Wednesday, May 27, 2015

May2015: Concision takes precision

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔دیکھا نہ جائے!
کتاب سے رشتہ توڑ کر ہم نے معاشرے کو جس راستے پر ڈال دیا ہے‘ اُس نے ہمیں ’جہالت کی وادی‘ کے کنارے لاکھڑا کیا اور آگے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ کیا یہ عجب نہیں ایبٹ آباد کی شہری علاقے کی حدود میں 6 لائبریریاں (کتب خانے) ہوا کرتے تھے جنہیں یکے بعد دیگرے ختم یا اِس حد تک محدود کر دیا گیا کہ اُن کا نام و نشان ہی باقی نہیں! مرکزی لائبریری (جلال بابا آڈیٹوریم) چھاؤنی کی حدود میں شہر کے وسطی علاقوں سے دور بنا دی گئی تو رفتہ رفتہ کتب خانہ یاداشتوں سے محو ہوتا چلا گیا۔ ’یاد ماضی‘کا بوجھ لئے ماحول دوست رضاکار محمود اسلم کا کہناہے کہ ’’ایبٹ آباد کے جی ٹی ایس اڈے کی جگہ پر خواتین کی لائبریری ہوا کرتی تھی‘ جسے ختم کر دیا گیا۔ برطانوی راج کے دوران رات 10بجے تک کتب خانے کھلے رہتے تھے اور یہی طرز عمل آج بھی یورپ و امریکہ میں دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے انگریز بہادر کی باقی ساری عادات و روایات تو اپنا لیں لیکن اُن اچھی باتوں کو چھوڑ دیا جن کی بدولت اُس کے اقتدار کا سورج غروب بھی نہیں ہوتا تھا۔ رات دیر تک کتب خانہ کھلے رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تاجر طبقہ اپنے دن کے اختتام پر کتب خانے سے رجوع کرے۔ اپنی دلچسپی کے مطابق مطالعہ کرنے کو اپنے معمولات کا حصہ بنائے۔ یورپ و امریکہ کے کتب خانے ایک وقت میں ہر رکن (ممبر) کو اکیس (21) عدد کتابیں جاری کرتے ہیں اور یہ عمل اب بھی جاری ہے لیکن ہمارے ہاں تین سے چھ کتابیں جاری کرنے والے اپنی جگہ محدود سوچ اور کتب کا ناکافی ذخیرہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کینیڈا کی کسی ’محلہ لائبریری‘ سے رجوع کرنے والا عام شہری اگر کوئی ایسی کتاب مانگے جو لائبریری میں موجود نہ ہو تو حکومت کے خرچ پر مطلوبہ کتاب کسی دوسری لائبریری سے منگوا کر اُس رکن کی ’خواہش‘ پوری کی جاتی ہے۔‘‘

ایبٹ آباد کے ’ٹاؤن ہال‘ میں ’نیشنل سنٹر لائبریری‘ ہوا کرتی تھی اس سے ملحقہ باغات میں ہزاروں لوگ آتے تھے جنہیں صاف ستھرے ماحول میں پنکھے و نشست گاہ اور دیگر آرام دہ سہولیات میسر تھیں تو وہ کسی بھی وجہ سے لائبریری آ جاتے تھے جہاں اور کچھ نہیں تو اخبار ہی کا مطالعہ کر لیتے۔ وفاقی حکومت کے زیراہتمام یہ کتب خانے ایک عرصے تک قائم رہے لیکن وفاقی حکومت کی یہ اہم موجودگی ختم کر دی گئی۔ عجائب گھر (میوزئم) ہونا چاہئے لیکن ’ٹاؤن ہال‘ ہی میں کیوں؟ عجائب گھر اور کتب خانہ دونوں ہی اہم و ناگزیر ضروریات ہیں اُور دونوں ہی کی الگ الگ اہمیت ہے۔ آخر ہمیں کس چیز نے روک رکھا ہے کہ ہم ہندو اوقاف کی عمارتیں فروخت تو کر رہے ہیں لیکن اس میں لائبریریاں قائم نہیں کرتے؟ حویلیاں میں ایک مندر فروخت کیا گیا جس کا رقبہ 8 مرلے تھا اُور اس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپے رکھی گئی لیکن وہاں لائبریری نہیں بنائی گئی! ایبٹ آباد کی ’گوردوارہ گلی‘ میں کئی ایک ہندو عمارتیں بشمول ’گوردوارہ‘ ہے۔ قواعد کے مطابق اوقاف کی عمارت کا کرایہ اتنا ہی وصول کیا جائے گا جو اس کی تعمیر و مرمت و دیکھ بھال کے لئے کافی ہو لیکن ہمارے ہاں خطیر ماہانہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے اور تعمیر و مرمت یا دیکھ بھال پر مالی وسائل خرچ نہیں کئے جا رہے۔ ایبٹ آباد کے ٹانچی چوک‘ کیہال یا سپلائی میں ہر جگہ سرکاری عمارتیں موجود ہیں جہاں کتب خانے بنائے جا سکتے ہیں۔ گرین بیلٹ ہیں جن پر قبضہ کر لیا گیا ہے لیکن وہاں کتب خانے نہیں بنائے جاتے۔ کچہری میں پرانے ’ایس پی آفس‘ میں قائم ’ٹریفک کورٹ‘ کالے پتھر کی بنی ہوئی عمارت بھی ضلعی انتظامیہ نے اجارے (لیز) دی ہے جبکہ اس عمارت کے ہر کونے میں عرضی نویس ڈیرے ڈالے دکھائی دیں گے اور یہ ایک عمدہ تعمیراتی شاہکار بھی ہے لیکن ایسی درجنوں سرکاری عمارتیں منہدم کر کے آئیں بائیں کر دی گئیں! ایبٹ آباد میں تعمیرات کا یہ قانون تھا کہ دو منزلہ سے زیادہ عمارت بنانے کی اجازت نہیں۔ جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ مقام زلزلہ آنے والے مقامات میں شامل ہے اور دوسرا اس سے ایبٹ آباد کے پہاڑوں (شملہ اور سربن) کا دلفریب نظارہ چھپ جاتا تھا لیکن اب ہر طرف آسمان سے باتیں کر رہی عمارتیں ہر منظر اور نظارے کو روکے ہوئی ہیں۔ آخر ان کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے قبل نقشے کس نے منظور کئے؟
اور یہ نقشے کس قانون کے تحت منظور کئے؟ پلازے کسی نے بنائے‘ ’’فیس‘‘ کی نے وصول کی اور ’’قیمت (خمیازہ)‘‘ آنے والی ہماری نسلیں ادا کریں گی!

