Tuesday, June 23, 2015

Jun2015: Prisons in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جیل خانہ جات: تعمیروترقی کی ضرورت
خیبرپختونخوا کے مالی بجٹ برائے سال 2015-16ء میں 3.5 ارب روپے محکمۂ داخلہ کے لئے مختص کئے گئے ہیں اُور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رقم تین حصوں میں تقسیم کی جائے گی۔ ایک حصہ محکمہ داخلہ و قبائلی اَمور کی نگرانی پر خرچ کیا جائے گا۔ دُوسرا حصہ پولیس کے لئے اُور تیسرا حصہ جیل خانہ جات کی توسیع و نئی تعمیرات کے لئے ہے لیکن یہ رقم اِن تینوں شعبوں کی بنیادی ضروریات کے لئے بھی کافی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی اَفراد قوت اور انہیں جدید ہتھیاروں و گشتی وسائل سے لیس کرنے کے علاؤہ نئے جیل خانہ جات بھی تعمیر کئے جائیں کیونکہ خیبرپختونخوا کے چار بڑے جیل خانوں میں گنجائش سے کئی سو گنا زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے اور اِس ہجوم کی وجہ سے نہ صرف تفیشی مراحل میں مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے لئے یہ ماحول خوش آئند ہے کیونکہ ہماری جیلیں اِصلاح کا مرکز نہیں رہیں اُور یہ بات تو طے ہے کہ جیل جانے والا چاہے مجرم ثابت ہو یا نہ ہو لیکن اُس کا تعلق کسی نہ کسی جرائم پیشہ گروہ سے ہو جاتا ہے‘ جو مستقبل کی تازہ دم اور بناء جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے سہولت کاروں کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ت

فیشی عوامل کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جب تک حسب ضرورت جیل خانہ جات کی توسیع و تعمیرات نہیں کی جاتیں اُس وقت تک معمولی و انتہائی جرائم کے ساتھ عسکریت پسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گنجائش کم ہونے کی وجہ سے خطرناک و انتہائی خطرناک قیدی اور دیگر قیدیوں کے درمیان رابطہ رہتا ہے جو پیغام رسانی کا کام بھی کرتے ہیں اور یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہئے کہ بہت سے جرائم پیشہ جیل میں ہونے کے باوجود بھی ’بے تاج بادشاہوں‘ کی طرح اپنے اپنے علاقوں کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں!‘‘ قابل ذکر ہے کہ نئے مالی سال میں آمدن واخراجات کے میزانیئے میں پولیس کو ملنے والے وسائل تعمیرات‘ بحالی و توسیع کے منصوبوں‘ تھانہ جات کو شمسی توانائی فراہم کرنے‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ’فلٹریشن پلانٹس‘ کی تنصیب اُور جیل خانہ جات کے حفاظتی اِنتظامات میں اِضافہ کرنے پر خرچ کئے جائیں گے۔

سردست مسئلہ مالی وسائل کی کمی کا ہے جس کی وجہ سے ایک برس قبل اعلان کی گئی ’مردان جیل‘ کی تعمیر کا منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں مردان میں سنٹرل جیل کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا لیکن 2013ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ یہ منصوبہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک نئی مرکزی جیل کی تعمیر کی بجائے پہلے سے موجود سہولت کو توسیع دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر مردان میں ایک بڑے سنٹرل جیل کی تعمیر کیوں ضروری تھی؟ اصولی طورپر ہر ضلع میں سنٹرل جیل ہونی چاہئے اور اگر مردان میں ازسر نو ایک سنٹرل جیل بنائی جاتی تو اس کی وجہ سے پشاور کے سنٹرل جیل پر دباؤ کم ہو جاتا‘ جہاں قیدیوں کی تعداد اُس حد سے بھی تجاوز کر چکی ہے‘ کہ قیدیوں کو اکثر قسط وار نیند کرنا پڑتی ہے۔ ایک گروپ سوتا ہے تو دوسرا دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا رہتا ہے اور اپنے نمبر کے آنے کا انتظار کرتا ہے! گنجان آباد جیل میں رہنا اپنی جگہ کسی سزا سے کم نہیں۔ جیل کی انتظامیہ توسیع کا کام مرحلہ وار انداز میں کرتی ہے کیونکہ پشاور جیل میں قیدی معمولی سے لیکر انتہائی خطرناک جرائم میں ملوث ہیں اور سیکورٹی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

جاری تعمیراتی منصوبہ آئندہ کم اَزکم دو برس میں مکمل ہونے کی اُمید ہے۔ مردان جیل کی ضرورت اِس وجہ سے بھی ہے کہ پشاور سے تمام قیدیوں کو مردان منتقل کرکے یہاں کی جیل میں خاطرخواہ توسیع کا کام زیادہ تیز رفتاری اور بناء کسی خطرے مکمل کیا سکے۔ بنوں (چودہ اپریل دوہزار بارہ) اور ڈیرہ اسماعیل خان (اُنتیس جولائی دو ہزار تیرہ) میں جیل توڑنے کے واقعات کے بعد مردان جیل کی توسیع کے دوران ایسے انتظامات کئے گئے ہیں کہ اِسے توڑا نہ جاسکے۔ اِس سلسلے میں داخلی دروازے اور دیواروں کی تعمیر میں خاص تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے‘ جس سے حفاظتی انتظامات زیادہ بہتر اور محفوظ بنا دیئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ پشاور جیل کی توسیع کے لئے تعمیراتی کام مرحلہ وار انداز میں جاری ہے جس پر کل 1.408 ارب روپے لاگت آئے گی۔

ہری پور کے بعد پشاور کی سنٹرل جیل خیبرپختونخوا کی دوسری بڑی جیل ہے جو برطانوی راج کے دوران تعمیر کی گئی تھی اور اس میں 450 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش کے مطابق سہولیات کا بندوبست کیا گیا تھا۔ سردست پشاور سنٹرل جیل میں سترہ سو سے زیادہ قیدی ہیں جن میں بارہ سو سے زیادہ زیرسماعت مقدمات جبکہ چارسو سے زیادہ سزا یافتہ ہیں علاؤہ ازیں پھانسی کی سزا پانے والے قیدی بھی یہیں مقیم ہیں۔ جرائم کے خاتمے اور جیل کے ایک کردار کو اصلاحی بنانے کے لئے زیرسماعت مقدمات کے ملزمان اور سزایافتہ مجرموں کو الگ الگ جیل میں رکھا جانا چاہئے۔ پشاور جیل میں دو سو سے زائد عسکریت پسند اور کم و بیش پچاس انتہائی خطرناک قیدی موجود ہیں جو دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔ خیبرایجنسی میں جاری فوجی کاروائی کے دوران اور اس سے قبل گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد میں پشاور کی سنٹرل جیل کی آبادی کا حصہ ہے جبکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد سے گرفتاری میں امریکہ کی معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی موجودگی کی وجہ سے پشاور کی سنٹرل جیل زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کی متقاضی ہے۔

 خطرناک اور انتہائی خطرناک مجرموں کو کسی دوسری زیادہ محفوظ اور کشادہ جیل میں الگ الگ رکھنے سے متعلق غور ہونا چاہئے۔ عسکریت پسندی میں ملوث افراد کا دیگر جرائم والے ملزموں یا مجرموں کے ساتھ قیام بھی اپنی جگہ خاص توجہ چاہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment