ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خواب آلود حقائق
خواب آلود حقائق
مقامی حکومتوں کا قیام‘ فیصلہ کن مرحلے تک آ پہنچا ہے اور آئندہ چوبیس
گھنٹے (تیس مئی کا دن) انتہائی اہم ہے جب خیبرپختونخوا کے رہنے والے اُس
قیادت کا انتخاب کر رہے ہوں گے جس نے اقتدار کو نچلی سطح پر منظم اور اُس
بنیادی حکومت کے تصور کو عملی شکل دینا ہوگی جو ملک کے جمہوری نظام کے لئے
ایک ستون جیسا کلیدی کردار ادا کرے گا۔ مثال کے طور پر دیہی و ہمسائیگی
کونسل کی وجہ سے عام آدمی فیصلہ سازی کے عمل میں فعالیت کے ساتھ شریک اُور
حصہ دار بن جائے گا۔ یہی وہ خواب تھا جس کے لئے کئی دوست ممالک بشمول
امریکہ حکومت کے اِمدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ اور اُن کے مقامی شریک کار
’اسکائنز‘ نے سالہا سال سے کوششیں کیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت سے
متعلق نہ صرف شعور اُجاگر کیا بلکہ اِس مطالبے کو زندہ بھی رکھا اور یہی
ثمر ہے کہ مقامی حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں لیکن کیا اِس نظام سے جڑی وہ
تمام ’توقعات‘ پوری ہوپائیں گی‘ جس کا خواب یا خلاصہ خیرخواہوں اور منصوبہ
سازوں کے تخیل و تصورات کی دنیا کو آباد کئے ہوئے ہے؟
مقامی حکومتوں کا نظام اُس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوگا جب تک اس میں ’خواتین کی بھرپور یا مکمل شراکت داری‘ عملاً دکھائی نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ خواتین کی مردوں سے زیادہ اور بڑھ چڑھ کر شراکت ناگزیر ہے‘ جو موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور اُن کے فیصلوں پر مردوں کی اجارہ داری کے باعث ممکن نہیں ہوسکی۔ سیاسی جماعتوں نے سمجھ لیا ہے کہ اُنہوں نے خواتین کے لئے مخصوص نشستیں مقرر کرکے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے وہ کافی ہے جبکہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی مخصوص خواتین کا ایوانوں میں کردار نہ ہونے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو مرد اراکین کی طرح نہ تو مساوی بنیادوں پر وزارتیں‘ عہدے اور ترقیاتی فنڈز دیئے جاتے ہیں اور نہ ہی قانون سازی کی سطح پر وہ اتنی بااختیار ہوتی ہیں کہ اگر اُن کا تعلق برسراقتدار جماعت سے ہے تو وہ کسی حکومتی فیصلے پر مستورات کے نکتۂ نظر سے اظہار خیال ہی کرسکیں۔ جب تک خواتین کے ساتھ ’مخصوص‘ اور اُن کی قانون ساز ایوانوں میں موجودگی سیاسی جماعتوں کے رحم وکرم پر ہے‘ اِس پورے منظرنامے میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ خواتین کو سوچنے‘ سمجھنے‘ بولنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ سیاسی جماعتوں کی سطح پر خواتین کی اکادکا موجودگی اور برائے نام شرکت (مشاورت) کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بنانے کے بعد ہی مقامی حکومتوں کی سطح تک اِس کے ثمرات منتقل ہو سکتے ہیں۔
اِس مرحلۂ فکر پر انتخابات کے نگران ادارے ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خواتین کے حق رائے دہی پر ضرب لگانے اور انہیں برائے نام استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جن انتخابی حلقوں میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جاتا ہے وہاں کے انتخابی نتائج کسی صورت تسلیم نہیں ہونے چاہیءں بلکہ خواتین کے کل رجسٹرڈ شدہ ووٹوں کا تناسب پچاس فیصد سے کم ہونے کی صورت میں دوبارہ پولنگ کی شرط اگر قانون ساز نہیں کر رہے تو اسے انتخابی قواعد کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے تاکہ سیاسی جماعتیں بہ امر مجبوری ہی سہی لیکن خواتین کو پس پشت رکھنے کی بجائے اُنہیں آگے آنے کا موقع دیں۔ سماجی‘ خاندانی اور ذات پات کی روایات نے ہمیں جس انداز میں جھکڑ رکھا ہے‘ اُس سے خواتین بطور معاشرے کے ایک کمزور طبقے متاثر ہورہی ہیں اور باوجود اِس حقیقت کا ادراک ہونے کے بھی ’سلے سلائے (ریڈی میڈ)‘ انتظامات‘ اقدامات اُور احکامات سے کام چلایا جا رہا ہے۔
