Friday, May 22, 2015

May2015: LG Polls Training by PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
مقامی حکومتیں‘ تربیتی مواقع
ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام حکومت) کے قیام کو زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے اور اس بات کا ثبوت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جاری وہ تربیتی عمل ہے جس میں بالخصوص خواتین کی شرکت ترجیح رکھی گئی ہے۔ پہلی تربیتی نشست اٹھارہ اپریل کے دن صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہوئی‘ جس سے 32خواتین مستفید ہوئیں۔ جس کے بعد بائیس مئی کو ہزارہ ڈویژن کی سطح پر تربیت کا انتظام پرفضا ’ایبٹ آباد‘ کے خیبرپختونخوا ہاؤس میں کیا گیا جس میں مجموعی طور پر 47 ایسی خواتین نے حصہ لیا جو یا تو بذات خود ’مقامی حکومتوں‘ کے انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے رہی ہیں یا پھر وہ دیگر اُمیدواروں کے لئے پولنگ کی نگرانی کا عمل سرانجام دیں گی۔ تاکہ ’ووٹ ڈالنے والے دن (پولنگ) کے مراحل‘ طے کرنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ اصولی طور پر اِس قسم کی نشست کا انتظام ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کو کرنا چاہئے تھا لیکن یہ ذمہ داری کئی ایک غیرسرکاری تنظیموں بشمول ’سکائینز‘ کو دی گئی ہے‘ جو ’کم وقت اُور مقابلہ سخت کی ماحول‘ میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے پولنگ سے متعلق تربیت کی سہولت کار ’ٹریننگ ونگ کی نگران‘ معروف سماجی کارکن ڈاکٹر رخشندہ پروین نے کی‘ جو ذرائع ابلاغ کی بھی ماہر ہیں اور اُنہوں نے اپنی اِس مہارت کا فراخدلی سے استعمال کیا۔ اِس موقع پر تحریک انصاف کی نائب صدر برائے شعبہ خواتین نورین ابراہیم نے خواتین پر زور دیا کہ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابی مراحل میں خاطرخواہ دلچسپی اور دانستہ طور پر عملی حصہ لیں۔ ضلعی سیکرٹری برائے خواتین طلعت یاسمین‘ ایبٹ آباد تحصیل کی نائب صدر عظمیٰ ریاض جدون بھی بطور میزبان بھاگ دوڑ میں مصروف دکھائی دیں۔ یاد رہے کہ پشاور میں ہوئی تربیت میں سینیٹر ثمینہ عابد جبکہ ایبٹ آباد میں رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا اُور اِن دونوں قانون ساز اسمبلیوں کی اراکین نے کارکن خواتین سے ملاقات اور براہ راست بات چیت میں بہت سے پارٹی کے داخلی و انتظامی اُور متعلقہ سیاسی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا‘ جو عرصہ دراز سے وضاحت طلب تھے۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین نے خواتین پر زور دیا کہ وہ ’’سست روی کی بجائے مستعدی کا مظاہرہ کریں۔ مشاہدے کی تقویت کے لئے گردوپیش پر نگاہ رکھتے ہوئے خواتین اظہار رائے سے زیادہ سننے کی صلاحیت کا استعمال کریں۔ ’باڈی لینگویج (طرز عمل)‘ کو حسب حال رکھیں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ حاضر دماغی اور حاضر جوابی کا مظاہرہ کریں۔ تاثرات کا برملا اظہار کرنے میں مصلحت یا خاموشی سے کام نہ لیں بلکہ ضرورت کے مطابق بولیں اور دوسروں پر اپنا مؤقف مسلط کرنے سے گریز کریں۔ بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے سختی سے نہیں لیکن مضبوطی سے اپنی بات کہنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر حزب مخالف کو مجبور نہیں بلکہ قائل کرنے کے لئے دلیل اور منطق کی آمیزش سے کام لینا ضروری بلکہ کامیابی کی کنجی ہوتا ہے۔ خواتین خود کو زیادہ باخبر رکھیں۔ انتخابات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔ مثال کے طور پر انتخابات کب ہو رہے ہیں۔ پولنگ کے اوقات کیا ہوں گے۔ پولنگ کے مراکز کہاں کہاں ہوں گے۔ ایک ووٹر کو کتنے ووٹ ڈالنا ہوں گے۔ خواتین کو متعلقہ پولنگ مراکز کے بارے میں آگاہ کرنے سے قبل تربیت کاروں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ اخبارات کا مطالعہ اور بالخصوص مقامی سطح پر شائع ہونے والے روزناموں اور اُن خبروں‘ تجزئیوں پر نظر رکھیں جو انتخابی عمل سے متعلق ہوں۔‘‘ ڈاکٹر رخشندہ نے پولنگ کے مراحل‘ تقاضوں اُور اُن ضروریات کی وضاحت کرتے ہوئے پولنگ کے دن دھاندلی روکنے کے لئے ’بیدار طرز عمل‘ اختیار کرنے کو سب سے اہم قرار دیا۔

کون نہیں جانتا کہ ہمارا سیاسی نظام جمہوریت ہے لیکن قیام پاکستان سے آج تک کے سفر میں زیادہ عرصہ آمریت رہی۔ بعدازاں قومی سطح پر دو جماعتوں کے درمیان ’میوزک چیئر‘ کی طرح اقتدار ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہا‘ جس کی وجہ سے ایک خلأ پیدا ہوا اور ’تحریک انصاف‘ ملک گیر سطح بن کر اُبھری اور ایک متبادل سیاسی جماعت (قوت) کے طور پر بھرپور کردار اَدا کر رہی ہے۔ پاکستان میں بلدیاتی نظام حکومت بھی تعطل کا شکار رہا‘ جس کی وجہ سے اقتدار ایک خاص طبقے اور چند حکمراں خاندانوں (جاگیرداروں) تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ خواتین کا طبقہ متاثر ہوا جن کے کردار کو کہیں رسم و رواج اور کہیں سماجی اقدار کے نام پر محدود کر دیا گیا۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ ترقی مقامی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے۔ ترقیاتی حکمت عملیوں کا تعین کرنے میں خواتین بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں اور اگر اِس نظام کا تسلسل باقی رہتا ہے تو مقامی حکومتیں ہی بنیادی طرز حکومت کے طور پر جملہ مسائل کا حل ثابت ہوں گی۔ طرز حکمرانی کی اصلاح سے قبل یہ باریک نکتہ سمجھنا ہے کہ وفاق یا صوبوں سے اختیارات ضلع کو منتقل ہوتے ہیں‘ جس کے بعد تحصیل اور پھر دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کو فیصلہ سازی کا اختیار مل جاتا ہے لیکن یہ عمل اتنا سادہ و آسان ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اُن کی گنتی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ ’مقررہ فارم (طریقۂ کار)‘ کو منظم انداز میں مکمل کیا جائے۔

تحریک انصاف کی جانب سے جو ’متبادل سیاسی نظام‘ متعارف کرایا گیا‘ اُس سے قبل ’سیاست‘ میں آنے والے چند ایک خاندانوں اور تجربہ کاروں کے علاؤہ کوئی نہیں آتا تھا بلکہ سیاست کا حوالہ اچھے معنوں میں نہیں دیا جاتا تھا۔ جیسے اگر کوئی شخص عملی زندگی میں دوہرے معیار کا مظاہرہ کرے تو سب کہتے ہیں کہ ’’بڑا سیاسی ہو گیا ہے یا بڑا سیاسی بیان دیا ہے۔‘‘ پاکستان میں سیاست کو بامقصد اور اصلاح کا ذریعہ بنانے کے لئے ’تحریک انصاف‘ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی بالخصوص جس انداز میں خواتین کو سیاسی عمل میں شریک کیا گیا ہے اور جس انداز میں اُن کی تربیت کا اہتمام و انتظام کیا جا رہا ہے وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے قابل تقلید (فقیدالمثال) عمل ہے کیونکہ خواتین کی ’بھرپور شمولیت‘ کے بغیر مقامی حکومتوں کے قیام کا (انتخابی) عمل تو ’مکمل‘ ہو جائے گا لیکن وہ ضرورت اور اُس کے تقاضے کماحقہ پورے نہیں ہوں گے‘ جن کی غربت کے خاتمے‘ ترقی کے عمل کو پائیدار بنانے اور خواتین کے کردار کو محدود رکھنے کی سوچ‘ عمل اور روایت پرستی سے نجات کے لئے اشد ضروری ہیں۔

No comments:

Post a Comment