Friday, May 29, 2015

May2015: LG Polls & Technology

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حکمت و دانش کے تقاضے
خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ’مقامی حکومت‘ کے لئے ہونے والے عام انتخابات کا طلسم ’ہزارہ ڈویژن‘ کو بھی اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے‘ جہاں گلی محلے اُور گاؤں کی سطح پر سیاسی و آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار اور اُن کی حمایت کرنے والوں کے جوش و خروش میں جس ایک بات کا سب سے کم خیال رکھا گیا وہ ’الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے وضع کئے گئے ’ضابطۂ اخلاق‘ کی وہ شقیں تھیں‘ جن کا تعلق ’قبل از انتخابات ہدایات‘ سے تھا۔ حسب سابق الیکشن کمیشن نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کئے رکھا‘ جس سے انتخابی مقابلے کے آزاد اُمیدواروں کو ’نکتۂ اعتراض‘ اُٹھانا چاہئے تھا۔ بہرکیف اُمید کی جاتی ہے کہ انتخابات (پولنگ) کے دن اور بعدازاں نہ صرف اُمیدواروں بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کی ادائیگی میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

ہزارہ ڈویژن کے پانچ اضلاع میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اِداروں کی کڑی نگرانی میں 23 لاکھ 85 ہزار 298 مرد و خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یوں تو ہزارہ ڈویژن کے 6 اضلاع ہیں لیکن مقامی حکومت کے لئے انتخابات اِن میں سے پانچ اضلاع ہری پور‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام اُور تورغر میں ہو رہے ہیں جبکہ کوہستان کو چونکہ دو حصوں (اپر اینڈ لوئر کوہستان) میں تقسیم کیا گیا تھا‘ جس پر پلاس اور ملحقہ علاقوں کے رہنے والوں نے ’پشاور ہائی کورٹ‘ سے رجوع کر رکھا ہے اور عدالت کا فیصلہ آنے تک وہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ضلع کوہستان کے علاؤہ تیئس لاکھ پچاسی ہزار سے زیادہ ووٹروں کو 15 ہزار 667 انتخابی اُمیدواروں میں سے چناؤ کرنا ہے اور یہ قطعی طورپر آسان مرحلہ نہیں۔ ماضی میں کبھی بھی ’مقامی (بلدیاتی نظام) حکومت‘ کے لئے اس قدر جوش و خروش دیکھنے میں آیا اور نہ ہی اس قدر بڑی تعداد میں اُمیدوار دیکھے گئے۔ ہر ووٹر کو سات مختلف رنگوں کی پرچیوں کے ذریعے اپنی پسند کا اظہار کرنا ہے اور چونکہ روایت رہی ہے کہ ہم ہاں ہر ریکارڈ توڑا جاتا ہے تو آئندہ انتخابات میں اس سے کہیں گنا زیادہ تعداد میں اُمیدوار انتخابی عمل میں حصہ لیں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ووٹ دینے کے موجودہ طریقۂ کار (عمل) کو سادہ و آسان بنایا جائے اور اس کے لئے ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں۔

