ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اُردو: قوس قزح کے رنگ!
اُردو: قوس قزح کے رنگ!
حبیب الرحمان صاحب کی فون کال آئی حکم ملا کہ ’ٹھوس گندگی‘ کی بجائے ’کوڑا
کرکٹ‘ استعمال کیا جائے۔ وہ ’اہلیان‘ کی جگہ ’اہل‘ کا لفظ استعمال کرنے کی
بھی تلقین کرتے ہیں اور یہ اُن کی اپنے پیشے سے دیانتداری کا منہ بولتا
اظہار ہے کہ وہ ہر موقع پر اصلاح کرتے ہیں بلکہ اصلاح کا کوئی بھی موقع
ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ (اللہ اُن کا سایہ تادیر سلامت رکھے) سوچئے کہ
ہمارے ہاں ایسے کتنے اخبارات ہیں جن کے ایڈیٹرز خود کو صحافت کے لئے وقف
کئے ہوئے ہیں؟
خلدآشیاں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان (مرحوم) کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں جب وہ جامعہ پشاور کے شعبہ اُردو میں لیکچر دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے کہ ’’یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود ملک میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس زبانِ غیر ہونے کے باوجود انگریزی ملک میں راج کررہی ہے۔‘‘ چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بروز ترقی کرنے والا الیکٹرونک میڈیا (ذرائع ابلاغ) اُردو زبان کی مزید زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ کاش ڈاکٹر صاحب زندہ ہوتے اور زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کے غلط استعمال کی اصلاح کرتے جو الیکٹرونک میڈیا پر عام ہے جو یقیناًاہلِ زبان اور صاحبانِ علم کے لئے انتہائی تشویش (تکلیف) کا باعث ہے کیونکہ غلط یا غیر معیاری زبان کا فروغ پہلے ہی سے ملک میں عدم توجہ کا شکار اردو کی مزید بربادی کا باعث بن رہا ہے‘ حالانکہ یہی تفریحی اور خبروں کے چینل اردو زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں!
غلط اردو کا استعمال ٹی وی ڈراموں‘ اشتہارات‘ سیاسی و معاشرتی مباحثوں‘ خبروں اور صبح نشر ہونے والے مارننگ شو وغیرہ میں عام ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔ ٹی وی چینلوں پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات کی اردو سے شرمناک حد تک ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے، لیکن اس اعتبار سے سرکاری ٹی وی نے اپنے معیار کو تا حال بلند کر رکھا ہے۔ سرکاری ٹی وی (پاکستان ٹیلی ویژن) پر باقاعدہ اردو شناس افراد کو ملازم رکھنے کی روایت موجود ہے‘ تاکہ زبان کا صحیح استعمال ہوسکے۔ میزبانوں کے انتخاب میں سرکاری ٹی وی کا معیار بالخصوص ماضی میں اتنا بلند ہوا کرتا تھا کہ قریش پور‘ عبیداللہ بیگ‘ ضیاء محی الدین‘ طارق عزیز‘ مستنصر حسین تارڑ‘ انور مقصود‘ لئیق احمد‘ فراست رضوی‘ مختار علی نیئر جیسے شاعروں‘ ادیبوں‘ دانشوروں اور صاحبانِ مطالعہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں لیکن دورِ حاضر میں نجی چینلوں پر معاملہ یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں زبان انتہائی مظلوم نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔ تلفظ کے بارے میں تو صاحبانِ زبان و لسان ذرا رعایت سے کام لیتے ہیں کیونکہ بعض افراد جن کی مادری زبان اُردو کے علاؤہ کوئی اور ہو تو وہ تلفظ میں تھوڑی بہت غلطیاں کرتے ہیں جو کسی حد تک مخارج کی مجبوری ہوا کرتی ہیں۔ جیسے پنجابی حضرات ’ق‘ کو ’ک‘ اور فارسی بان ’ق‘ کو ’غ‘ پڑھتے ہیں۔ گجراتی بولنے والے ’س‘ کو ’ش‘ اور ’ش‘ کو ’س‘ تلفظ کرتے ہیں لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہے جو اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد یعنی گرامر ہی تبدیل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند جملے بطورِ مثال پیش خدمت ہیں، جیسے ’آپ کیا کرتے ہو‘ ۔۔۔ ’آپ جاؤ گے‘ ۔۔۔ ’آپ چائے پیو گے‘ یعنی ایک ہی جملے میں تعظیم بھی ہے اور تذلیل بھی۔ اسے اصطلاح میں شترگربہ کہتے ہیں۔ لڑکیوں کے لئے لفظ ’بیٹی‘ کی جگہ ’بیٹا‘ استعمال کرنا ’’غلط العام‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کے لئے ان جملوں کا استعمال کہ ’بیٹا آپ کہاں جارہے ہو‘ یا ’آپ کیسے ہو‘ وغیرہ نہ صرف قواعد کی رو سے غلط ہیں بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہیں!
اردو قواعد کی غلطیاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ لفظ ’عوام‘ کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہے یعنی اس انتہائی عام لفظ کو مذکر سے مونث بنا دیا گیا ہے۔ سیاستدان اور بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان اکثر و بیشتر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’عوام بیچاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے‘ ۔۔۔ عوام تو بے اختیار ہوتی ہے وغیرہ۔ قواعد کے اعتبار سے یہ غلطیاں سنگین تصور کی جاتی ہیں! کچھ غیر معیاری الفاظ عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جیسے لفظ ’گڑبڑ‘ کی جگہ ’پنگے‘ کو استعمال کرنا۔ اسی طرح ’کہا‘ کے بجائے ’بولا‘ ۔۔۔ ’مجھے‘ کی جگہ ’ میرے کو‘ ۔۔۔ ’کیا‘کی جگہ ’کرا‘ وغیرہ۔ ان غیر معیاری الفاظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا پر صحافی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صحافیوں پر زیادہ تنقید کا سبب ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔ چاہے پرنٹ میڈیا (اخبارات و جرائد) ہوں یا الیکٹرانک صحافت الفاظ کو مستحسن انداز میں برتنے کا نام ہے۔ خبروں اور مباحثوں پر مبنی مختلف پروگراموں میں جلوہ افروز ہونے والے میزبانوں (جنہیں دورِ حاضر میں اینکرپرسن کہا جاتا ہے) کی گفتگو سنی جائے یا خبر پڑھنے والوں کو سنا جائے‘ تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ تر افراد اُردو زبان کے بنیادی اصولوں سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ذخیرۂ الفاظ کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب کا جوہر ہر صحافی میں ہونا چاہئے!
معروف شاعر اور ماہرِ اردو لسانیات ساحر لکھنوی کے بقول ’’بعض الفاظ اپنی اصل زبان سے دوسری زبانوں تک پہنچ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں‘ ہم اسے الفاظ کی ہجرت کہتے ہیں۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عمرانی عمل ہے جو ازخود وقوع پذیر ہوتا ہے مگر زبردستی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
اُردو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال اس وقت زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے جب انگریزی لفظ کا کوئی مناسب اور جامع مترادف موجود نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کے لئے اس معاشرے میں رائج زبان سیکھنے کے بہتر مواقع خاندان‘ سکول اور ان کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے حاصل ہوتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے خاندان اور تعلیمی ادارے کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ چینلوں نے تو نئی نسل کو اچھی اردو سننے کے مواقع دینے کے بجائے زبان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ قومی المیہ دانستہ عمل نہیں بلکہ علم و ادب سے دوری کا نتیجہ ہے!
خلدآشیاں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان (مرحوم) کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں جب وہ جامعہ پشاور کے شعبہ اُردو میں لیکچر دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے کہ ’’یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود ملک میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس زبانِ غیر ہونے کے باوجود انگریزی ملک میں راج کررہی ہے۔‘‘ چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بروز ترقی کرنے والا الیکٹرونک میڈیا (ذرائع ابلاغ) اُردو زبان کی مزید زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ کاش ڈاکٹر صاحب زندہ ہوتے اور زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کے غلط استعمال کی اصلاح کرتے جو الیکٹرونک میڈیا پر عام ہے جو یقیناًاہلِ زبان اور صاحبانِ علم کے لئے انتہائی تشویش (تکلیف) کا باعث ہے کیونکہ غلط یا غیر معیاری زبان کا فروغ پہلے ہی سے ملک میں عدم توجہ کا شکار اردو کی مزید بربادی کا باعث بن رہا ہے‘ حالانکہ یہی تفریحی اور خبروں کے چینل اردو زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں!
غلط اردو کا استعمال ٹی وی ڈراموں‘ اشتہارات‘ سیاسی و معاشرتی مباحثوں‘ خبروں اور صبح نشر ہونے والے مارننگ شو وغیرہ میں عام ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔ ٹی وی چینلوں پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات کی اردو سے شرمناک حد تک ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے، لیکن اس اعتبار سے سرکاری ٹی وی نے اپنے معیار کو تا حال بلند کر رکھا ہے۔ سرکاری ٹی وی (پاکستان ٹیلی ویژن) پر باقاعدہ اردو شناس افراد کو ملازم رکھنے کی روایت موجود ہے‘ تاکہ زبان کا صحیح استعمال ہوسکے۔ میزبانوں کے انتخاب میں سرکاری ٹی وی کا معیار بالخصوص ماضی میں اتنا بلند ہوا کرتا تھا کہ قریش پور‘ عبیداللہ بیگ‘ ضیاء محی الدین‘ طارق عزیز‘ مستنصر حسین تارڑ‘ انور مقصود‘ لئیق احمد‘ فراست رضوی‘ مختار علی نیئر جیسے شاعروں‘ ادیبوں‘ دانشوروں اور صاحبانِ مطالعہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں لیکن دورِ حاضر میں نجی چینلوں پر معاملہ یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں زبان انتہائی مظلوم نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔ تلفظ کے بارے میں تو صاحبانِ زبان و لسان ذرا رعایت سے کام لیتے ہیں کیونکہ بعض افراد جن کی مادری زبان اُردو کے علاؤہ کوئی اور ہو تو وہ تلفظ میں تھوڑی بہت غلطیاں کرتے ہیں جو کسی حد تک مخارج کی مجبوری ہوا کرتی ہیں۔ جیسے پنجابی حضرات ’ق‘ کو ’ک‘ اور فارسی بان ’ق‘ کو ’غ‘ پڑھتے ہیں۔ گجراتی بولنے والے ’س‘ کو ’ش‘ اور ’ش‘ کو ’س‘ تلفظ کرتے ہیں لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہے جو اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد یعنی گرامر ہی تبدیل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند جملے بطورِ مثال پیش خدمت ہیں، جیسے ’آپ کیا کرتے ہو‘ ۔۔۔ ’آپ جاؤ گے‘ ۔۔۔ ’آپ چائے پیو گے‘ یعنی ایک ہی جملے میں تعظیم بھی ہے اور تذلیل بھی۔ اسے اصطلاح میں شترگربہ کہتے ہیں۔ لڑکیوں کے لئے لفظ ’بیٹی‘ کی جگہ ’بیٹا‘ استعمال کرنا ’’غلط العام‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کے لئے ان جملوں کا استعمال کہ ’بیٹا آپ کہاں جارہے ہو‘ یا ’آپ کیسے ہو‘ وغیرہ نہ صرف قواعد کی رو سے غلط ہیں بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہیں!
اردو قواعد کی غلطیاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ لفظ ’عوام‘ کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہے یعنی اس انتہائی عام لفظ کو مذکر سے مونث بنا دیا گیا ہے۔ سیاستدان اور بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان اکثر و بیشتر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’عوام بیچاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے‘ ۔۔۔ عوام تو بے اختیار ہوتی ہے وغیرہ۔ قواعد کے اعتبار سے یہ غلطیاں سنگین تصور کی جاتی ہیں! کچھ غیر معیاری الفاظ عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جیسے لفظ ’گڑبڑ‘ کی جگہ ’پنگے‘ کو استعمال کرنا۔ اسی طرح ’کہا‘ کے بجائے ’بولا‘ ۔۔۔ ’مجھے‘ کی جگہ ’ میرے کو‘ ۔۔۔ ’کیا‘کی جگہ ’کرا‘ وغیرہ۔ ان غیر معیاری الفاظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا پر صحافی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صحافیوں پر زیادہ تنقید کا سبب ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔ چاہے پرنٹ میڈیا (اخبارات و جرائد) ہوں یا الیکٹرانک صحافت الفاظ کو مستحسن انداز میں برتنے کا نام ہے۔ خبروں اور مباحثوں پر مبنی مختلف پروگراموں میں جلوہ افروز ہونے والے میزبانوں (جنہیں دورِ حاضر میں اینکرپرسن کہا جاتا ہے) کی گفتگو سنی جائے یا خبر پڑھنے والوں کو سنا جائے‘ تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ تر افراد اُردو زبان کے بنیادی اصولوں سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ذخیرۂ الفاظ کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب کا جوہر ہر صحافی میں ہونا چاہئے!
معروف شاعر اور ماہرِ اردو لسانیات ساحر لکھنوی کے بقول ’’بعض الفاظ اپنی اصل زبان سے دوسری زبانوں تک پہنچ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں‘ ہم اسے الفاظ کی ہجرت کہتے ہیں۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عمرانی عمل ہے جو ازخود وقوع پذیر ہوتا ہے مگر زبردستی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
اُردو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال اس وقت زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے جب انگریزی لفظ کا کوئی مناسب اور جامع مترادف موجود نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کے لئے اس معاشرے میں رائج زبان سیکھنے کے بہتر مواقع خاندان‘ سکول اور ان کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے حاصل ہوتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے خاندان اور تعلیمی ادارے کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ چینلوں نے تو نئی نسل کو اچھی اردو سننے کے مواقع دینے کے بجائے زبان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ قومی المیہ دانستہ عمل نہیں بلکہ علم و ادب سے دوری کا نتیجہ ہے!
![]() |
Mind your language |
No comments:
Post a Comment