتین کے تھانہ جات میں تین دن کے لئے تعینات کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت پہلے ہی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ پولنگ بوتھ قائم کرے تاکہ حفاظتی انتظامات کرنے میں متعلقہ اداروں کو آسانی رہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے ’انتخابی عمل‘ کو محفوظ بنانے کے لئے کئی ایسے انتظامات کئے گئے ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہوگا لیکن عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کچھ حفاظتی انتظامات سے عام آدمی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے لیکن کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے انتظامیہ کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں کیونکہ دشمن کا بھیس ایسا ہے کہ اُس کی شناخت ممکن نہیں!‘‘
سیاسی بنیادوں پر ’مقامی حکومتوں‘ کے قیام سے خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول میں انقلابی تبدیلی آئے گی اور تیس مئی سے قبل اور بعد کا سیاسی ماحول بہت مختلف ہوگا۔ خیبرپختونخوا کی واحد ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ (ضلعی حکومت)‘ کا قیام پشاور میں ہوگا جس کے لئے کل 92 وارڈوں (یونین کونسلوں) کے 852 افراد منتخب ہوں گے جن میں سے 336نشستوں کے لئے سیاسی جماعتوں نے اُمیدوار نامزد کر رکھے ہیں۔ اگر حسب توقع سیاسی جماعتوں کے نامزد اُمیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پانچ سو باون اُمیدواروں میں سے تین سو چھتیس ساسی اراکین کا پلڑہ باقی آزاد اُمیدواروں کے مقابلے بھاری ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں یہ لچک بھی ہوتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل یا بعداز انتخابات اتحاد کر لیتی ہیں اور ایسی صورت میں آزاد اُمیدواروں کے لئے سوائے اپنی وفاداریاں کسی ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ کرنا ہی دانشمندی ہوگی جس کے پاس اختیارات‘ فیصلہ سازی اور سرکاری مالی وسائل ہوں! آزاد اُمیدوار یہ بھی چاہیں گے کہ اُنہوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں جن ترقیاتی کاموں کے لئے وعدوں کا اعلان کیا ہے‘ انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں اور ایسا کرنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعت سے خود کو وابستہ کر لیں! یہ صورتحال اُن موقع پرستوں کے لئے زیادہ سودمند دکھائی دے رہی ہے‘ جو آزاد حیثیت سے انتخابات میں ’سرمایہ کاری‘ کررہے ہیں اور زیادہ منظم و بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پشاور کی سٹی ڈسٹرکٹ کونسل کی 138 نشستیں ہوں گی‘ جن میں 92 نشستیں جنرل‘ 31 مخصوص برائے خواتین‘ 5 مخصوص برائے غیرمسلم‘ 5مخصوص برائے مزدور کسان اُور پانچ نشستیں نوجوانوں کے لئے مخصوص ہوں گی۔ پشاور سے جنرل کونسلرز کے لئے کل 582اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف 4 خواتین ہیں۔ آزاد اُمیدوار نیلوفر باسط (خالصہ ون)‘ عوامی نیشنل پارٹی کی نائلہ جہانزیب (اندر شہر)‘ آزاد اُمیدوار فخرالنساء (حیات آباد ٹو) اور آزاد ہی حیثیت سے نیلم نواز (ڈاگ) سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں کے لئے اُمیدواروں کے ذہن میں سب سے زیادہ اِبہام اُن کے ماہانہ وظائف و مراعات سے متعلق ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو کسی بھی قسم کی ماہانہ تنخواہ تو نہیں دی جائے گی البتہ جن اجلاسوں میں وہ شریک ہوں گے اُن کے اخراجات کی مد سے انہیں کچھ نہ کچھ آمدورفت کے اخراجات پورا کرنے کے لئے مالی وسائل دیئے جا سکتے ہیں تاہم یہ فیصلہ منتخب نمائندے خود اتفاق رائے سے کریں گے چونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے مالی وسائل خالصتاً ترقیاتی کاموں کے لئے ہوں گے‘ لہٰذا اصولی طور پر اُن کا استعمال غیرترقیاتی امور کی انجام دہی بشمول خدمات کے معاوضے کے لئے نہیں کیا جا سکے گا۔ آنے والے دنوں میں عام آدمی کے لئے اِس بات کو ’خوشخبری‘ کہا جائے یا نہیں کہ مقامی حکومتوں کو اَپنے اَخراجات پورا کرنے کے لئے آمدنی کے نت نئے وسائل تلاش کرنا ہوں گے جن میں ’نئے ٹیکس‘ لگانا بھی اِیک اِمکان ہے‘ تو ’ووٹ دینے اور اپنے کسی انتخابی اُمیدوار کی حمایت کرنے سے زیادہ آنے والے وقت کے اُس امتحان کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے‘ جو زیادہ کھٹن ثابت ہوگا۔
No comments:
Post a Comment