ٹیکنالوجی کے ذریعے ووٹ دینے کا عمل شفاف بھی ہے اور اس سے ووٹوں کے ضائع ہونے کا امکان بھی نہیں رہتا۔ چونکہ بات ایک یا دو بیلٹ پیپرز سے سات تک جا پہنچی ہے‘ اِس لئے ارباب اختیار کو ’ٹیکنالوجی گریز‘ رویئے اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سوچنا چاہئے کہ عام انتخابات پر اُٹھنے والے خطیر اخراجات اور اِس عمل سے متعلق پیدا ہونے والے شکوک شبہات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ سردست ’بائیومیٹرک شناخت‘ اور ’الیکٹرنک ووٹنگ‘ سے متعلق ٹیکنالوجی درآمد کرنا پڑے گی‘ اِس لئے انتخابی عمل کو موجودہ حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار انداز میں مکمل کرایا جاسکتا ہے‘ جبکہ نتائج کا اعلان ملک گیر سطح پر الیکٹرانک پولنگ کی تکمیل پر کیا جائے۔ اِس سلسلے میں انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ’آن لائن ووٹنگ‘ بھی متعارف کرائی جا سکتی ہے‘ جس میں دھاندلی کے امکانات کم کئے جاسکتے ہیں اور وہ لوگ جو سیکورٹی خدشات یا دیگر وجوہات کی بناء پر ’پولنگ اسٹیشنز‘ پر قطاروں میں لگنا پسند نہیں کرتے انہیں گھر بیٹھے ووٹ پول کرنے کی سہولت فراہم کی جانی چاہئے۔ اس سلسلے میں فراڈ سے بچنے کے لئے شناختی طریقۂ کار اور موبائل فون سے بذریعہ ’ایس ایم ایس‘ اضافی تصدیق کا طریقہ وضع کیا جاسکتا ہے (الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کسی ایک موبائل فون نمبر سے منسلک ووٹر ایک ہی ووٹ ڈال سکے) جبکہ ’آن لائن‘ ووٹ ڈالنے کے لئے بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ کوڈ کا حصول قومی شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون سے منسلک کئے جاسکتے ہیں۔ اس سہولت سے شہری علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت فائدہ اُٹھانا چاہے گی اور اگر ووٹ ڈالنے کی پانچ یا دس روپے تک قیمت بھی مقرر کر دی جائے تو اِس سے ٹیکنالوجی پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ پہلے مرحلے ہی میں وصول کر لیا جائے گا۔ اِسی طرح بینک اکاونٹ رکھنے والے ’اے ٹی ایم‘ کارڈ کے ذریعے اپنا ووٹ پول کر سکتے ہیں اور ایسی لاکھوں مشینیں پورے ملک میں نصب ہیں‘ جنہیں سافٹ وئر کے معمولی ردوبدل سے ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں جرمن حکومت کی جانب سے تکنیکی امدادی ادارے ’جی آئی زیڈ‘ اُور امریکی عوام کی نمائندہ ’یو ایس ایڈ‘ کو توجہ دینی چاہئے کہ مقامی (بلدیاتی) حکومتیں صرف اُسی صورت فعال کردار ادا کر سکیں گی جبکہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔ اگر تیس سے چالیس فیصد ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں تو اِن کا ازالہ ہونا چاہئے۔

مقامی حکومت ہی اگر ’بنیادی حکومت‘ ہے تو اِس نظام سے بطور اُمیدوار یا ووٹر سپورٹر وابستہ ہونے والوں کو ’یورپین یونین (28 ترقی یافتہ مغربی ممالک)‘ کے وضع کردہ اُس متفقہ اصطلاحی مفہوم کو سمجھنا ہوگا‘ جس میں مؤثر‘ فعال اور حقیقی نمائندگی کو 12 اصولوں پر عمل درآمد سے مشروط کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سے استفادہ تجویز کیا گیا ہے۔ 1: شفاف انتخابات اُور اس عمل میں ووٹروں کی بھرپور شرکت۔ 2: نظام اور نمائندوں کی کارکردگی سے جڑی عوام کی توقعات کا پورا ہونا۔ 3: بلدیاتی نظام کے اصولوں پر عمل درآمد اور اُنہیں عملاً مؤثر ثابت کرنا۔ 4: مقامی حکومتوں کے مالی و انتظامی معاملات میں شفافیت۔ 5: وضع کردہ قواعد و قوانین کا بلاامتیاز اطلاق اور انصاف۔ 6: اخلاقی پابندیاں۔ ہر نمائندہ اپنی ضمیر کی عدالت میں خود کو ہمہ وقت حاضر سمجھے۔ 7: اِداروں کی صلاحیت اُور کارکردگی میں بتدریج اِضافہ اُور اِرتقاء۔ 8: نظام کی اِصلاح کے لئے نت نئے تصورات اور حسب ضرورت لائحہ عمل اپنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیاجائے۔ 9: عوام دوست‘ ماحول دوست اُور پائیدار ترقی متعارف کرائی جائے۔ 10: سخت گیر قسم کا مالی نظم وضبط لاگو کیا جائے۔ 11: اِنسانی حقوق‘ شخصی آزادی اُور اِظہار رائے کا احترام کیا جائے۔ آثار قدیمہ‘ ثقافت اور لوک ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے امانت سمجھا جائے اُور 12: فیصلہ سازی کے مراحل یا مالی وسائل کے اِستعمال کی صورت اِحتساب کو رہنما اَصول سمجھا جائے۔

No comments:

Post a Comment