ہم سب تین وقت روٹی کھاتے ہیں لیکن کیا ہم اس کا حق بھی کر رہے ہیں؟ سب سے آسان کام گپ شپ لگانا ہے اور یہی ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ جب ہم کسی کو ذمہ داری سونپتے ہیں تو وہ اِسے آگے منتقل کر دیتا ہے۔ عوام الناس کی اس کمزوری سے افسرشاہی آگاہ ہے جو عوام کی نااتفاقی سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں! فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’مال روڈ‘ کو کشادہ (دو سے تین رویہ) کرنے کا ہے۔ کئی بوڑھے شہری اور بچے تیزرفتار ٹریفک کی زد میں آ چکے ہیں اور جب یہی دو رویہ بڑھائی جائے گی‘ تو ٹریفک کی رفتار لامحالہ بڑھے گی۔ سب سے اہم ضرورت انسانی زندگی کا خیال ہے کہ بھلے ہی ٹریفک سست ہو لیکن کسی انسانی جان کا نقصان نہیں ہونا چاہئے۔

عمررسیدہ افراد کے لئے ’زیبرا کراسنگ‘ ہونی چاہئے۔ 80سالہ معمر شخص بھلا کیسے ’اُوور ہیڈ برج‘ کے ذریعے سڑک عبور کر سکے گا؟ دنیا کے پانچ شہروں کو ’عوام دوست‘ قرار دیا گیا‘ جہاں گاڑٖیوں کا داخلہ ممنوع قرار دینے سے شروعات کی گئی ہے۔ ماحول دوستی اور انسان دوستی ہی نہیں بلکہ مغربی معاشروں کی تہذیب یہ ہے کہ وہاں جانوروں کا بھی اپنی ذات سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ مہذب معاشرہ وہی ہوتا ہے جس میں اپنی ذات کی بجائے دوسروں کا خیال رکھا جائے۔ کیا ہم کسی بھی لحاظ سے ’مہذب‘ ہیں‘ منظم ہیں اور کیا ہم نے بانئ پاکستان کے اُس پیغام کے الفاظ میں چھپے معانی کو سمجھ لیا ہے کہ ’’اتحاد اُور نظم و ضبط‘‘ کی اہمیت کیا ہے؟ جس کی گاڑی پر جھنڈا لگا ہوتا ہے وہ خود کو قانون و ضوابط سے بالاتر سمجھتا ہے اور جب تک قانون بلاامتیاز لاگو نہیں ہوں گے‘ جب تک قواعد کا اطلاق عوام کی طرح خواص پر نہیں ہوگا اور جب تک مالی و انتظامی بدعنوانیاں کرنے والوں کا احتساب ’اوپر‘ سے شروع نہیں ہوگا‘ نہ تو سوچ بدلے گی‘ نہ عمل کا ارتقاء ہو پائے گا۔ تبدیلی کا خواب اُس نیند کے ٹوٹنے سے ممکن ہے جس نے ہمیں اپنی اپنی ’خوابگاہوں‘ تک محدود کر رکھا ہے!
Environmentalist Mahmood Aslam speaks about Abbottabad, culture of book reading and importance of it preservation

No comments:

Post a Comment