ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فروغ تعلیم: حائل رکاوٹیں
فروغ تعلیم: حائل رکاوٹیں
امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ (USAID) پاکستان‘ کی جانب سے پسماندہ
اضلاع میں ’’بنیادی تعلیم‘‘ کے فروغ کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے۔
سال 2002 ء سے شعبہ تعلیم سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی اور آفت زدہ
علاقوں کی معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے جاری کوششوں میں یہ ایک نیا
اضافہ ہے جس کے تحت ’19لاکھ بچوں‘ کے لئے پرائمری کی سطح پر بہتر تدریسی
مواقع فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے گا۔ تیئس جون کو اعلان کے موقع پر
پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے 9 ہزار 400 نوجوانوں کو انگریزی زبان سے
آشنائی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کیا یہ سب عملی کوششیں اُس (سرکاری محروم
توجہ) تعلیمی شعبے میں انقلاب لانے کے لئے کافی ثابت ہو رہی ہیں‘ جس میں
وسائل کی سرمایہ کاری کا حجم تو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے لیکن حاصل
ہونے والے ’نتائج‘ حوصلہ اَفزأ نہیں۔
امریکہ کے امدادی ادارے سے درخواست ہے کہ وہ حسب سابق روائتی انداز میں مالی وسائل مختص کرنے اور اس کے مرحلہ وار استعمال و نتائج کے بارے میں اُن اعدادوشمار پر بھروسہ نہ کرے‘ جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر تعلیم کے شعبے میں بہتری مقصود ہے تو اِس پورے منظرنامے کو الگ عینک نہیں بلکہ ژرف نگاہی سے دیکھنا ہوگا کہ برتن میں سوراخ کہاں ہے کیونکہ اِس میں جتنا پانی بھی ڈالا جاتا ہے وہ سب کا سب آناً فاناً ختم ہو جاتا ہے اور پیاس پوری شدت کے ساتھ اپنا وجود باقی رکھتی ہے! اِس سلسلے میں پہلا نکتہ تو یہ سمجھنا ہے کہ مالی اِمداد مسئلے کا حل نہیں بلکہ موجود وسائل کے استعمال میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور تعلیم کے اسلوب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’چلتے پھرتے (غیرروائتی) سکول‘ اُور پاکستان کو تبدیل کرنے‘ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار نوجوان رضاکاروں کی کمی نہیں‘ جن کی صلاحیتوں سے بطور معلم اِستفادہ کیا جاسکتا ہے۔ نصاب تعلیم کو زیادہ دلچسپ اور انٹرایکٹیو (interactive) بنانے کے ساتھ فاصلاتی نظام تعلیم میں موبائل فون (ٹیکنالوجی) کا استعمال متعارف کرانا ضروری ہے کیونکہ کتابوں کی اشاعت اور اُن کی ترسیل و حفاظت سے زیادہ آسان ’الیکٹرانک کتابیں‘ ہیں‘ جو ’ورچوئل کتب خانوں‘ سے بلاقیمت حاصل کی جاسکیں۔ کتاب سے رشتہ جوڑنے کے لئے کتب خانے آباد کرنا اُن صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کا حصہ ہونا چاہئے‘ جس سے نوجوانوں کو تعمیری و مثبت سرگرمی میں وقت خرچ کرنے کا موقع میسر آئے۔ ہم نصابی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کی بجائے اِداروں کے درمیان فاصلوں اور ملک گیر سطح پر ایک نصاب اُس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی ابتدأ ثابت ہو سکتی ہے‘ جس میں مادری زبان کی اہمیت کو تو سمجھا گیا ہے لیکن مختلف زبانوں میں اسباق کا آپسی تعلق نہیں۔ اُستاد کو گھر تک پہنچانے سے نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے بذریعہ انٹرنیٹ موجود رکھنے سے تبدیلی آ سکتی ہے۔ موبائل فون کمپنیاں اگر دن رات چوبیس گھنٹے محض ایک روپے میں بات کرنے کی پیشکش (آفر) دے سکتی ہیں تو یہی غیرملکی امداد پورے کے پورے شہر کو ’ورچوئل کیمپس‘ بنانے پر کیوں خرچ نہیں کی جاسکتی؟
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ فروغ تعلیم کے لئے عالمی امداد کم یا زیادہ ہونے سے اِس شعبے میں ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اِس کے لئے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز افراد اور اُس کاریگر (معلم) کو اپنا فکروعمل تبدیل کرنا ہوگا‘ جس کا آغاز ’نیت‘ سے ہونا چاہئے کہ میں خود کو حلفیہ ’وقف پاکستان‘ کرتا ہوں اُور میری کمٹمنٹ (commitment) رہے گی کہ تدریس پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔‘‘ اس سلسلے میں ایک ضرورت ’اساتذہ کی تربیت‘ کی بھی ہے‘ جن کی اکثریت کو اپنے فرائض منصبی اور ذمہ داریوں کا حقیقت میں ادراک ہی نہیں۔ کیا معلم کا کردار ’رول ماڈل (مثالی)‘ ہونا چاہئے اور کیا ایسا ہے؟ تعلیم کے شعبے میں ’سرکاری ملازمت‘ کو روزگار کا ’پائیدار ذریعہ‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ ماضی کی سیاسی جماعتیں اپنے منظورنظر افراد کو ’استاد‘ بھرتی کرواتی رہیں اور نتیجہ ایسے ہزاروں افراد بھرتی کر لئے گئے جنہیں نہ تو خود تعلیم سے کوئی لگاؤ رہا اُور نہ ہی اُن کے لئے درس و تدریس ماہانہ تنخواہ اُور مراعات سے زیادہ کشش یا معنی رکھتا تھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سرکاری سکولوں کی عمارتیں اور سہولیات باقی لیکن سکول کا مقصد (روح) باقی نہیں رہی!
امریکہ کے امدادی ادارے کی طرح جرمن حکومت کے امدادی ادارے ’جی آئی زیڈ‘ کے فیصلہ سازوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ سال دو ہزار دو سے دوہزار پندرہ تک قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں شعبۂ تعلیم کے فروغ (ایجوکیشن سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) نامی حکمت عملی کے تحت ’جرمن فیڈرل منسٹری فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (BMZ)‘ کی اِمداد خرچ تو ہوئی لیکن اِس کا حاصل کیا رہا۔ ’جی آئی زیڈ‘ کی ویب سائٹ (giz.de) پر آج بھی یہ بات موجود ہے کہ خیبرپختونخوا کی 53فیصد بالغ آبادی ناخواندہ ہے جبکہ کم و بیش 70فیصد خواتین بھی پڑھ لکھ نہیں سکتیں! اِس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے برطانیہ کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی (DFID)‘ کینیڈا کے ’سی آئی ڈی اے (CIDA)‘ آسٹریلیا کے ’آس ایڈ (AusAid)‘ اُور ہالینڈ و ناروے کی حکومتوں کے فراہم کردہ مالی وسائل جرمن حکومت نے خرچ کئے اور یہ حکمت عملی سال 2020ء تک جاری رہے گی‘ جس میں یورپین یونین کے شامل ہونے کی بھی اُمید ہے لیکن بچوں کی نفسیات سمجھنا تو دور کی بات جس ’انٹرایکٹو‘ تدریسی نظام کو متعارف کرانے کی بات کی گئی وہ بھی تاحال دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اساتذہ کی تربیت کی گئی۔ نصاب کی نئی باتصویر کتب شائع کی گئیں لیکن سکولوں کو نہ تو باہم مربوط کیا گیا اور نہ ہی اساتذہ کی کارکردگی اور تدریس میں منطقی انداز اختیار کرنے کی تلقین و ہدایات اور احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ خیبرپختونخوا پر اِس قدر عالمی توجہ‘ مالی و تکنیکی اِمداد اُور خیرخواہی پر اِظہار شکروفکر کے عملی تقاضے بھی پورے ہونے چاہیءں۔
تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی کے ثمرات نہ تو ہماری شہری زندگیوں کا حصہ ہیں اور نہ ہی دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا طرزعمل تبدیل ہوا ہے۔ کہیں نہ کہیں خرابی اور کہیں نہ کہیں وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے‘ جس سے فائدہ اُٹھانے والوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی بجائے مختلف طریقۂ کار اختیار کرنا ہوگا۔ ذاتی مفادات پر مبنی ترجیح کے باعث تعلیم نجی شعبے کو سونپ دی گئی ہے‘ جس پر محفوظ حقوق‘ عام کرنے کے بارے میں کل سے نہیں آج سے سوچ کا آغاز ہونا چاہئے۔
امریکہ کے امدادی ادارے سے درخواست ہے کہ وہ حسب سابق روائتی انداز میں مالی وسائل مختص کرنے اور اس کے مرحلہ وار استعمال و نتائج کے بارے میں اُن اعدادوشمار پر بھروسہ نہ کرے‘ جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر تعلیم کے شعبے میں بہتری مقصود ہے تو اِس پورے منظرنامے کو الگ عینک نہیں بلکہ ژرف نگاہی سے دیکھنا ہوگا کہ برتن میں سوراخ کہاں ہے کیونکہ اِس میں جتنا پانی بھی ڈالا جاتا ہے وہ سب کا سب آناً فاناً ختم ہو جاتا ہے اور پیاس پوری شدت کے ساتھ اپنا وجود باقی رکھتی ہے! اِس سلسلے میں پہلا نکتہ تو یہ سمجھنا ہے کہ مالی اِمداد مسئلے کا حل نہیں بلکہ موجود وسائل کے استعمال میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور تعلیم کے اسلوب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’چلتے پھرتے (غیرروائتی) سکول‘ اُور پاکستان کو تبدیل کرنے‘ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار نوجوان رضاکاروں کی کمی نہیں‘ جن کی صلاحیتوں سے بطور معلم اِستفادہ کیا جاسکتا ہے۔ نصاب تعلیم کو زیادہ دلچسپ اور انٹرایکٹیو (interactive) بنانے کے ساتھ فاصلاتی نظام تعلیم میں موبائل فون (ٹیکنالوجی) کا استعمال متعارف کرانا ضروری ہے کیونکہ کتابوں کی اشاعت اور اُن کی ترسیل و حفاظت سے زیادہ آسان ’الیکٹرانک کتابیں‘ ہیں‘ جو ’ورچوئل کتب خانوں‘ سے بلاقیمت حاصل کی جاسکیں۔ کتاب سے رشتہ جوڑنے کے لئے کتب خانے آباد کرنا اُن صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کا حصہ ہونا چاہئے‘ جس سے نوجوانوں کو تعمیری و مثبت سرگرمی میں وقت خرچ کرنے کا موقع میسر آئے۔ ہم نصابی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کی بجائے اِداروں کے درمیان فاصلوں اور ملک گیر سطح پر ایک نصاب اُس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی ابتدأ ثابت ہو سکتی ہے‘ جس میں مادری زبان کی اہمیت کو تو سمجھا گیا ہے لیکن مختلف زبانوں میں اسباق کا آپسی تعلق نہیں۔ اُستاد کو گھر تک پہنچانے سے نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے بذریعہ انٹرنیٹ موجود رکھنے سے تبدیلی آ سکتی ہے۔ موبائل فون کمپنیاں اگر دن رات چوبیس گھنٹے محض ایک روپے میں بات کرنے کی پیشکش (آفر) دے سکتی ہیں تو یہی غیرملکی امداد پورے کے پورے شہر کو ’ورچوئل کیمپس‘ بنانے پر کیوں خرچ نہیں کی جاسکتی؟
