Saturday, May 23, 2015

TRANSLATION: Weddings & our society!

Social Issues & weddings
شادی بیاہ رسومات اور خرابیاں
’’سارہ! بیٹا تیار ہو جاؤ‘ تمہاری خالہ لڑکے والوں کو لے کر آتی ہی ہوں گی۔ دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے‘ اوپر سے کھانے پینے کے انتظامات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔‘‘ گذشتہ نا خوشگوار تجربوں سے اکتائی ہوئی سارہ کہتی ہے: ’’جی امی! ہوجاتی ہوں تیار۔ ان لوگوں نے کون سا مجھے دیکھتے ہی پسند کرلینا ہے‘ ہر بار کی طرح آئیں گے‘ اپنی تواضع کروائیں گے‘ اور پھر کوئی نہ کوئی خامی نکال کر چلے جائیں گے۔‘‘ ایک سارہ ہی نہیں جو آئے روز اس قسم کے حالات کا مقابلہ کرتی ہے اور رشتے کے لئے آنے والوں کے چبھتے سوالات کے نشتر سہتی ہے۔

پاکستان کا متوسط طبقہ (مڈل کلاس) گھرانوں میں یہ رجحان تعلیم اور ترقی کے باوجود ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لڑکیوں کے ان حالات سے گزرنے کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں‘ جن میں سے ایک اہم وجہ پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا بھی ہے۔ اسی لئے یہاں لڑکیوں کی شادیاں مناسب وقت پر ہونا اور ان کے لئے مناسب رشتے کی تلاش کرنا لڑکی کے ماں باپ کے لئے کٹھن ترین مرحلہ ہوتا ہے اور کم و بیش ہر گھر میں ہی لڑکیوں کو ان دشوار اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لئے شدید کوفت کا باعث بنتے ہیں۔

لڑکی دیکھنے کے لئے آنے والوں کے سوالات بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں: ’’کتنی عمر ہے‘ قد کتنا ہے‘ تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے۔‘‘ اس موقع پر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے بیٹے کے لئے لڑکی دیکھنے آئے ہیں‘ کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا طے کرنے نہیں! ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لڑکیوں کی مائیں اس موقع پر اپنی بیٹی کی خوبیاں گنوانے میں پیش پیش ہوتی ہیں‘ جبکہ دوسری جانب لڑکوں کی مائیں بھی اپنے فرزند کو کسی شہزادے سے کم نہیں سمجھتیں۔ شہزادے کے لئے شہزادی کی تلاش میں وہ لڑکیوں کا ہر زاویے سے جائزہ لیتی ہیں اور اس جانچ پڑتال میں وہ ذرا بھی شرم یا عار محسوس نہیں کرتیں۔ لڑکی پر ایسے ایسے سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے جو بعض اوقات اسے شرم سے پانی پانی کردیتے ہیں۔ لڑکی پسند کرنے کے دوران نہ صرف لڑکے کے اہل خانہ‘ بلکہ خود لڑکے کا بھی دماغ بھی آسمان پر ہوتا ہے۔ اس سوچ کو دوہرا معیار کہیں یا خودپسندی کہ لڑکا کتنا ہی نکما‘ بدشکل‘ یا ان پڑھ ہو‘ اسے ہونے والی دلہن خوب صورت اور تعلیم یافتہ چاہئے ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں نے اپنی سوچ کو بھی ڈھال لیا ہے‘ مگر لڑکی پسند کرنے کے پیمانے پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے ہم آج بھی اسی پرانی روایتی سوچ پر قائم ہیں۔

ہمارے اس قدامت پسند معاشرے میں لڑکے کی ماں ہونا اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے اور وہ عورت لڑکے کی ماں ہونے کے زعم میں یہ تک بھول جاتی ہے کہ جو امتحان وہ دوسروں کی بیٹیوں کے لے رہی ہے‘ ان کا سامنا ماضی میں وہ خود بھی کرچکی ہے‘ جنہیں نہ بھولتے ہوئے دوسروں کی بیٹیوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے مگر یہاں لڑکے کی ماں کا اپنے ماضی کے تجربوں کو دہراتے ہوئے مطالبہ ہوتا ہے: ’’میری ہونے والی بہو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر طرح کے گھریلو امور میں طاق ہونی چاہئے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر شوہر کے ساتھ معاشی معاملات میں بھی ہاتھ بٹا سکے‘ مگر عمر کی زائد نہ ہو۔‘‘ ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کم عمر بھی ہو؟ یہ تضاد نجانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں سیاہی سے سفیدی لے آتا ہے اور وہ والدین کے گھر میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لڑکے والوں کا یہ حوصلہ شکن رویہ بے بس والدین کی اپنی بیٹی بیاہنے کی خواہش کو ماند کرتا چلا جاتا ہے! بعض دفعہ لڑکے کے والدین بے رحم خریدار کی شکل میں لڑکی کا وزن‘ قد‘ اور چہرے کے خدوخال کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں‘ یہ بھولتے ہوئے کہ ان کا بیٹا کوہ قاف سے آیا شہزادہ نہیں‘ یا اس لڑکی نے اپنے خدوخال خود تخلیق نہیں کیے ہیں جو اس کا اتنا کڑا امتحان لیا جارہا ہے۔اگر لڑکے والے اپنی کڑی شرائط پر پورا اترنے والی لڑکی پسند کر بھی لیتے ہیں‘ تو اس کے بعد اگلا مرحلہ لڑکی کے والدین کے لئے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

 شادی کے انتظامات کی طویل فہرست ان کے سپرد کر دی جاتی ہے‘ جسے ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لہٰذا بیٹی کو رخصت کرنے کے لئے والدین قرض لیتے ہیں‘ یا اپنی عمر بھر کی جمع پونجی بیچ دیتے ہیں‘ اس بات کا ڈر دل میں بٹھائے کہ کہیں ان کی بیٹی گھر نہ بیٹھی رہ جائے‘ زمانہ کیا کہے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر مجبور والدین کا مقصد ہر مشرقی سوچ رکھنے والے ماں باپ کی طرح جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونا اور اسے اپنے گھر آباد دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے معاشرے سے اس فرسودہ طریقے سے لڑکی پسند کرنے کی سوچ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں خود سے شروعات کرنی ہوگی‘ کیونکہ یہ فرسودہ سوچ ہمارے معاشرے کو صحت مند معاشرہ بنانے کے بجائے مزید تنزلی کی جانب لے جارہی ہے۔

لڑکے والوں کے ان اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لئے پہلا قدم لڑکی کے والدین کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی بیٹی کو شو پیس (نمائشی چیز) کی طرح سجا کر لڑکے والوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ لڑکے والوں کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوتا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں کے ماں باپ کسی بھی صورت میں جلد سے جلد لڑکی کی شادی چاہتے ہیں‘ لہٰذا وہ بھی ہر طرح کا جائز و ناجائز مطالبہ منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس لئے بیٹی کو بوجھ کے بجائے رحمت سمجھیں‘ جب اس کی شادی کا درست وقت آئے گا‘ تو خدا کی مدد سے یہ مرحلہ بخوبی سر ہوجائے گا۔دوسری جانب لڑکے والوں کو بھی اپنا لڑکی پسند کرنے کا پیمانہ تبدیل کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے گھر کی بہو اور بیٹے کی بیوی تلاش کرتے یہ پہلو مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘ لہٰذا لڑکی کے منفی پہلوؤں کے بجائے مثبت پر زیادہ غور کریں‘ اسی سوچ پر چل کر ان کا گھرانہ ایک خوشگوار زندگی بسر کر سکے گا اور ان کی آنے والی نسلیں بلند اخلاق اور اعلیٰ روایات کی حامل ہوں گی۔
 
(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: مدیحہ خالد۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment