Operation Stalemate
بحالی اَمن:ممکنہ اَہداف
بحالی اَمن:ممکنہ اَہداف
واقعات کا تسلسل ملاحظہ کیجئے۔ رواں برس ماہ جنوری میں دہشت گردی کا قلع
قمع کرنے کے لئے ’قومی سطح پر حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان)‘ وضع کی گئی۔
جنوری ہی میں پاک فوج کی معاونت سے ایک اعلیٰ سطحی ذیلی مجلس (اپیکس کمیٹی)
تشکیل دی گئی‘ جس کی بنیادی ذمہ داری ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد
ممکن بنانا اور مہمات کی رفتار کا جائزہ لینا تھا۔ مارچ میں متحدہ قومی
موومنٹ کے صدر دفتر (نائن زیرو) پر چھاپہ مارا گیا‘ جہاں سے بھاری مقدار
میں اسلحہ اور انتہائی مطلوب مجرم گرفتار کئے گئے۔ ماہ اپریل کے دوران
کراچی میں ’اپیکس کمیٹی‘ کا ایک اجلاس طلب کیا گیا‘ جس میں صرف قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے نگرانوں نے شرکت کی۔ اِس غیرمعمولی اجلاس کے بعد یہ
تاثر لیا جانے لگا کہ سیاسی شخصیات اُور قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر
مشتمل ’اَپیکس کمیٹی‘ کا وجود غیراعلانیہ طور پر ختم کردیا گیا ہے؟ ماہ مئی
کے دوران لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کہا کہ ’’سندھ حکومت بے صلاحیت
(نااہل) ثابت ہوئی ہے۔‘‘
پس منظر: 14مئی 2006ء کو پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے درمیان ’بقائے جمہوریت‘ کے لئے سیاسی تعاون کی ایک یاداشت (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر اتفاق اُور دستخط ہوئے جس میں تحریر ہے کہ فوج کے ماتحت سرکاری اداروں کا اختیار حکومت اپنے ہاتھ میں لے گی۔ خفیہ اداروں کی سیاسی شاخوں (پولیٹیکل سیل) ختم کئے جائیں گے اور اِس یاداشت کے اختتام پر دونوں جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ’عسکریت پسندی آمرانہ ادوار کا حاصل (ذیلی پیداوار) ہے۔‘
وزیراعظم نواز شریف کا سیاسی لائحہ عمل یہ ہے کہ سندھ حکومت کے معاملات سے کنارہ کش رہا جائے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور تمام کلیدی فیصلے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی منظوری سے نافذ العمل ہوتے ہیں۔ دوسری جانب شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا سیاسی لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے تندوتیز حملوں اور جنونی یلغار کا مقابلے کرنے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا ساتھ ڈھال کی صورت دے رہے ہیں۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین اپنے ایک بیان میں اشارتاً کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی شعبدہ گری سے معیوب ہونے والے نہیں اور نہ ہی سندھ حکومت کے چلے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین کی نظر میں سندھ حکومت کے معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین (پیپلزپارٹی) کراچی کی صورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ چھٹا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین کے خیال میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اُن کے خلاف جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ کسی کے اشارے یا حکم کی تعمیل ہے۔
پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک فوج کی ساکھ اُور کارکردگی گذشتہ چار دہائیوں کے مقابلے بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ حالیہ چند دہائیوں کے دوران اُن کے ہم منصب کسی دوسرے فوج کے سربراہ کو اِس قدر عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا۔ اگر ہم پاک فوج کے سربراہ کی اختیار کردہ حکمت عملی اور اُن کے اقدامات و ترجیحات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی ترجیح قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کاروائی ضرب عضب کی کامیابی سے تکمیل اور اس کاروائی سے جڑے ہوئے جملہ اہداف کا حصول ہے۔ دوسری ترجیح کراچی میں سیاست اور جرائم کے درمیان تعلق داری کو ختم کرنا ہے۔ تیسری ترجیح دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان‘ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا اور اِس حکمت عملی انجام تک پہنچانا ہے۔ چوتھی ترجیح ’ایپکس کمیٹی‘ کے فعالیت کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرنا ہے تاکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور ساحلی شہر سے عسکریت پسندوں کے قدم اکھاڑے جا سکیں۔ پانچویں ترجیح فوجی عدالتوں کے قیام میں تعاون فراہم کرنا ہے تاکہ فوری انصاف کے ذریعے سماج دشمن عناصر کو بلاتاخیر انجام تک پہنچایا جا سکے۔ اب تک کی جانے والی کاروائیوں سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں اہم کاروائی کو ایک جبکہ کاروائی کی راہ میں حائل چار رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اور ان کی بنیادی وجوہات کا مرکزی نکتہ ’اعتماد و بھروسے کا فقدان‘ ہے یعنی فوج کے ادارے اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک دوسرے کی کوششوں اور نیت پر مکمل اعتماد نہیں پایا جاتا۔ فوج کا اصرار ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ فوج عسکریت پسندوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کاروائی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے جو اقتدار میں آنے کی وجوہ بھی ہو سکتی ہے۔ سیاست دان روائتی طرز حکمرانی کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں اور فوج اس تسلسل کا خاتمہ چاہتی ہے۔ پاکستان کئی ایک بحرانوں سے گزر رہا ہے جس میں ایک طرف عسکریت پسندوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ جاری ہے اور دوسری طرف سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان اعتماد کی کمی کے سبب معاملات میں پیچیدگیاں آ رہی ہیں۔ توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ وقت کا دانشمندانہ اور درست استعمال کسی بھی محاذ پر کامیابی کا حصول ممکن بنا سکتی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
پس منظر: 14مئی 2006ء کو پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے درمیان ’بقائے جمہوریت‘ کے لئے سیاسی تعاون کی ایک یاداشت (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر اتفاق اُور دستخط ہوئے جس میں تحریر ہے کہ فوج کے ماتحت سرکاری اداروں کا اختیار حکومت اپنے ہاتھ میں لے گی۔ خفیہ اداروں کی سیاسی شاخوں (پولیٹیکل سیل) ختم کئے جائیں گے اور اِس یاداشت کے اختتام پر دونوں جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ’عسکریت پسندی آمرانہ ادوار کا حاصل (ذیلی پیداوار) ہے۔‘
وزیراعظم نواز شریف کا سیاسی لائحہ عمل یہ ہے کہ سندھ حکومت کے معاملات سے کنارہ کش رہا جائے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور تمام کلیدی فیصلے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی منظوری سے نافذ العمل ہوتے ہیں۔ دوسری جانب شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا سیاسی لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے تندوتیز حملوں اور جنونی یلغار کا مقابلے کرنے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا ساتھ ڈھال کی صورت دے رہے ہیں۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین اپنے ایک بیان میں اشارتاً کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی شعبدہ گری سے معیوب ہونے والے نہیں اور نہ ہی سندھ حکومت کے چلے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین کی نظر میں سندھ حکومت کے معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین (پیپلزپارٹی) کراچی کی صورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ چھٹا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین کے خیال میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اُن کے خلاف جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ کسی کے اشارے یا حکم کی تعمیل ہے۔
پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک فوج کی ساکھ اُور کارکردگی گذشتہ چار دہائیوں کے مقابلے بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ حالیہ چند دہائیوں کے دوران اُن کے ہم منصب کسی دوسرے فوج کے سربراہ کو اِس قدر عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا۔ اگر ہم پاک فوج کے سربراہ کی اختیار کردہ حکمت عملی اور اُن کے اقدامات و ترجیحات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی ترجیح قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کاروائی ضرب عضب کی کامیابی سے تکمیل اور اس کاروائی سے جڑے ہوئے جملہ اہداف کا حصول ہے۔ دوسری ترجیح کراچی میں سیاست اور جرائم کے درمیان تعلق داری کو ختم کرنا ہے۔ تیسری ترجیح دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان‘ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا اور اِس حکمت عملی انجام تک پہنچانا ہے۔ چوتھی ترجیح ’ایپکس کمیٹی‘ کے فعالیت کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرنا ہے تاکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور ساحلی شہر سے عسکریت پسندوں کے قدم اکھاڑے جا سکیں۔ پانچویں ترجیح فوجی عدالتوں کے قیام میں تعاون فراہم کرنا ہے تاکہ فوری انصاف کے ذریعے سماج دشمن عناصر کو بلاتاخیر انجام تک پہنچایا جا سکے۔ اب تک کی جانے والی کاروائیوں سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں اہم کاروائی کو ایک جبکہ کاروائی کی راہ میں حائل چار رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اور ان کی بنیادی وجوہات کا مرکزی نکتہ ’اعتماد و بھروسے کا فقدان‘ ہے یعنی فوج کے ادارے اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک دوسرے کی کوششوں اور نیت پر مکمل اعتماد نہیں پایا جاتا۔ فوج کا اصرار ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ فوج عسکریت پسندوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کاروائی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے جو اقتدار میں آنے کی وجوہ بھی ہو سکتی ہے۔ سیاست دان روائتی طرز حکمرانی کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں اور فوج اس تسلسل کا خاتمہ چاہتی ہے۔ پاکستان کئی ایک بحرانوں سے گزر رہا ہے جس میں ایک طرف عسکریت پسندوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ جاری ہے اور دوسری طرف سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان اعتماد کی کمی کے سبب معاملات میں پیچیدگیاں آ رہی ہیں۔ توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ وقت کا دانشمندانہ اور درست استعمال کسی بھی محاذ پر کامیابی کا حصول ممکن بنا سکتی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
Operation Stalemate
ReplyDeleteDr Farrukh Saleem
Sunday, May 24, 2015
Timeline: In January, the National Action Plan (NAP) was firmed up. In January, the GHQ facilitated the formation of apex committees for the implementation NAP. In March, Nine-Zero was raided. In April, a law and order review meeting was held at the Karachi Corps HQ where no civilian was invited (end of apex committee?). In May, Lieutenant-General Naveed Mukhtar said that the Sindh government was “inefficient”.
Backgrounder: On May 14, 2006, the PPP and the PML-N signed the Charter of Democracy under which: “the military’s subordination of all state institutions” was to be abolished; the “political wings of all intelligence agencies will be disbanded”; and the charter had concluded that “terrorism and militancy are by-products of military dictatorship”.
PM Nawaz Sharif (current chessboard): One: An understanding of non-interference into the affairs of Sindh with PPP Co-Chairman Asif Zardari. Two: An understanding with Co-Chairman Asif Zardari of forming a joint front against PTI Chairman Imran Khan. Three: To adopt the path of least resistance on matters important to the GHQ. Four: To postpone the final decision on Sindh to an ever-postponing future.
Co-Chairman Asif Zardari (current chessboard): One: Co-Chairman Asif Zardari is with PM Nawaz Sharif in both the National Assembly and the Senate. Two: Co-Chairman is standing with PM Sharif against Chairman Imran Khan. Three: Co-Chairman says that he is “not afraid of any magic wand”. Four: Co-Chairman insists that everything is fine in Sindh. Five: On Karachi affairs, Co-Chairman is standing shoulder-to-shoulder with Quaid-e-Tehreek Altaf Husain. Six: According to the Co-Chairman, Dr Zulfiqar Mirza is speaking on behalf of “someone else”.
COAS General Raheel Sharif: The current army chief’s reputation and stature now stand taller than any COAS over the past four decades. No army chief in recent memory has enjoyed so much public trust as does the current one.
His current chessboard position: One: Fighting terrorists in Fata (Operation Zarb-e-Azb successful). Two: Fighting urban terrorism in Karachi (Operation stalemated; see definition below). Three: Facilitated the formation of the National Action Plan (Operation stalemated). Four: Facilitated the formation of apex committees for the implementation of the National Action Plan (Operation stalemated). Five: Facilitated the establishment of military courts (Operation stalemated). Record so far: Major operation successful = 1; Operations stalemated = 4.
Definitions: Stalemate is a “situation in which further action is blocked”. Deadlock is a “situation, typically one involving opposing parties, in which no progress can be made”. Standstill is “a complete cessation of movement; stop; halt”. Gridlock is “a complete lack of movement or progress resulting in a backup or stagnation”. Quandary is “a state of uncertainty or perplexity”.
What really is the root cause behind ‘Operation Stalemate’? Two words: Trust deficit; the civil-military trust deficit. The GHQ insists that it is out to fight terror. The ruling politicians fear that the GHQ is out to capture political power in the name of fighting power. The ruling politicians are bent upon maintaining the status quo-both the political and the financial status quos. The GHQ, on the face of it, wants to break the status quo – at least the current status quo on the partnership between politics and crime.
We are in the midst of a serious war – and fighting a war in a system full of distrust risks losing it. The need of the day is trust management – trust management between and among interdependent relationships. Red alert: Time is of the essence.