توجہ کیجئے کہ خیبرپختونخوا کے لئے سال 2013ء میں وضع کردہ ترمیم شدہ ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کے تحت صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک ’سٹی ڈسٹرکٹ حکومت‘ اور ’4 عدد ٹاؤنز‘ ہوں گے جس کے بعد ’پشاور ڈسٹرکٹ کونسل‘ اور ’میونسپل کارپوریشن‘ ختم ہو جائیں گی۔ اسی طرح 23 اضلاع میں سے ہر ایک میں ’ضلعی حکومتیں‘ قائم ہو جائیں گی جہاں 61 میونسپل کمیٹیاں بنیں گی اور یہ سب کی سب ’تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (ٹی ایم ایز)‘ کے سانچوں میں ڈھل جائیں گی۔ اِسی طرح کل 69 ’ٹی ایم ایز‘ بنیں گے اور اِن اضافی بننے والے ’ٹی ایم ایز‘ کی منطق یہ ہے کہ ’طورغر‘ بنوں اور دیر کے اضلاع میں نئی تحصیلوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نئے نظام کے تحت ضلعی سربراہ ناظم ہوگا‘ جس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے زیرکنٹرول حکومتی محکمے ہوں گے۔ ضلعی ناظم بذریعہ ڈپٹی کمشنر ہی حکومتی محکموں بشمول صحت و تعلیم کی کارکردگی کے حوالے بازپرس کر سکے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام وضع کرتے ہر ایک کو خوش یا مطمئن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور بطور خاص اِس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ افسرشاہی ناراض (یا گلہ مند) نہ ہو۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کئے بیٹھے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے بعد بھی صوبائی و قومی اسمبلیوں کے اراکین کا اپنے اپنے اضلاع میں رعب‘ دبدبہ و جلال بدستور (حسب سابق) قائم رہے گا لیکن اِس پورے نظام میں اگر کہیں کوئی کمی بلکہ بہت بڑی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ خواتین کی محدود پیمانے پر فیصلہ سازی میں شرکت ہے۔
زیادہ دور نہ جائیں۔ پشاور جیسے مرکزی شہر میں آپ کو مقامی حکومتوں کے لئے ایسی خواتین اُمیدواروں کے پوسٹرز دکھائی دیں گے‘ جنہوں نے اپنی تصاویر تو کیا اپنا اصل نام تک شائع نہیں کیا۔ ایسی خواتین اُمیدوار اپنے باپ‘ خاوند‘ یا بیٹے کے نام کا حوالہ اور اپنے انتخابی نشان کی تشہیر کرتی ہیں۔ سابقہ مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے تحت بیرون لاہوری گیٹ سے ’اسماعیل کی والدہ‘ شاید واحد خاتون تھی‘ جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہیں لیکن آج کئی ایک ایسی خواتین ہیں‘ جن کے نام اور چہرے نہیں‘ جو اپنی شناخت سے بہ امر مجبوری محروم ہیں‘ جن میں اعتماد کے ساتھ اُن ہم عصروں کی اکثریت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں‘ جو اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنائے بیٹھے ہیں۔ ویلج کونسل ’کرا خیل‘ جو کہ پشاور کے نواحی علاقے ’ماشوخیل‘ کا حصہ ہے وہاں سے خاتون انتخابی اُمیدوار کا خاوند ’رابطہ عوام مہم‘ چلاتے ہوئے انتخابی نشانوں پر مشتمل جو کارڈ تقسیم کرتے پایا گیا‘ اُن پر تحریر ہے ’’ووٹ ولی خان کی اہلیہ کو دیجئے!‘‘
مقامی حکومتوں کا نظام اُس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوگا جب تک اس میں ’خواتین کی بھرپور یا مکمل شراکت داری‘ عملاً دکھائی نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ خواتین کی مردوں سے زیادہ اور بڑھ چڑھ کر شراکت ناگزیر ہے‘ جو موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور اُن کے فیصلوں پر مردوں کی اجارہ داری کے باعث ممکن نہیں ہوسکی۔ سیاسی جماعتوں نے سمجھ لیا ہے کہ اُنہوں نے خواتین کے لئے مخصوص نشستیں مقرر کرکے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے وہ کافی ہے جبکہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی مخصوص خواتین کا ایوانوں میں کردار نہ ہونے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو مرد اراکین کی طرح نہ تو مساوی بنیادوں پر وزارتیں‘ عہدے اور ترقیاتی فنڈز دیئے جاتے ہیں اور نہ ہی قانون سازی کی سطح پر وہ اتنی بااختیار ہوتی ہیں کہ اگر اُن کا تعلق برسراقتدار جماعت سے ہے تو وہ کسی حکومتی فیصلے پر مستورات کے نکتۂ نظر سے اظہار خیال ہی کرسکیں۔ جب تک خواتین کے ساتھ ’مخصوص‘ اور اُن کی قانون ساز ایوانوں میں موجودگی سیاسی جماعتوں کے رحم وکرم پر ہے‘ اِس پورے منظرنامے میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ خواتین کو سوچنے‘ سمجھنے‘ بولنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ سیاسی جماعتوں کی سطح پر خواتین کی اکادکا موجودگی اور برائے نام شرکت (مشاورت) کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بنانے کے بعد ہی مقامی حکومتوں کی سطح تک اِس کے ثمرات منتقل ہو سکتے ہیں۔
