ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قبضہ مافیا: حقائق کی حقیقت !
قبضہ مافیا: حقائق کی حقیقت !
خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری کی وجہ سے
محکمۂ پولیس کو وقت ملا ہے کہ وہ دیگر ایسے سماج دشمن منظم گروہوں کے خلاف
کاروائی کا آغاز کرے جنہوں نے پولیس کی مصروفیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے
پرامن اور معاشرے کے کمزور طبقات کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ حکام کے مطابق
اِس سلسلے میں کاروائی کا آغاز ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف مہم سے کیا جا رہا ہے
جس کا آغاز ماہ رمضان کے دوران ہی کسی وقت ہو گا۔ ابتدا ایسے 129 مشتبہ
افراد کو پوچھ گچھ کے لئے تفتیشی مقصد کے لئے حراست میں لیا جائے گا‘ جنہوں
نے گھریلو تنازعات یا وراثت کے مسائل میں الجھی ہوئی اراضی قبضہ کر رکھی
ہیں‘ یا اُنہیں جعل سازی سے اپنے نام منتقل کرالیا ہے۔ محکمۂ پولیس میں
خفیہ اطلاعات جمع کرنے والے خصوصی شعبے ’سپیشل برانچ‘ کی مرتب کردہ فہرست
پر گذشتہ برس ہی کاروائی ہو جاتی اگر سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘
پر حملہ نہ ہوتا‘ جس سانحے کی وجہ سے عمل درآمد کچھ وقت کے لئے مؤخر کر دیا
گیا۔ قبضہ مافیا کو اگر خوش قسمت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ گذشتہ
تین برس سے مرتب ہونے والی فہرست پر عملی کاروائی کا اعلان ہوتا ہے اور پھر
کچھ نہیں ہوتا!
خیبرپختونخوا پولیس کی نہ تو نیت پر شک کیا جا رہا ہے اور نہ ہی خفیہ معلومات جمع کرنے کی اُس استعداد پر سوال اُٹھایا جا رہا ہے جس میں سو سے زائد افراد ہی کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ اُن تمام بااثر سیاسی شخصیات کے نام فہرست میں شامل نہیں جن کی مالی حیثیت میں محض تیس برس (تین دہائیوں) کے دوران نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ وہ خاندان جن کے آباؤ اجداد پشاور کے بازاروں میں کرائے کی دکانیں اور چھوٹی موٹی تجارت (دکانداری) کیا کرتے تھے‘ اچانک صنعتکار اور جاگیردار کیسے بن گئے؟ ’راتوں رات امیر‘ بننے کا محاورہ اگر کسی نے عملی طورپر دیکھنا ہے تو وہ پشاور تشریف لائے جہاں شہر غریب اور چند گھرانے ہر گزرتے دن کے ساتھ امیر ہو رہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے کل پچیس اضلاع ہیں اُور صرف ایک ضلع پشاور ہی میں ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف کاروائی سے کیا پیغام جائے گا؟ کہیں اِس کے پیچھے کوئی سیاسی محرک تو کارفرما نہیں کیونکہ جن افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے اُن کی پشت پناہی پر کوئی نہ کوئی سیاسی مہرہ دکھائی دیتا ہے! کیا وجہ ہے کہ دیگر اضلاع میں ‘سپیشل برانچ‘ کے وسائل کو پشاور سے ملتے جلتے کردار والے ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف استعمال نہیں کیا جارہا؟
خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ سے یہ سوال بھی ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں ’قبرستانوں کی اراضی‘ پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی سست رو‘ غیراعلانیہ معطل یا مؤخر کیوں کر دی گئی جبکہ ایسے افراد کے خلاف زیادہ ثبوت جمع کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور اِس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے واضح احکامات بھی پہلے سے رہنمائی کے لئے موجود ہیں کہ ’’قبرستانوں کی سینکڑوں ایکڑ اراضی قبضہ واگزار کرائی جائے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ اگرچہ عدالتی احکامات موجود ہیں اور ایک تحریک کی صورت ’قبرستانوں کو بچانے کے لئے‘ شہری اپنی جان و مال کے نقصانات کی پرواہ کئے بغیر سر پر کفن باندھے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی دن دیہاڑے قبرستانوں کی اراضی پر تجاوزات قائم ہونے کاسلسلہ جوں کا توں جاری ہے اور یہ رجحان صرف پشاور ہی تک محدود نہیں بلکہ کم و بیش سبھی اضلاع میں شہرخاموشاں پر تعمیر ہونے والی مستقل تجاوزات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں! ابتدائی معلومات کے مطابق ’سپیشل برانچ (پولیس کے خفیہ ادارے)‘ کی مرتب کردہ فہرست میں ’محکمۂ مال‘ کے ریکارڈ سے مدد لی گئی ہے۔ جس کے مطابق پشاور شہر کے علاقے میں 60‘ چھاؤنی (کنٹونمنٹ) کے علاقے میں 39 جبکہ دیہی علاقے میں 30 ایسے افراد ہیں جنہوں نے جائیدادئیں قبضہ کر رکھی ہیں۔ اگرچہ فہرست میں ناموں کے سامنے ایک الگ خانہ بنا کر اِن افراد کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی شخصیات کے نام درج نہیں کئے گئے لیکن ذرائع کا کہناہے کہ سیاست دان‘ پولیس اہلکار اُور افسرشاہی (اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) قبضہ مافیا کے ساتھ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس میں پٹوار خانے کی کارستانیوں کا ذکر نہیں اور نہ ہی ماتحت عدالتوں میں بیٹھے اُن معزز منصف صاحبان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جو عام آدمی کی درخواست کو خارج اور شک کا فائدہ ہمیشہ قابضین کو ہی دیتے رہے ہیں!
مسئلہ جائیداد کے قبضے یا کمزور طبقات کے حقوق غصب کرنے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ طرز حکمرانی میں پائے جانے والی خرابیوں کا ہے۔ ’گڈ گورننس‘ نہ ہونے کی وجہ سے کئی خرابیاں در آئی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک مافیا نے عوام کی اکثریت کو پریشان کر رکھا ہے۔ جائیداد کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل ’چیونٹی کی رفتار‘ سے جاری ہے جس کی راہ میں پٹوار خانہ‘ پراپرٹی ڈیلرز‘ وکیل‘ سیاست دان اور نجانے کتنے ہی اَن دیکھے ہاتھ ملوث ہیں۔ جو قبضہ کرتے ہیں وہ تو ایک نہایت ہی چھوٹا اور معمولی طبقہ ہے جنہیں ’بہادر‘ بنانے والوں پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جرائم کرنے والوں میں قانون کا خوف نہیں رہا۔ پولیس والے کو دیکھ کر پسینہ صرف شریف لوگوں کو ہی کیوں آتا ہے؟ تھانہ کچہری کے معاملات سے نہ گھبرانے والے کون ہیں؟ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ قانون شکنی ایک ایسا پیشہ (ذریعۂ روزگار) بن چکا ہے‘ جس سے وابستہ افراد میں نہایت ہی تعلیم یافتہ نفوس سے لیکر انسانی جان کی حرمت سے ناآشنا افراد شامل ہیں۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ جلدبازی کی بجائے قبضہ مافیا کے اصل سرغنوں کے خلاف دائرہ تنگ کرے۔ اسپیشل برانچ کے ذریعے سرکاری ملازمین کے اثاثوں میں اضافے اور اہل و عیال کے مختلف ناموں سے خریدی جانے والی جائیدادوں کی فہرست بھی مرتب کی جائے۔ اگر قانون ساز اراکین اسمبلی سے ہر سال اُن کے اثاثوں کی فہرستیں طلب کی جاسکتی ہیں تو برطانیہ کی طرز پر سرکاری ملازمین سے کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ وہ گذشتہ بیس برس یا اپنی مدت ملازمت کی کل مدت کے دوران خرید و فروخت کی جانے والی جملہ جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بچہ بغل میں ہو اُور پولیس قبضہ مافیا کے مجرم کی تلاش کرتے ہوئے یہاں وہاں صرف گرد چھان رہی ہو! جس کا حاصل گرد کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔
’قبضہ مافیا‘ کو ناقص العقل (مالی طور پر کمزور اور بے یارومددگار بھی) نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ خود کو پولیس کے کسی نئے تابڑ توڑ (لیکن متوقع و اعلانیہ) حملے سے نہ بچا سکے۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ’قبضہ مافیا‘ کوئی ایسا جرم نہیں کہ یہ صرف ایک ہی شعبے (اراضی) کا احاطہ کرتا ہو بلکہ اِس کی کئی ایک شاخیں بھی ہیں اور اس کے کئی کرداروں کو تو عدالتیں مفرور قرار دے چکی ہے۔ بھلا جن مفروروں کو تین دہائیوں سے پولیس گرفتار نہیں کر سکی اور وہ نہ صرف موبائل فونز کا استعمال دھڑلے سے کر رہے ہیں بلکہ پوری طرح فعال بھی ہیں تو کوئی ایسی کاروائی کیسے کامیاب ہو پائے گی‘ جس کے تانے بانے صرف قبائلی علاقوں ہی میں روپوش افراد سے نہیں بلکہ پوش علاقوں میں پرآسائش زندگی بسر کرنے والے بااختیار اُن افراد سے بھی ہے جنہوں نے ’دامے درہمے سخنے‘ سیاست میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے!
خیبرپختونخوا پولیس کی نہ تو نیت پر شک کیا جا رہا ہے اور نہ ہی خفیہ معلومات جمع کرنے کی اُس استعداد پر سوال اُٹھایا جا رہا ہے جس میں سو سے زائد افراد ہی کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ اُن تمام بااثر سیاسی شخصیات کے نام فہرست میں شامل نہیں جن کی مالی حیثیت میں محض تیس برس (تین دہائیوں) کے دوران نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ وہ خاندان جن کے آباؤ اجداد پشاور کے بازاروں میں کرائے کی دکانیں اور چھوٹی موٹی تجارت (دکانداری) کیا کرتے تھے‘ اچانک صنعتکار اور جاگیردار کیسے بن گئے؟ ’راتوں رات امیر‘ بننے کا محاورہ اگر کسی نے عملی طورپر دیکھنا ہے تو وہ پشاور تشریف لائے جہاں شہر غریب اور چند گھرانے ہر گزرتے دن کے ساتھ امیر ہو رہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے کل پچیس اضلاع ہیں اُور صرف ایک ضلع پشاور ہی میں ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف کاروائی سے کیا پیغام جائے گا؟ کہیں اِس کے پیچھے کوئی سیاسی محرک تو کارفرما نہیں کیونکہ جن افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے اُن کی پشت پناہی پر کوئی نہ کوئی سیاسی مہرہ دکھائی دیتا ہے! کیا وجہ ہے کہ دیگر اضلاع میں ‘سپیشل برانچ‘ کے وسائل کو پشاور سے ملتے جلتے کردار والے ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف استعمال نہیں کیا جارہا؟
خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ سے یہ سوال بھی ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں ’قبرستانوں کی اراضی‘ پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی سست رو‘ غیراعلانیہ معطل یا مؤخر کیوں کر دی گئی جبکہ ایسے افراد کے خلاف زیادہ ثبوت جمع کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور اِس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے واضح احکامات بھی پہلے سے رہنمائی کے لئے موجود ہیں کہ ’’قبرستانوں کی سینکڑوں ایکڑ اراضی قبضہ واگزار کرائی جائے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ اگرچہ عدالتی احکامات موجود ہیں اور ایک تحریک کی صورت ’قبرستانوں کو بچانے کے لئے‘ شہری اپنی جان و مال کے نقصانات کی پرواہ کئے بغیر سر پر کفن باندھے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی دن دیہاڑے قبرستانوں کی اراضی پر تجاوزات قائم ہونے کاسلسلہ جوں کا توں جاری ہے اور یہ رجحان صرف پشاور ہی تک محدود نہیں بلکہ کم و بیش سبھی اضلاع میں شہرخاموشاں پر تعمیر ہونے والی مستقل تجاوزات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں! ابتدائی معلومات کے مطابق ’سپیشل برانچ (پولیس کے خفیہ ادارے)‘ کی مرتب کردہ فہرست میں ’محکمۂ مال‘ کے ریکارڈ سے مدد لی گئی ہے۔ جس کے مطابق پشاور شہر کے علاقے میں 60‘ چھاؤنی (کنٹونمنٹ) کے علاقے میں 39 جبکہ دیہی علاقے میں 30 ایسے افراد ہیں جنہوں نے جائیدادئیں قبضہ کر رکھی ہیں۔ اگرچہ فہرست میں ناموں کے سامنے ایک الگ خانہ بنا کر اِن افراد کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی شخصیات کے نام درج نہیں کئے گئے لیکن ذرائع کا کہناہے کہ سیاست دان‘ پولیس اہلکار اُور افسرشاہی (اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) قبضہ مافیا کے ساتھ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس میں پٹوار خانے کی کارستانیوں کا ذکر نہیں اور نہ ہی ماتحت عدالتوں میں بیٹھے اُن معزز منصف صاحبان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جو عام آدمی کی درخواست کو خارج اور شک کا فائدہ ہمیشہ قابضین کو ہی دیتے رہے ہیں!
مسئلہ جائیداد کے قبضے یا کمزور طبقات کے حقوق غصب کرنے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ طرز حکمرانی میں پائے جانے والی خرابیوں کا ہے۔ ’گڈ گورننس‘ نہ ہونے کی وجہ سے کئی خرابیاں در آئی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک مافیا نے عوام کی اکثریت کو پریشان کر رکھا ہے۔ جائیداد کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل ’چیونٹی کی رفتار‘ سے جاری ہے جس کی راہ میں پٹوار خانہ‘ پراپرٹی ڈیلرز‘ وکیل‘ سیاست دان اور نجانے کتنے ہی اَن دیکھے ہاتھ ملوث ہیں۔ جو قبضہ کرتے ہیں وہ تو ایک نہایت ہی چھوٹا اور معمولی طبقہ ہے جنہیں ’بہادر‘ بنانے والوں پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جرائم کرنے والوں میں قانون کا خوف نہیں رہا۔ پولیس والے کو دیکھ کر پسینہ صرف شریف لوگوں کو ہی کیوں آتا ہے؟ تھانہ کچہری کے معاملات سے نہ گھبرانے والے کون ہیں؟ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ قانون شکنی ایک ایسا پیشہ (ذریعۂ روزگار) بن چکا ہے‘ جس سے وابستہ افراد میں نہایت ہی تعلیم یافتہ نفوس سے لیکر انسانی جان کی حرمت سے ناآشنا افراد شامل ہیں۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ جلدبازی کی بجائے قبضہ مافیا کے اصل سرغنوں کے خلاف دائرہ تنگ کرے۔ اسپیشل برانچ کے ذریعے سرکاری ملازمین کے اثاثوں میں اضافے اور اہل و عیال کے مختلف ناموں سے خریدی جانے والی جائیدادوں کی فہرست بھی مرتب کی جائے۔ اگر قانون ساز اراکین اسمبلی سے ہر سال اُن کے اثاثوں کی فہرستیں طلب کی جاسکتی ہیں تو برطانیہ کی طرز پر سرکاری ملازمین سے کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ وہ گذشتہ بیس برس یا اپنی مدت ملازمت کی کل مدت کے دوران خرید و فروخت کی جانے والی جملہ جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بچہ بغل میں ہو اُور پولیس قبضہ مافیا کے مجرم کی تلاش کرتے ہوئے یہاں وہاں صرف گرد چھان رہی ہو! جس کا حاصل گرد کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔
’قبضہ مافیا‘ کو ناقص العقل (مالی طور پر کمزور اور بے یارومددگار بھی) نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ خود کو پولیس کے کسی نئے تابڑ توڑ (لیکن متوقع و اعلانیہ) حملے سے نہ بچا سکے۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ’قبضہ مافیا‘ کوئی ایسا جرم نہیں کہ یہ صرف ایک ہی شعبے (اراضی) کا احاطہ کرتا ہو بلکہ اِس کی کئی ایک شاخیں بھی ہیں اور اس کے کئی کرداروں کو تو عدالتیں مفرور قرار دے چکی ہے۔ بھلا جن مفروروں کو تین دہائیوں سے پولیس گرفتار نہیں کر سکی اور وہ نہ صرف موبائل فونز کا استعمال دھڑلے سے کر رہے ہیں بلکہ پوری طرح فعال بھی ہیں تو کوئی ایسی کاروائی کیسے کامیاب ہو پائے گی‘ جس کے تانے بانے صرف قبائلی علاقوں ہی میں روپوش افراد سے نہیں بلکہ پوش علاقوں میں پرآسائش زندگی بسر کرنے والے بااختیار اُن افراد سے بھی ہے جنہوں نے ’دامے درہمے سخنے‘ سیاست میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے!
No comments:
Post a Comment