ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
علامات دانش
علامات دانش
مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کے عزائم
اُور توقعات آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ انتخابی وعدوں کے انبار بھی پہاڑ جتنے
بلند ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ صرف اتنے ہی وعدے کئے جاتے جن
کا ایفاء کرنا بعدازاں عملاً ممکن ہوں لیکن ’سیاسی شعبدہ بازی‘ کا ایک رنگ
یہ بھی ہے کہ جو جتنا ’چرب زبان‘ ہوتا ہے لوگ اُسے ہی زیادہ سننا اور اُس
کی باتوں محظوظ ہو کر اپنا ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ بناء سانس لئے‘ باآواز
بلند‘ مسلسل (موسلادھار) بولنا اُور بے تھکان بولتے رہنا‘ دنیا کی کسی
دوسری تہذیب کا نہ تو خاصہ ہے اور نہ ہی اسے پذیرائی دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ
خاموش رہنے کو ’علم وحکمت‘ اُور ’دانش‘ کی علامت سمجھتا ہے جبکہ ہمارے ہاں
وحشت کا یہ عالم ہے کہ اصطلاحی اور معنوی نظام کی گنگا الٹ بہہ رہی ہے۔
کسی دانا کا قول ہے کہ ’’جو برتن خالی ہو‘ اُس پر ٹھوک بجانے سے تیز آواز پیدا ہوتی ہے‘‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اِردگرد برپا ’روائتی انتخابی شورشرابہ‘ سے بہتری کی توقع رکھنا خودفریبی کی انتہاء ہوگی؟ کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے ہاں اُلو (owl) نامی پرندے کو بیوقوفی کی علامت قرار دیا جاتا ہے جبکہ مغربی دنیا کی کئی ایک نامور جامعات کی علامت خاموش طبع‘ ژرف نگاہ ’اُلو‘ ہے اور اِن جامعات سے تحصیل یافتہ افراد میں پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والوں سمیت سیاسی جماعتوں کے کئی ایک قائدین شامل ہیں! یوں تو دنیا میں ’اُلو‘ کی قریب 200 اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ہمیں مشرقی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے تصور والے ’اُلو‘ جیسی خصوصیات رکھنے والوں کی ضرورت ہے‘ جو اپنے مشاہدے‘ علم اور حکیمانہ سوچ سے قوم کی تقدیر بدل دیں۔ جو اپنے ساتھ خوش قسمتی ہی نہیں بلکہ عام آدمی کے لئے وہ خوشخبری لائیں‘ جسے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یونانی اُور بدھ مت تعلیمات کے فلسفے میں ’اُلو‘ ایک ایسا مقدس پرندہ ہے‘ جس کا حوالہ ’ذہانت اُور مالی طور پر خوشحالی‘ لانے کے لئے دیا جاتا ہے! اُور کاش کہ ہمارے معاشرے کی یہی دو ضرورتیں پوری ہو جائیں!
صورتحال اِس قدر تاریک بھی نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مثال لیں‘ جو اپنے نام کے لحاظ سے بظاہر ’دین اسلام‘ کے ماننے والوں کی نمائندگی کرتی ہے لیکن اپنی ذات میں (داخلی طور پر) منظم و جمہوری ترین جماعت کی جانب سے جس فقیدالمثال طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ وہ محتاج بیان و توصیف ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ضلع پشاور سے جماعت اسلامی نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے 57 اُمیدواروں کو نامزد کیا ہے اور یہ تعداد دیگر ہم عصر جملہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ خود کو سیکولر‘ قوم پرست اور آزاد خیال سمیت نجانے کیا کچھ کہنے والی جماعتوں کے ہاں بھی اس بات کی مثال نہیں ملتی کہ اُنہوں نے اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں فیصلہ سازی کرتے ہوئے اِس قدر باریک بینی سے سوچا ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جماسلامی پاکستان کی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی ضلعی‘ صوبائی اور مرکزی تنظیم اِس قدر فعال ثابت ہوئی ہے‘ جس نے ایک طرف ’جماعت‘ کے لئے نیک نامی کمائی ہے اور دوسری جانب اِس منفی کو بھی زائل کیا ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق بارے احکامات سے کتابیں بھری ہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عملدرآمد نہیں کیا جاتا! یاد رہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے کونسلر کے لئے 47 اقلیتی افراد کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں جبکہ 10 جماعت کی جانب سے ٹاؤن اور ضلعی نشستوں کے لئے اُمیدوار ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ۔۔۔ پشاور کی اقلیتی برادری عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے قریب تھی لیکن بشیر احمد بلور کے قتل اور بعدازاں اُن کی سیاسی وارثوں نے مختلف (منطقی) وجوہات کی بناء پر فعال سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پشاور نے بشیر بلور کی طرح نڈر سیاست دان بھی نہیں دیکھا جن کا بیشتر وقت اپنے انتخابی حلقے میں بالخصوص اور پشاور کی سڑکوں پر بالعموم گزرتا تھا۔ ’اے این پی‘ ضلع پشاور کی جانب سردمہری کی وجہ سے عیسائی اقلیت ’تحریک انصاف‘ کے قریب ہو گئی اور اِس برادری سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کا یہ طرز عمل بھی رہا ہے کہ جس کی حکومت ہو اُسی کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحریک انصاف ضلع پشاور کی سطح پر عیسائی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کو زیادہ ٹکٹ جاری کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا جس وجہ تحریک ذرائع کے مطابق کم تعداد میں ملنے والی درخواستیں تھیں تو یہ کوئی جواز ہی نہیں کیونکہ مالی طور پر کمزور عیسائی اقلیت کی اکثریت میں مخلص کارکنوں کی کمی نہیں۔ اقلیتوں کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی سوچ کا انداز اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور سے پاکستان پیپلزپارٹی نے 11‘ تحریک انصاف نے 17 اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 13 افراد کو مقامی حکومتوں کے لئے نامزدگیاں عنایت کی ہیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے جاری ہونے والے ٹکٹوں میں اکثریت مسیحیوں کو دی گئی ہے جبکہ تین سکھ اقلیتی افراد بھی جماعت اسلامی کے ٹکٹ سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کے ناطے ’ضلع پشاور‘ میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح اقلیتی برادری سے معاملہ کیا ہے‘ اُس کا عکس دیگر اضلاع میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
کسی دانا کا قول ہے کہ ’’جو برتن خالی ہو‘ اُس پر ٹھوک بجانے سے تیز آواز پیدا ہوتی ہے‘‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اِردگرد برپا ’روائتی انتخابی شورشرابہ‘ سے بہتری کی توقع رکھنا خودفریبی کی انتہاء ہوگی؟ کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے ہاں اُلو (owl) نامی پرندے کو بیوقوفی کی علامت قرار دیا جاتا ہے جبکہ مغربی دنیا کی کئی ایک نامور جامعات کی علامت خاموش طبع‘ ژرف نگاہ ’اُلو‘ ہے اور اِن جامعات سے تحصیل یافتہ افراد میں پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والوں سمیت سیاسی جماعتوں کے کئی ایک قائدین شامل ہیں! یوں تو دنیا میں ’اُلو‘ کی قریب 200 اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ہمیں مشرقی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے تصور والے ’اُلو‘ جیسی خصوصیات رکھنے والوں کی ضرورت ہے‘ جو اپنے مشاہدے‘ علم اور حکیمانہ سوچ سے قوم کی تقدیر بدل دیں۔ جو اپنے ساتھ خوش قسمتی ہی نہیں بلکہ عام آدمی کے لئے وہ خوشخبری لائیں‘ جسے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یونانی اُور بدھ مت تعلیمات کے فلسفے میں ’اُلو‘ ایک ایسا مقدس پرندہ ہے‘ جس کا حوالہ ’ذہانت اُور مالی طور پر خوشحالی‘ لانے کے لئے دیا جاتا ہے! اُور کاش کہ ہمارے معاشرے کی یہی دو ضرورتیں پوری ہو جائیں!
صورتحال اِس قدر تاریک بھی نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مثال لیں‘ جو اپنے نام کے لحاظ سے بظاہر ’دین اسلام‘ کے ماننے والوں کی نمائندگی کرتی ہے لیکن اپنی ذات میں (داخلی طور پر) منظم و جمہوری ترین جماعت کی جانب سے جس فقیدالمثال طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ وہ محتاج بیان و توصیف ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ضلع پشاور سے جماعت اسلامی نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے 57 اُمیدواروں کو نامزد کیا ہے اور یہ تعداد دیگر ہم عصر جملہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ خود کو سیکولر‘ قوم پرست اور آزاد خیال سمیت نجانے کیا کچھ کہنے والی جماعتوں کے ہاں بھی اس بات کی مثال نہیں ملتی کہ اُنہوں نے اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں فیصلہ سازی کرتے ہوئے اِس قدر باریک بینی سے سوچا ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جماسلامی پاکستان کی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی ضلعی‘ صوبائی اور مرکزی تنظیم اِس قدر فعال ثابت ہوئی ہے‘ جس نے ایک طرف ’جماعت‘ کے لئے نیک نامی کمائی ہے اور دوسری جانب اِس منفی کو بھی زائل کیا ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق بارے احکامات سے کتابیں بھری ہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عملدرآمد نہیں کیا جاتا! یاد رہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے کونسلر کے لئے 47 اقلیتی افراد کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں جبکہ 10 جماعت کی جانب سے ٹاؤن اور ضلعی نشستوں کے لئے اُمیدوار ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ۔۔۔ پشاور کی اقلیتی برادری عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے قریب تھی لیکن بشیر احمد بلور کے قتل اور بعدازاں اُن کی سیاسی وارثوں نے مختلف (منطقی) وجوہات کی بناء پر فعال سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پشاور نے بشیر بلور کی طرح نڈر سیاست دان بھی نہیں دیکھا جن کا بیشتر وقت اپنے انتخابی حلقے میں بالخصوص اور پشاور کی سڑکوں پر بالعموم گزرتا تھا۔ ’اے این پی‘ ضلع پشاور کی جانب سردمہری کی وجہ سے عیسائی اقلیت ’تحریک انصاف‘ کے قریب ہو گئی اور اِس برادری سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کا یہ طرز عمل بھی رہا ہے کہ جس کی حکومت ہو اُسی کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحریک انصاف ضلع پشاور کی سطح پر عیسائی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کو زیادہ ٹکٹ جاری کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا جس وجہ تحریک ذرائع کے مطابق کم تعداد میں ملنے والی درخواستیں تھیں تو یہ کوئی جواز ہی نہیں کیونکہ مالی طور پر کمزور عیسائی اقلیت کی اکثریت میں مخلص کارکنوں کی کمی نہیں۔ اقلیتوں کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی سوچ کا انداز اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور سے پاکستان پیپلزپارٹی نے 11‘ تحریک انصاف نے 17 اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 13 افراد کو مقامی حکومتوں کے لئے نامزدگیاں عنایت کی ہیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے جاری ہونے والے ٹکٹوں میں اکثریت مسیحیوں کو دی گئی ہے جبکہ تین سکھ اقلیتی افراد بھی جماعت اسلامی کے ٹکٹ سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کے ناطے ’ضلع پشاور‘ میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح اقلیتی برادری سے معاملہ کیا ہے‘ اُس کا عکس دیگر اضلاع میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment