Sunday, May 24, 2015

May2015: LG Polls and surveillance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خوشگوار و دلخراش
حقوق اِنسانیت کے عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر اکیس کی تیسری شق میں تحریر ہے (ترجمہ) ’’عوام کی رائے حکومت کے اختیار کی اساس ہوگی۔ اِس رائے کا اظہار معیادی (مقررہ وقفہ کے بعد) اور حقیقی انتخابات میں ہوگا جو کہ برابری‘ بالغ رائے دہی اور خفیہ ووٹ (ڈالنے) کے (عمل کے) ذریعے ہوں گے۔‘‘ اصطلاحی ومعنوی اور جمہوری نظام کے ثمرات سے ہر طبقے کے مستفید ہونے کے لئے عالمی سطح پر چناؤ کے عمل کی تعریف و وضاحت تو کر دی گئی ہے‘ لیکن اِسے مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا۔ اِس تصور کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ’عام انتخابات کے ذریعے جو نمائندے چنے جائیں گے‘ اُن سے مقامی حکومت بنے گی لیکن ’رائے دہی‘ کا اظہار خفیہ اور کسی دھونس‘ دھمکی یا تشدد یا خوف کے بغیر ہونا چاہئے جبکہ نتائج کا اعلان بھی بلاتاخیر اور سوفیصد درست ہونے چاہیءں۔ اِس مقصدکے لئے ’الیکشن کمیشن‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جو آزادانہ و منصافانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ذمہ دار ہے لیکن اگر انتخابات کی نگرانی کا عمل اُمیدواروں کی جانب سے کیا جائے تو اس کی وجہ سے 1: غلطیوں یا دھاندلی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔2: انتخابی عمل اور نتائج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ 3: بعدازاں فیصلہ سازی کرتے ہوئے جمہوری طریقوں سے کام لیا جائے گا۔ 4: اگر تنازعہ پیدا ہوا تو اُس کے پرامن حل کی راہ موجود ہوگی اور 5: طرزحکمرانی میں عام آدمی کے حقوق کا تحفظ‘ حقوق انسانی کا احترام اور مالی و انتظامی ضوابط پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

سیاسی و انتخابی تجربہ کاروں نے ’مقامی حکومتوں‘ کے انتخابات کو نادر موقع سمجھ لیا ہے‘ جس کے ذریعے وسائل اور فیصلہ سازی کا عمل بھی اُنہی طاقتوں کے ’تابع فرمان‘ بنا دیا جائے‘ جن کا منصب اگرچہ قانون سازی ہے لیکن اِس کے علاؤہ دیگر امور میں اُن کی دلچسپی نے پورے منظرنامے کو چند خاندانوں کے لئے خوشگوار اور عوام کی اکثریت کے لئے دلخراش تجربہ بنادیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے نامزدگیاں حاصل کرنے والوں میں وہی لوگ شامل ہیں جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں۔ کسان کونسلر بننے میں وہ دلچسپی لے رہے ہیں جن کا زراعت سے دور کا بھی تعلق یا واسطہ نہیں! دوسری جانب حیرت انگیز امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرح سیاسی جماعتوں نے بھی پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمندوں سے بھاری فیسیں وصول کیں ہیں اور جن درخواست دہندگان کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے گئے اُنہیں نہ تو فیس واپس کی گئی اور نہ ہی اُن سینکڑوں کروڑوں روپے کا حساب دیا جائے گا‘ جو ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ’پارٹی ٹکٹوں‘ کی مد میں وصول کئے گئے۔ یہی ماضی کی بھی روایت رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں داخلی طور پر ’سوال کرنے‘ کی ممانعت رہتی ہے۔ ’سرتسلیم خم‘ کرنے اور پارٹی سربراہ یا اُن کے اہل خانہ سے تعلقات کی بنیاد کتنے اہم اور کسی سیاسی کارکن کے مستقبل کے لئے کتنے اہم ہوتے ہیں‘ یہ بات ’تہہ در تہہ مفادات‘ کی پرتوں میں بند ہے اور اِس گرداب سے نکلنے کی واحد صورت ’عام انتخابات‘ ہیں جس کے درپیش مرحلے پر اُن ناتجربہ کاروں سے درخواست ہے کہ وہ ’پولنگ کے دن‘ کے لئے ابھی سے تیاری و منصوبہ بندی کریں۔ یاد رکھیں کہ غلطیاں انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں۔ اگر کسی پولنگ بوتھ پر انتخابی عملے سے غلطی سرزد ہو بھی جائے‘ تو جذبات پر قابو رکھیں اور پولنگ کے مقررہ اوقات میں خلل کسی بھی صورت نہ آنے دیں۔ پولنگ اسٹیشن کو کسی بھی صورت خالی نہ چھوڑیں اور نہ ہی اپنی نگرانی کی ذمہ داری کسی دوسرے کو سونپ کر اطمینان محسوس کریں۔ انتخابات کے دن ووٹ ڈالنے کے عمل کی نگرانی سے زیادہ کوئی دوسرا اہم کام ہو ہی نہیں سکتا۔ بطور ’پولنگ ایجنٹ‘ اپنے اُمیدوار کے مفادات کا تحفظ ایک ایسی ذمہ داری ہے‘ جو زیادہ محنت و توجہ طلب ہے۔ جب تک ایک کی جگہ دوسرا ’پولنگ ایجنٹ‘ نہیں لے لیتا‘ نمائندے خود کو پولنگ بوتھ میں محصور رکھیں۔ کسی بے قاعدگی کی صورت میں بذریعہ فون کال یا ٹیکسٹ میسج (ایس ایم ایس پیغام) کے ذریعے اپنے نمائندے کو مطلع کریں۔ ایسے سمارٹ فون کا استعمال کریں جس میں کیمرہ موجود ہو‘ تاکہ کسی بے قاعدگی کی تصویر یا فلم بنا سکیں۔

انتخابی اُمیدواروں کی پہلی ترجیح ایسے پولنگ ایجنٹ ایجنٹس کا انتخاب ہونی چاہئے جنہیں انٹرنیٹ کے استعمال اور ’واٹس ایپ‘ سے واقفیت ہو تاکہ صوتی و تصویری مواد فوری طور پر جاری کیا جاسکے۔ انتخابی اُمیدوار واٹس ایپ (What's App) پر ’پولنگ ایجنٹس کے ’گروپ (Group)‘ بنا کر باہم رابطہ کاری کی مشق کریں۔ ٹیکنالوجی سے دھاندلی کو ظاہر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طوفان کو روکنا بھی ممکن ہے۔ ایک دن کے لئے موبائل انٹرنیٹ کی سہولت دس روپے جیسی معمولی ادائیگی کے عوض حاصل کی جاسکتی ہے۔ بطور پولنگ ایجنٹ جب تک ثبوت محفوظ نہ کر لئے جائیں اُس وقت تک الزام تراشی سے گریز کریں بلکہ توجہ اور توانائیاں زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھا کرنے پر مرکوز و صرف کریں۔ اپنے ساتھ پانی کی بوتل‘ کھانے پینے کی اشیاء‘ موبائل فون کی اضافی بیٹری یا چارجر‘ ایک عدد ڈائری اور قلم ضرور رکھیں تاکہ یاداشتیں ترتیب وار درج کرتے رہیں۔

 انتخابات کی نگرانی صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہیں جبکہ قواعد وضوابط کے بارے میں ہر پولنگ ایجنٹ کا مطالعہ وسیع ہو۔ اگر ایک ووٹ چیلنج کرنے کی فیس 2 روپے مقرر ہے تو آپ کے پاس مقررہ فیس ادا کرنے کے لئے سکے ایک تھیلی میں ہونے چاہیءں۔ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں ایسے متنازعہ ووٹوں کا شمار اور اُن کی الگ گنتی میں غلطی نہیں ہونی چاہئے۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد جب تک گنتی کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا اور کسی پولنگ بوتھ کے نتیجے پر تحریری طورپر تمام پولنگ ایجنٹس دستخط کرکے آپ کو ایک عدد کاپی (نقل) فراہم نہیں کر دی جاتی‘ اُس وقت تک کامیابی کی خوشی یا کم ووٹ ملنے کے افسوس میں ’پولنگ بوتھ‘ سے رخصت نہ لیں کیونکہ انتخاب کا نتیجہ کسی ایک پولنگ بوتھ پر منحصر نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں کہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کا مقابلہ ایسے تجربہ کاروں سے ہے جو صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور اُن کا مقابلہ صرف اور صرف بیدار (فوکس) رہنے ہی سے ممکن ہے

No comments:

Post a Comment