Sunday, June 21, 2015

Jun2015: Agriculture is everything but not a priority

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خیبرپختونخوا: زرعی ترجیحات
اس سے زیادہ خسارہ اُور کیا ہوگا کہ ہم اپنی ہی تباہی و بربادی پر تلے ہوئے ہیں لیکن اِس کا احساس تک نہیں رکھتے! خیبرپختونخوا کے کاشتکاروں کی نمائندوں تنظیم ’ایوان زراعت‘ کی جانب سے دردمندی اور التجائیہ انداز میں مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ’’صوبائی حکومت آئندہ 20برس کے لئے ’زیرکاشت زمین‘ کا غیرزرعی (کسی دوسرے) مقصد کے لئے استعمال پر پابندی عائد کرے۔‘‘ کون نہیں جانتا کہ ’لینڈ مافیا‘ کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں اُور وہ محض اپنے مفاد کے لئے غذائی تحفظ جیسی اہم ضرورت کو کس قدر خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ زرخیز زرعی زمین کی فروخت پر کسان کا اختیار (حق شفہ) نہیں رہا جبکہ سرمایہ دار کو یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ جہاں اور جب چاہے رہائشی کالونیاں یا دیگر منصوبے تعمیر کرنے کے لئے جتنی چاہے زمین حاصل کرلے۔ ایوان زراعت سمیت ماہرین خیبرپختونخوا میں ’حق شفہ‘ کی فوری بحالی اُور آئندہ بیس برس تک قابل زراعت اراضی کے کسی بھی غیرزرعی مقصد سے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ایسے ’منطقی دلائل‘ دیتے ہیں جن کی حقیقت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

صوبائی (خیبرپختونخوا) محکمۂ زراعت کا قیام ’14 اگست 1973ء‘ کو عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی کام زراعت کی ترقی‘ پائیدار ترقی کی حوصلہ افزائی‘ زراعت سے وابستہ افراد کی مشکلات کا حل‘ اُن کی وقتاً فوقتا رہنمائی‘ فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے تحقیق‘ موسمی اُتارچڑھاؤ پر نظر اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ زرعی شعبے سے وابستہ افراد کا مستقبل محفوظ بنانا بھی رکھا گیا تاکہ اُس طبقے کے مفادات کا تحفظ عملی وآئینی طور پر یقینی بنایا جاسکے جو اپنے خون پسینے اور محنت سے اَناج اُگاتے ہیں۔ کم و بیش اکتالیس برس گزر گئے اور ہمیں محکمۂ زراعت کا حاصل یہ ملا کہ فی ایکڑ پیداوار بڑھی لیکن وہ زرعی اراضی ہر سال سکڑتی ہی چلی گئی‘ جہاں وافر مقدار میں نہری پانی دستیاب تھا اُور ہم سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ زراعت کے نام پر تنخواہیں‘ مراعات اُور مراتب پانے والے اپنی اپنی ضمیر کی عدالت میں شرمسار بھی نہیں کہ اُنہوں نے کس قدر اور کتنا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ شعبہ جو ستر فیصد سے زائد روزگار فراہم کرتا ہے اُس محروم توجہ کی حالت اِس حد تک خراب ہو چکی ہے‘ کہ زراعت کی بجائے زمین کو رہائشی کالونیوں کے فروخت کرنا زیادہ منافع بخش سمجھا جانے لگا ہے!

جنوبی اضلاع میں میلوں پر پھیلی اراضی قیام پاکستان کے وقت بنجر تھی تو آج بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کاشتکاری ممکن نہیں۔ ایک اُمید تھی کہ اِن علاقوں میں زیتون کی کاشت کو ترقی دی جائے گی لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم نے ’آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ‘ کو تحلیل کرکے ایک ایسا ستم کیا‘ جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہوگا۔ پھلوں سے لدے باغات والوں کی قسمت آج بھی وہی کی وہی غربت شناس ہے۔ زرعی پیداواری ضروریات کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ کر دیا گیا کہ کسی فصل پر اُٹھنے والے اخراجات اُس کی مارکیٹ قیمت سے زیادہ ہوچکی ہے۔ جب زرعی اراضی سکڑ رہی ہو تو اس کا ایک منفی اثر دودھ دینے والے جانوروں (اُس ضمنی شعبے) پر بھی ہوتا ہے جن کے لئے چارہ گاہیں نہیں رہیں۔ ہم سنتے رہے کہ ایک ایسی بکری ہوگی جو گائے کے برابر دودھ دے گی اور اس مقصد کے لئے بکریاں درآمد کرکے تحقیق بھی ہوئی لیکن شاید یہ بکریاں ’ہضم‘ ہو چکی ہیں! ایک نمائشی ’زرعی پالیسی (لائحہ عمل)‘ تو موجود ہے جس میں ٹیکنالوجی پر انحصار ایک درجہ اہمیت بھی رکھتا ہے لیکن اگر بنیادی ضرورت یعنی ’زرخیز زرعی زمین‘ ہی نہ رہی تو ایسے اقدامات‘ سوچ اور سائنسی ترقی سے صرف فائلوں کا پیٹ بھرا جا سکے گا اُور بس!

خیبرپختونخوا کی زرعی حقائق (پروفائل) سمجھنے سے قبل 408میل (656.612 کلومیٹر) لمبائی اور 279 میل (449.007کلومیٹر) چوڑائی والے احاطے میں موجود وسائل پر نظرکرنا ہوگی جو تین پہاڑی سلسلوں (ہمالیہ‘ قراقرم اور ہندوکش) کے ساتھ ہیں۔ یہاں زمین اپنی ساخت اُور جغرافیائی لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ہزارہ ڈویژن کا ہے۔ دوسرا پشاور‘ مردان‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان اُورتیسرا سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے جو پاکستان اُور اَفغانستان کے درمیان سرحد (ڈیورنڈ لائن) سے متصل ہے۔ خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع سات قبائلی علاقوں اور پانچ فرنیٹئر ریجنز سے جڑے ہیں اُور چونکہ قبائلی علاقوں میں امن بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو جب تک وہاں مکمل امن بحال نہیں ہو جاتا اور نقل مکانی کرنے والے اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ نہیں جاتے زراعت کا پہیہ پھر سے نہیں چل پائے گا۔ اِس سلسلے میں تجویز ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی بحالی و آبادکاری میں زراعت کو سرفہرست و ترجیح رکھا جائے‘ جس سے پائیدار نتائج حاصل ہوں گے چونکہ خیبرپختونخوا کا زیادہ تر حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور ہموار میدانی علاقے کم ہیں اِس لئے زرخیز قطعات اراضی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا میں سالانہ بارشوں کا تناسب 25سے 58 انچ ہے‘ جس میں تبدیلی تشویشناک ہے اور اگرچہ بارشیں اب بھی اِسی سالانہ اوسط سے ہو رہی ہیں لیکن اس کے تبدیل اوقات زراعت کے حق میں موافق نہیں رہے۔ بالائی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی سے موسمی تغیرات اور بارشوں کے ساتھ زمین کے کٹاؤ کا اثر دریاؤں کی تہہ میں بیٹھنے والی مٹی اور زرخیزی کے متاثر ہونے کی صورت ظاہر ہو رہا ہے‘ جس کے بارے میں بہت کم تشویش اور تحقیق پائی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا اور متصل قبائلی علاقوں میں پاکستان کی کل آبادی کا 16فیصد حصہ رہتا ہے۔ جاپان حکومت کے امدادی ادارے ’جائیکا‘ کی ایک مفصل جائزے رپورٹ کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں کل زیرکاشت اراضی 13.89 ملین (ایک کروڑ تیس لاکھ 89ہزار) ایکڑز ہے جس میں سے 22.23فیصد حصے پر جنگلات اور صرف 23.90 فیصد حصے پر زراعت ہوتی ہے جبکہ 22.49فیصد رقبہ ایسا ہے جہاں اگر پانی فراہم کردیا جائے تو اُسے زیرکاشت لایا جاسکتا ہے۔‘‘

 پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کی زرعی اراضی منفرد خصوصیات کی حامل ہے اور موسمی تغیرات کے لحاظ سے مرتب کی جانے والی کسوٹی (اکائی) پر 10میں سے یہاں 6 مختلف قسم کی آب و ہوا پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سبزی‘ پھل‘ اجناس کی فصلیں‘ پھول‘ ادویاتی جڑی بوٹیاں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں اور یہ تنوع ملک کے دیگر حصوں میں نہیں۔‘‘ تو کیا خیبرپختونخوا کا محکمۂ زراعت قدرت کی اِن عنایات کے تحفظ و بقاء کے لئے خاطرخواہ اقدامات کر رہا ہے؟ سال 1991ء میں طے پانے والے پانی کے قومی تقسیمی معاہدے (نیشنل واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ) کے تحت خیبرپختونخوا کو سالانہ 8.78ملین ایکڑ فٹ پانی ملاتا ہے لیکن اس میں سے صرف 5.5ملین ایکڑ فٹ پانی ہی زیراستعمال ہے! چونکہ خیبرپختونخوا میں نہری نظام توسیع و ترقی چاہتا ہے جس کی عدم موجودگی کے باعث خیبرپختونخوا کے حصے کا 3.2 ملین ایکڑ پانی سے صوبہ پنجاب استفادہ کر رہا ہے! اِن اعدادوشمار کی روشنی میں ’خیبرپختونخوا کی زرعی ترجیحات‘ مرتب کرنا کوئی مشکل کام (راکٹ سائنس) نہیں لیکن اَلمیہ ہے کہ ایک تو زراعت کی توسیع اور تغیر پذیر موسموں و بیماریوں کا مقابلہ کرنے والے بیج کی تیاری‘ بیج بینک کے ذریعے زراعت کے روائتی تجربے سے استفادہ‘ کسانوں کی مالی معاونت اور زمین کی زرخیزی کو متاثر کرنے والے عوامل کو خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں تو دوسری طرف زیرکاشت زرعی اراضی کا رقبہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔

 زراعت کے بارے میں سوچنے سے عار کیوں؟ زرعی گریجویٹس کی صلاحیتوں پر اعتماد کیوں نہیں؟ زرعی تعلیم کے اداروں کی تحقیق لائق توجہ و غورطلب کیوں نہیں؟ زرعی سائنسدانوں کی سرپرستی اور زرعی علوم کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی قبلہ نما کیوں نہیں؟ ہمارے رویئے‘ بول چال‘ سوچ‘ غوروفکر‘ عمل اور زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے خیبرپختونخوا میں ذرائع ابلاغ کی توجہ زراعت گریز کیوں؟

No comments:

Post a Comment