Saturday, May 23, 2015

May2015: Galiyat Ayubia Chairlift

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گلیات: سیاحت و ترقی کے امکانات
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں پر مشتمل ’ہزارہ ڈویژن‘ میں گلیات کو خاص مقام حاصل ہے جہاں کے قابل دید مقامات میں ’ایوبیہ چیئرلفٹ‘ بھی شامل ہے جو 22 مئی سے غیراعلانیہ طور پر بند کر دی گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عرصہ دو برس کے لئے 6 کروڑ روپے کے عوض جو ٹھیکہ دیا گیا تھا وہ 19اپریل کو ختم ہوا‘ جس کے بعد معاہدے میں ایک ماہ کی توسیع کی گئی لیکن 30 دن گزرنے کے باوجود کسی نئی کمپنی کو ٹھیکہ نہیں جا سکا اور نتیجہ یہ نکلا کہ 22 مئی سے چیئرلفٹ بند کر دی گئی۔ اِس سلسلے میں داخلی حالات سے واقف کار کا کہنا ہے کہ ’’جب حکومتی ادارے آکشن (نیلامی) ہی نہیں کریں تو کوئی بھی ازخود ٹھیکے دار کیسے بولی میں حصہ لے سکتا ہے!‘‘ متعلقہ حکومتی اِداروں (گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ) کی جانب سے اِس بات کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی گئی کہ وہ ’چیئرلفٹ‘ کے لئے گھنٹوں کی مسافت طے کر کے آنے والے سیاحوں کو آگاہ کرتی کہ اگر وہ وادیوں کی سیر کے لئے ’عازم ایویبہ‘ ہیں تو زحمت نہ کریں۔

ایوبیہ کی سیر کے لئے آنے والوں نے گھر سے چلتے ہوئے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ ایک ایسے پہاڑی مقام پر جا رہے ہیں جہاں اُنہیں ’’کھولی جائے کھولی جائے۔۔۔چیئرلفٹ کھولی جائے‘‘ کے نعرے لگانے پڑیں گے۔ تیئس مئی کے روز احتجاج کرنے والوں میں شامل نوجوانوں کی بڑی تعداد صوبائی محکمے ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)‘ کی سردمہری سے گلہ مند دکھائی دیئے جنہوں نے ’چیئرلفٹ‘ بند کرنے کی اطلاع نہ تو ذرائع ابلاغ میں شائع کی اور نہ ہی لفٹ کے مقام پر کسی قسم کا کوئی اطلاعیہ بورڈ آویزاں کیا گیا کہ ’’چیئرلفٹ کب تک کے لئے بند ہے؟ کب کھولی جائے گی اور لفٹ بند کرنے کی وجوہات کیا ہیں۔‘‘ ایوبیہ کی چیئرلفٹ کے مقام پر تیس سے چالیس کیبن (عارضی دکانیں) ہیں جن سے وابستہ مقامی تاجر اور مزدور سارا سال موسم گرما کے سیزن (مئی سے اگست تک) کا انتظار کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ایوبیہ میں سیزن کے دوران لاکھوں کی تعداد میں خاندان آتے ہیں لیکن صوبہ پنجاب کے بالائی سیاحتی مقامات کی نسبت خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ایبٹ آباد سے ایوبیہ تک گلیات کی سیرگاہیں چالیس کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہیں‘ جہاں سیزن کے آغاز سے قبل تجاوزات کے خلاف کاروائی ختم نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے نتھیاگلی بازار کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے جبکہ نتھیاگلی سے ایوبیہ تک سڑک کی توسیع کے کام کی وجہ سے ٹریفک کے بہاؤ بھی معطل رہتا ہے۔ ایوبیہ کے مقام پر 1964ء سے جاسمین ہوٹل کے مالک پچاس سالہ نیاز محمد کا کہنا ہے کہ ’’چیئرلفٹ 1965ء میں قائم ہوئی لیکن اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ محض ٹھیکہ ختم ہونے کی وجہ سے چیئرلفٹ یوں بند کردیگئی ہو۔ نئے ٹھیکے کے لئے ’جی ڈی اے‘ نے 8 جون کا دن مقرر کیا ہے جس کے بعد کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے مزید چند دن درکار ہوں گے یوں پورا ایک مہینہ چیئرلفٹ بند رہے گی۔ پہلے ٹھیکیدار نے کم وبیش 6 کروڑ 1 لاکھ روپے کے عوض ٹھیکہ لیا تھا لیکن چیئرلفٹ کی تعمیرو مرمت اور ترقی پر ایک روپے بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ صرف چیئرلفٹ ہی کی حالت اچھی نہیں بلکہ راہداریاں اور سیڑھیاں تک ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ایویبہ کے چیئرلفٹ کی جگہ پر سات سے آٹھ ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہاں آٹھ سے دس فٹ برف کی وجہ سے تین ماہ تک زندگی مفلوج رہتی ہے اور مقامی افراد کے لئے موسم گرما کے یہی دن کمائی کے ہوتے ہیں جن پر انہیں پورا سال گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت کو دردمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ایک تو چیئرلفٹ کو کمائی کا ذریعہ نہ سمجھا جائے کہ اس سے کروڑوں روپے کمائے جائیں اور نہ تو ایوبیہ کی تعمیر و ترقی ہو اُور نہ ہی سیاحوں کے لئے سہولیات کا خاطرخواہ بندوبست کیا جاتا ہے۔‘‘ گلیات کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کا موسم قابل بھروسہ نہیں ہوتا۔ موسم کی پیشنگوئیاں اگر کسی نے غلط ثابت ہوتے دیکھنی ہیں تو وہ یہی مقام ہے۔ پل میں بارش اور پل میں دھوپ رہتی ہے۔ یکایک سردی ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے لئے نہ تو خاطرخواہ رہائش و طعام کی سہولیات ہیں اور نہ ہی اُن کی رہنمائی یا مدد کے لئے حکومت کی جانب سے بندوبست کیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت جنت نظیر وادیوں میں سیاحت کے امکانات سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ ایوبیہ سمیت گلیات کی حسین وادیاں سرمایہ داروں کی پرتعیش رہائشگاہوں کے لئے مخصوص کردینا انصاف نہیں۔

