ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رمضان اُور غصہ
رمضان اُور غصہ
پوری قوم جلالی ہے۔ کسی کے پاس وقت نہیں لیکن اگر پوچھو کہ کیا کام ہے تو
یہی کام بتایا جائے گا کہ کوئی کام نہیں! اس پر عجب یہ کہ ہر کسی کے ناک پر
غصہ دھرا دکھائی دیتا ہے۔ قیمتی گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کے ماتھے پر
سلوٹیں دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے جبکہ کوئی سواری ملنے کے انتظار میں کھڑے
لوگ خود اپنا ہی بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہونے کے باعث اگر نہ مسکرائیں تو وجہ
سمجھ میں آتی ہے لیکن جو ایک بات وثوق سے مختلف نظر آتی ہے وہ ماہ رمضان
المبارک کے بابرکت ایام میں تو ہر کس و ناکس کا ’غصہ‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ
روزہ کی حالت میں آخر اس قدر غصہ آتا کیوں ہے؟ طبی نکتۂ نظر سے چائے‘ کافی‘
مشروبات‘ سگریٹ‘ نسوار‘ پان‘ چھالیہ وغیرہ کے عادی افراد جب کھانا پینا
اور چبانا ترک کرتے ہیں تو اُن کے مزاج و بول چال پر چڑچڑا پن حاوی ہو جاتا
ہے جبکہ یہی روزہ ایسے افراد کے مزاج میں تحمل کو نمایاں کر دیتا ہے‘ جو
سال کے باقی گیارہ ماہ اسلامی تعلیمات کا انتخاب جزوی نہیں بلکہ اپنی
زندگیوں کے لئے کلی طور پر کرتے ہیں۔
سمجھ لیجئے کہ ’غصہ ایک فطری عمل اور ہیجانات کی ایک قسم ہے جو اگر ایک حد میں ہو تو نقصان نہیں لیکن حد سے بڑھ جائے تو دین اور دنیا کے لئے خسارے کا باعث بن جاتا ہے لیکن غصہ پر قابو بھی تو پایا جاسکتا ہے‘ اسے ’ضبط‘ بھی کیا جاسکتا ہے اُور بہادر وہی کہلاتا ہے جو غصے کی حالت میں دوسرے کو درگزر کردے۔ اس عمل کے بارے میں خالق کائنات نے پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا ہے۔ کتب احادیث (بخاری‘ ترمذی‘ موطا امام مالک) میں درج ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن ایک ساتھی (صحابی) نے عرض کیا:(ترجمہ): ’’کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے‘‘ تو سرور کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ’’غصہ مت کیا کرو‘‘ انہوں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار یہی جواب ارشاد فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو۔‘‘ غصے (اشتعال) میں لڑائی جھگڑے سے بچنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص کو غصہ آرہا ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ آپے سے باہر ہوکر کوئی خلاف شریعت فعل کر بیٹھے گا یا کسی کے حق میں زیادتی کا مرتکب ہو گا یا مارپیٹ (فساد) تک نوبت جا پہنچے گی تو ایسے وقت میں ’درود شریف‘ پڑھ لینا چاہئے۔ عرب کے لوگوں میں آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جہاں کہیں دو آدمیوں میں تکرار اور لڑائی کی نوبت آتی ہے تو اُن میں کوئی ایک یا کوئی تیسرا شخص باآواز بلند کہتا ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو۔‘‘ اس کے جواب میں وہ خود ہی بلند آواز میں درودشریف پڑھنا شروع کردیتا ہے اور اُسی وقت غصہ تحلیل ہو کر ’عقل بحال‘ ہو جاتی ہے!
سوال یہ بھی ہے کہ آخر ہمیں غصہ ایسی باتوں پر کیوں نہیں آتا جو ظلم و زیادتی پر مبنی ہیں؟ مثال کے طور پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ عام ہو چکی ہے۔ ہم ملاوٹ شدہ بہت سی اشیاء خریدتے ہیں اور کبھی بھی اِس بات پر غصے کا اظہار نہیں کرتے کہ ہماری جان ومال سے کھیلنے والوں کو کیوں من مانی کرنے کی چھوٹ دی گئی ہے؟ رمضان سمیت خاص ایام کے مواقعوں پر اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت کے باعث مہنگائی کر دی جاتی ہے لیکن ہم اِس پر بھی خاموش رہتے ہیں اُور معاشرے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کی حرص و طمع کا نشانہ بنتے ہیں؟ سیاسی شخصیات آمدورفت یا اپنی رہائش گاہوں کے آس پاس شاہراہ عام بند کر دیتے ہیں لیکن ہمیں اِس پر غصہ نہیں آتا۔ ہمارے دیکھا دیکھی‘ بناء محنت یا کاروبار بدعنوانی کے ذریعے لوگ راتوں رات امیر بن جاتے ہیں لیکن ہمیں ایسے نام نہاد رہنماؤں پر غصہ نہیں آتا۔ سیاسی جماعتیں وعدے کرتی ہیں جنہیں انتخابات کے بعد پورا نہیں کیا جاتا لیکن ووٹ ڈالتے ہوئے ہم غصے کے ذریعے احتساب نہیں کرتے آخر کیوں؟
القصہ مختصر ایسے بہت سی محل موجود ہیں جہاں غصے کا اِظہار ہونا چاہئے اُور اگر کوئی بندۂ خدا ظلم و زیادتی پر ’ناپسندیدگی کا برملا‘ اظہار کرتا بھی ہے تو سب اُسے ’تعجب کی نظر‘ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ کوئی مکروہ فعل کا مرتکب ہو رہا ہو! مسئلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہم نے بحیثیت مجموعی ’غصے‘ کی کیفیت و اہمیت کو نہیں سمجھا کہ آخر اِسے کیوں انسانی طبیعت (مزاج) کا حصہ بنایا گیا ہے۔ دوسری ضرورت غصے پر قابو پانے اور اس سے تعمیری و مثبت انداز میں استفادے کی ہے تو اِس سلسلے میں خاطرخواہ رہنمائی موجود نہیں۔ ہمیں نہ تو نصاب اور نہ ہی مسجد و منبر سے غصے کے ’جائز‘ اظہار کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔
غصے کے عملی تقاضوں کو اگر عوام و خواص نہیں سمجھ پا رہے تو اس کے لئے وہ قصور وار نہیں کیونکہ قدرت کی جانب سے عطا کردہ اُن تمام صلاحیتوں کا کماحقہ ادراک ہی نہیں رکھتے‘ جن سے ’اصلاح ذات و معاشرہ‘ ممکن ہے۔ ذرا سوچئے کہ سچ ہمیشہ دوسروں کے متعلق کیوں بولا جاتا ہے اور اکثریت غصہ بھی ہمیشہ دوسروں پر ہی کیوں اُتارتی ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم اپنی ذات میں پائی جانے والی خامیوں کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیں اور دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر سمجھیں؟ دوسروں کی غلطیاں اِس لئے کیوں معاف نہیں کرتے کہ ایسی ہی غلطیاں تو ہم سے بھی سرزد ہو سکتیں ہیں ہو چکی ہیں؟
کیا یہ حق نہیں بنتا کہ کبھی کبھار میں اُور آپ اپنے آپ پر بھی غصہ کریں کہ کوئی ایسا کام جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے تھا‘ لیکن چونکہ وہ ہم سے سرزد ہوگیا‘اِس لئے غصہ کرتے ہوئے خود سے عزم کریں کہ آئندہ وہ غلطی نہیں دہرائیں گے! تزکیۂ نفس ہو یا رہنمائی‘ اپنی ذات ہو یا اجتماعی مفاد‘ ہر لحاظ سے ماہ رمضان کی بابرکت ساعتیں شاندار موقع ہے۔ یہ فرصت‘ مصروفیت اُور مہلت غنیمت ہے‘ اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ ’غصے‘ کی کیفیت سے جڑی اچھائیوں‘ برائیوں اُور تقاضوں کو اگر شعوری طور پر سمجھ کر اُور اِن کے بجا‘ درست اور ’مفید عملی استعمال‘ کے لئے دانستہ کوششیں کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسی عمل سے ہماری زندگی و آخرت دونوں سنور جائیں!
سمجھ لیجئے کہ ’غصہ ایک فطری عمل اور ہیجانات کی ایک قسم ہے جو اگر ایک حد میں ہو تو نقصان نہیں لیکن حد سے بڑھ جائے تو دین اور دنیا کے لئے خسارے کا باعث بن جاتا ہے لیکن غصہ پر قابو بھی تو پایا جاسکتا ہے‘ اسے ’ضبط‘ بھی کیا جاسکتا ہے اُور بہادر وہی کہلاتا ہے جو غصے کی حالت میں دوسرے کو درگزر کردے۔ اس عمل کے بارے میں خالق کائنات نے پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا ہے۔ کتب احادیث (بخاری‘ ترمذی‘ موطا امام مالک) میں درج ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن ایک ساتھی (صحابی) نے عرض کیا:(ترجمہ): ’’کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے‘‘ تو سرور کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ’’غصہ مت کیا کرو‘‘ انہوں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار یہی جواب ارشاد فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو۔‘‘ غصے (اشتعال) میں لڑائی جھگڑے سے بچنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص کو غصہ آرہا ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ آپے سے باہر ہوکر کوئی خلاف شریعت فعل کر بیٹھے گا یا کسی کے حق میں زیادتی کا مرتکب ہو گا یا مارپیٹ (فساد) تک نوبت جا پہنچے گی تو ایسے وقت میں ’درود شریف‘ پڑھ لینا چاہئے۔ عرب کے لوگوں میں آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جہاں کہیں دو آدمیوں میں تکرار اور لڑائی کی نوبت آتی ہے تو اُن میں کوئی ایک یا کوئی تیسرا شخص باآواز بلند کہتا ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو۔‘‘ اس کے جواب میں وہ خود ہی بلند آواز میں درودشریف پڑھنا شروع کردیتا ہے اور اُسی وقت غصہ تحلیل ہو کر ’عقل بحال‘ ہو جاتی ہے!
سوال یہ بھی ہے کہ آخر ہمیں غصہ ایسی باتوں پر کیوں نہیں آتا جو ظلم و زیادتی پر مبنی ہیں؟ مثال کے طور پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ عام ہو چکی ہے۔ ہم ملاوٹ شدہ بہت سی اشیاء خریدتے ہیں اور کبھی بھی اِس بات پر غصے کا اظہار نہیں کرتے کہ ہماری جان ومال سے کھیلنے والوں کو کیوں من مانی کرنے کی چھوٹ دی گئی ہے؟ رمضان سمیت خاص ایام کے مواقعوں پر اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت کے باعث مہنگائی کر دی جاتی ہے لیکن ہم اِس پر بھی خاموش رہتے ہیں اُور معاشرے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کی حرص و طمع کا نشانہ بنتے ہیں؟ سیاسی شخصیات آمدورفت یا اپنی رہائش گاہوں کے آس پاس شاہراہ عام بند کر دیتے ہیں لیکن ہمیں اِس پر غصہ نہیں آتا۔ ہمارے دیکھا دیکھی‘ بناء محنت یا کاروبار بدعنوانی کے ذریعے لوگ راتوں رات امیر بن جاتے ہیں لیکن ہمیں ایسے نام نہاد رہنماؤں پر غصہ نہیں آتا۔ سیاسی جماعتیں وعدے کرتی ہیں جنہیں انتخابات کے بعد پورا نہیں کیا جاتا لیکن ووٹ ڈالتے ہوئے ہم غصے کے ذریعے احتساب نہیں کرتے آخر کیوں؟
القصہ مختصر ایسے بہت سی محل موجود ہیں جہاں غصے کا اِظہار ہونا چاہئے اُور اگر کوئی بندۂ خدا ظلم و زیادتی پر ’ناپسندیدگی کا برملا‘ اظہار کرتا بھی ہے تو سب اُسے ’تعجب کی نظر‘ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ کوئی مکروہ فعل کا مرتکب ہو رہا ہو! مسئلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہم نے بحیثیت مجموعی ’غصے‘ کی کیفیت و اہمیت کو نہیں سمجھا کہ آخر اِسے کیوں انسانی طبیعت (مزاج) کا حصہ بنایا گیا ہے۔ دوسری ضرورت غصے پر قابو پانے اور اس سے تعمیری و مثبت انداز میں استفادے کی ہے تو اِس سلسلے میں خاطرخواہ رہنمائی موجود نہیں۔ ہمیں نہ تو نصاب اور نہ ہی مسجد و منبر سے غصے کے ’جائز‘ اظہار کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔
غصے کے عملی تقاضوں کو اگر عوام و خواص نہیں سمجھ پا رہے تو اس کے لئے وہ قصور وار نہیں کیونکہ قدرت کی جانب سے عطا کردہ اُن تمام صلاحیتوں کا کماحقہ ادراک ہی نہیں رکھتے‘ جن سے ’اصلاح ذات و معاشرہ‘ ممکن ہے۔ ذرا سوچئے کہ سچ ہمیشہ دوسروں کے متعلق کیوں بولا جاتا ہے اور اکثریت غصہ بھی ہمیشہ دوسروں پر ہی کیوں اُتارتی ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم اپنی ذات میں پائی جانے والی خامیوں کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیں اور دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر سمجھیں؟ دوسروں کی غلطیاں اِس لئے کیوں معاف نہیں کرتے کہ ایسی ہی غلطیاں تو ہم سے بھی سرزد ہو سکتیں ہیں ہو چکی ہیں؟
کیا یہ حق نہیں بنتا کہ کبھی کبھار میں اُور آپ اپنے آپ پر بھی غصہ کریں کہ کوئی ایسا کام جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے تھا‘ لیکن چونکہ وہ ہم سے سرزد ہوگیا‘اِس لئے غصہ کرتے ہوئے خود سے عزم کریں کہ آئندہ وہ غلطی نہیں دہرائیں گے! تزکیۂ نفس ہو یا رہنمائی‘ اپنی ذات ہو یا اجتماعی مفاد‘ ہر لحاظ سے ماہ رمضان کی بابرکت ساعتیں شاندار موقع ہے۔ یہ فرصت‘ مصروفیت اُور مہلت غنیمت ہے‘ اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ ’غصے‘ کی کیفیت سے جڑی اچھائیوں‘ برائیوں اُور تقاضوں کو اگر شعوری طور پر سمجھ کر اُور اِن کے بجا‘ درست اور ’مفید عملی استعمال‘ کے لئے دانستہ کوششیں کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسی عمل سے ہماری زندگی و آخرت دونوں سنور جائیں!
![]() |
Anger management for betterment |
No comments:
Post a Comment