اِس مرحلۂ فکر پر انتخابات کے نگران ادارے ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خواتین کے حق رائے دہی پر ضرب لگانے اور انہیں برائے نام استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جن انتخابی حلقوں میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جاتا ہے وہاں کے انتخابی نتائج کسی صورت تسلیم نہیں ہونے چاہیءں بلکہ خواتین کے کل رجسٹرڈ شدہ ووٹوں کا تناسب پچاس فیصد سے کم ہونے کی صورت میں دوبارہ پولنگ کی شرط اگر قانون ساز نہیں کر رہے تو اسے انتخابی قواعد کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے تاکہ سیاسی جماعتیں بہ امر مجبوری ہی سہی لیکن خواتین کو پس پشت رکھنے کی بجائے اُنہیں آگے آنے کا موقع دیں۔ سماجی‘ خاندانی اور ذات پات کی روایات نے ہمیں جس انداز میں جھکڑ رکھا ہے‘ اُس سے خواتین بطور معاشرے کے ایک کمزور طبقے متاثر ہورہی ہیں اور باوجود اِس حقیقت کا ادراک ہونے کے بھی ’سلے سلائے (ریڈی میڈ)‘ انتظامات‘ اقدامات اُور احکامات سے کام چلایا جا رہا ہے۔
توجہ کیجئے کہ خیبرپختونخوا کے لئے سال 2013ء میں وضع کردہ ترمیم شدہ ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کے تحت صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک ’سٹی ڈسٹرکٹ حکومت‘ اور ’4 عدد ٹاؤنز‘ ہوں گے جس کے بعد ’پشاور ڈسٹرکٹ کونسل‘ اور ’میونسپل کارپوریشن‘ ختم ہو جائیں گی۔ اسی طرح 23 اضلاع میں سے ہر ایک میں ’ضلعی حکومتیں‘ قائم ہو جائیں گی جہاں 61 میونسپل کمیٹیاں بنیں گی اور یہ سب کی سب ’تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (ٹی ایم ایز)‘ کے سانچوں میں ڈھل جائیں گی۔ اِسی طرح کل 69 ’ٹی ایم ایز‘ بنیں گے اور اِن اضافی بننے والے ’ٹی ایم ایز‘ کی منطق یہ ہے کہ ’طورغر‘ بنوں اور دیر کے اضلاع میں نئی تحصیلوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نئے نظام کے تحت ضلعی سربراہ ناظم ہوگا‘ جس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے زیرکنٹرول حکومتی محکمے ہوں گے۔ ضلعی ناظم بذریعہ ڈپٹی کمشنر ہی حکومتی محکموں بشمول صحت و تعلیم کی کارکردگی کے حوالے بازپرس کر سکے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام وضع کرتے ہر ایک کو خوش یا مطمئن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور بطور خاص اِس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ افسرشاہی ناراض (یا گلہ مند) نہ ہو۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کئے بیٹھے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے بعد بھی صوبائی و قومی اسمبلیوں کے اراکین کا اپنے اپنے اضلاع میں رعب‘ دبدبہ و جلال بدستور (حسب سابق) قائم رہے گا لیکن اِس پورے نظام میں اگر کہیں کوئی کمی بلکہ بہت بڑی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ خواتین کی محدود پیمانے پر فیصلہ سازی میں شرکت ہے۔
زیادہ دور نہ جائیں۔ پشاور جیسے مرکزی شہر میں آپ کو مقامی حکومتوں کے لئے ایسی خواتین اُمیدواروں کے پوسٹرز دکھائی دیں گے‘ جنہوں نے اپنی تصاویر تو کیا اپنا اصل نام تک شائع نہیں کیا۔ ایسی خواتین اُمیدوار اپنے باپ‘ خاوند‘ یا بیٹے کے نام کا حوالہ اور اپنے انتخابی نشان کی تشہیر کرتی ہیں۔ سابقہ مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے تحت بیرون لاہوری گیٹ سے ’اسماعیل کی والدہ‘ شاید واحد خاتون تھی‘ جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہیں لیکن آج کئی ایک ایسی خواتین ہیں‘ جن کے نام اور چہرے نہیں‘ جو اپنی شناخت سے بہ امر مجبوری محروم ہیں‘ جن میں اعتماد کے ساتھ اُن ہم عصروں کی اکثریت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں‘ جو اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنائے بیٹھے ہیں۔ ویلج کونسل ’کرا خیل‘ جو کہ پشاور کے نواحی علاقے ’ماشوخیل‘ کا حصہ ہے وہاں سے خاتون انتخابی اُمیدوار کا خاوند ’رابطہ عوام مہم‘ چلاتے ہوئے انتخابی نشانوں پر مشتمل جو کارڈ تقسیم کرتے پایا گیا‘ اُن پر تحریر ہے ’’ووٹ ولی خان کی اہلیہ کو دیجئے!‘‘
![]() |
For effective Local Government System, women participation is must & fundamental need |
No comments:
Post a Comment