 متوسط اور کم آمدنی والے طبقات اگر بال بچوں کے ساتھ چند گھڑیاں ایوبیہ چیئرلفٹ کے ذریعے کل تین کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد جس پہاڑی پر پہنچا جاتا ہے اُسے ’ٹاپ اسٹیشن‘ کہا جاتا ہے جہاں تین پارک (سبزہ زار) ہیں۔ جہاں 10 کیبن اور ’جی ڈی اے‘ کا ایک ہوٹل ہے جہاں قیام کی سہولت تو نہیں لیکن وہاں اشیائے خوردونوش باآسانی مل جاتی ہیں۔ چیئرلفٹ صبح دس سے شام چھ بجے تک چلتی ہے جس سے استفادہ کرنے کی فیس 160 روپے مقرر ہے۔ دو افراد کو 320 روپے فی ٹرپ (ایک چکر) دینا پڑتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مری کے مقابلے ایوبیہ چیئرلفٹ کے مقابلے نسبتاً سستی ہے۔ مری کی چیئرلفٹ میں دو افراد کا کرایہ 460روپے مقرر ہے لیکن کم کرایہ ہونے کے باوجود چونکہ چیئرلفٹ فعال ہی نہیں‘ اِس لئے سیاح اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھا پا رہے۔نجی شعبے کے تعاون سے ایبٹ آباد (ٹاؤن شپ) سے ٹھنڈیانی کے لئے چیئرلفٹ کا منصوبہ بھی ایک عرصے سے التوأ کا شکار ہے اور اگر ہزارہ ڈویژن میں سیاحتی امکانات کو ترقی دی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف روزگار کا پائیدار حصول ممکن ہوگا بلکہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی آمدورفت سے خیبرپختونخوا کے بارے میں یہ منفی تاثر بھی زائل ہو جائے گا کہ اِس صوبے میں سوائے انتہاء پسندی و عسکریت پسندی کچھ نہیں پایا جاتا۔ مہمان نوازی کی طرح خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات بھی ایک مستند حوالہ ہے جنہیں ترقی دے کر نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر نیک نامی اُور زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
Ayubia Chairlift closed down because of the lease expired

No comments:

Post a Comment