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ فروغ تعلیم کے لئے عالمی امداد کم یا زیادہ ہونے سے اِس شعبے میں ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اِس کے لئے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز افراد اور اُس کاریگر (معلم) کو اپنا فکروعمل تبدیل کرنا ہوگا‘ جس کا آغاز ’نیت‘ سے ہونا چاہئے کہ میں خود کو حلفیہ ’وقف پاکستان‘ کرتا ہوں اُور میری کمٹمنٹ (commitment) رہے گی کہ تدریس پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔‘‘ اس سلسلے میں ایک ضرورت ’اساتذہ کی تربیت‘ کی بھی ہے‘ جن کی اکثریت کو اپنے فرائض منصبی اور ذمہ داریوں کا حقیقت میں ادراک ہی نہیں۔ کیا معلم کا کردار ’رول ماڈل (مثالی)‘ ہونا چاہئے اور کیا ایسا ہے؟ تعلیم کے شعبے میں ’سرکاری ملازمت‘ کو روزگار کا ’پائیدار ذریعہ‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ ماضی کی سیاسی جماعتیں اپنے منظورنظر افراد کو ’استاد‘ بھرتی کرواتی رہیں اور نتیجہ ایسے ہزاروں افراد بھرتی کر لئے گئے جنہیں نہ تو خود تعلیم سے کوئی لگاؤ رہا اُور نہ ہی اُن کے لئے درس و تدریس ماہانہ تنخواہ اُور مراعات سے زیادہ کشش یا معنی رکھتا تھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سرکاری سکولوں کی عمارتیں اور سہولیات باقی لیکن سکول کا مقصد (روح) باقی نہیں رہی!
امریکہ کے امدادی ادارے کی طرح جرمن حکومت کے امدادی ادارے ’جی آئی زیڈ‘ کے فیصلہ سازوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ سال دو ہزار دو سے دوہزار پندرہ تک قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں شعبۂ تعلیم کے فروغ (ایجوکیشن سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) نامی حکمت عملی کے تحت ’جرمن فیڈرل منسٹری فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (BMZ)‘ کی اِمداد خرچ تو ہوئی لیکن اِس کا حاصل کیا رہا۔ ’جی آئی زیڈ‘ کی ویب سائٹ (giz.de) پر آج بھی یہ بات موجود ہے کہ خیبرپختونخوا کی 53فیصد بالغ آبادی ناخواندہ ہے جبکہ کم و بیش 70فیصد خواتین بھی پڑھ لکھ نہیں سکتیں! اِس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے برطانیہ کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی (DFID)‘ کینیڈا کے ’سی آئی ڈی اے (CIDA)‘ آسٹریلیا کے ’آس ایڈ (AusAid)‘ اُور ہالینڈ و ناروے کی حکومتوں کے فراہم کردہ مالی وسائل جرمن حکومت نے خرچ کئے اور یہ حکمت عملی سال 2020ء تک جاری رہے گی‘ جس میں یورپین یونین کے شامل ہونے کی بھی اُمید ہے لیکن بچوں کی نفسیات سمجھنا تو دور کی بات جس ’انٹرایکٹو‘ تدریسی نظام کو متعارف کرانے کی بات کی گئی وہ بھی تاحال دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اساتذہ کی تربیت کی گئی۔ نصاب کی نئی باتصویر کتب شائع کی گئیں لیکن سکولوں کو نہ تو باہم مربوط کیا گیا اور نہ ہی اساتذہ کی کارکردگی اور تدریس میں منطقی انداز اختیار کرنے کی تلقین و ہدایات اور احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ خیبرپختونخوا پر اِس قدر عالمی توجہ‘ مالی و تکنیکی اِمداد اُور خیرخواہی پر اِظہار شکروفکر کے عملی تقاضے بھی پورے ہونے چاہیءں۔
تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی کے ثمرات نہ تو ہماری شہری زندگیوں کا حصہ ہیں اور نہ ہی دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا طرزعمل تبدیل ہوا ہے۔ کہیں نہ کہیں خرابی اور کہیں نہ کہیں وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے‘ جس سے فائدہ اُٹھانے والوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی بجائے مختلف طریقۂ کار اختیار کرنا ہوگا۔ ذاتی مفادات پر مبنی ترجیح کے باعث تعلیم نجی شعبے کو سونپ دی گئی ہے‘ جس پر محفوظ حقوق‘ عام کرنے کے بارے میں کل سے نہیں آج سے سوچ کا آغاز ہونا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment