Friday, June 26, 2015

Jun2015: Economic is E-GOVERNANCE

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سردست: اِی گورننس
بظاہر دیکھنے سے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کسی سرکاری دفتر کے اہلکار اِس قدر فرض شناس بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنے مقررہ وقت کے بعد بھی نشستوں سے چپک کر بیٹھے رہیں! جیسے حکومت نے ایمرجنسی (ہنگامی حالت) نافذ کردی ہو اور اُنہیں کوئی بہت ہی ضروری‘ فوری نوعیت کا ایسا کام نمٹانا ہو‘ جس میں آنے والا دن کا انتظار نہیں ہوسکتا۔ یوں تو ہر میز پر ایک عدد کمپیوٹر موجود تھا لیکن کونے میں بیٹھے ہوئے شخص ’فیس بک‘ پر کسی بہت ہی ’نازک مسئلے‘ کی تفصیلات کا باریک بینی سے مطالعہ کر رہے تھے۔ باقی کمپیوٹرز پر کیا ’چل رہا تھا‘ کانوں میں لگے ہوئے ہیڈفونز اور سکرین پر جمی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ ٹیلی فون کو کریڈل سے اُٹھا کر نیچے رکھا گیا تھا تاکہ باوجود خواہش بھی کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ ہر میز پر فائلیں تہہ در تہہ رکھی ہوئی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ جس کے پاس زیادہ فائلیں ہوں گی وہ بالحاظ عہدہ اُس دفتر میں سب سے بڑا افسر ہوگا۔ دروازے کے قریب ترین بیٹھے صاحب کے سامنے جب عرض پیش کی گئی تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا کہ ’’2 بجے چھٹی ہو جاتی ہے!‘‘ لیکن آپ سب لوگ تو بہ نفس نفیس موجود ہیں! اُنہوں نے بحث میں الجھے بناء درخواست لی اُور بناء مطالعہ فرمایا ’’کل صبح آنا۔‘‘ یقیناًخیبرپختونخوا کے ’سول سیکرٹریٹ‘ کے ’دفتری معمولات (آفس ٹائمنگ)‘ میں ہرسال کی طرح اِس رمضان بھی تبدیلی کر دی گئی تھی لیکن دفتر مقررہ وقت پر بند نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ائرکنڈیشن اور پنکھے دفتری وقت کے بعد ’آف‘ کئے گئے تھے۔ چونکہ بجلی کی قیمت قومی خزانے سے اَدا ہو رہی تھی اِس لئے کسی کو داخلی دروازہ مکمل طور پر بند کرنے کا احساس بھی نہیں تھا اُور نہ ہی برف کی طرح ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے ہوئے ’روزہ داروں‘ کو اِس بات میں کوئی منطق نظر آ رہی تھی کہ وہ چلچلاتی دھوپ میں گھر جائیں! آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ سرکاری دفاتر کی بجلی ٹیلی فون اور دیگر یوٹیلٹیز وقت مقررہ کے بعد بند کر دی جائیں اور ہر دفتر کے باہر ایک میٹر لگا ہو‘ جس کے ساتھ ماہانہ بجلی کے اخراجات کی تفصیلات بھی درج ہوں کہ اِس دفتر کے لوگ دیگر وسائل کے ساتھ کتنی بجلی ’کھا‘ رہے ہیں؟ ایک طرف عوام ہے جو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف سرکاری دفتر ہے جہاں برقی رو کا متبادل انتظام بذریعہ ’یو پی ایس‘ بھی ہے اور جنریٹرز بھی رکھے گئے ہیں! اتنا تضاد ’طرز حکمرانی (گورننس)‘ کی اُن خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے جنہیں سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔

کہانی ہر جگہ ایک ہی ہے۔ خیبرپختونخوا کا کوئی ضلع ہو یا صوبائی دارالحکومت کے سرکاری دفاتر‘ اِن میں ایک قدر مشترک ’فرنٹ ڈیسک (استقبالیہ)‘ کی عدم موجودگی ہوتی ہیہو اُور نہ ہی کسی دیوار پر ’سائل‘ کے لئے ہدایات ہوتی ہیں۔ شکایات کی صورت کس سے رجوع کرنا ہے‘ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا اور جب سرکاری دفاتر کے نمبر مشتہر کئے جاتے ہیں تو وہ لینڈلائن (پی ٹی سی ایل) نمبرز ہوتے ہیں‘ جو یا تو آپ کو مسلسل مصروف (اینگیج) ملیں گے یا پھر اُنہیں کوئی اُٹھائے گا ہی نہیں۔ دونوں صورتوں کے علاؤہ اگر نمبر اُٹھا بھی لیا جائے اُور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ مسئلے کی بابت کس صاحب سے بات کرنی ہے تو بھی فون کا رابطہ کارآمد نہیں۔ اصولی طور پر جملہ سرکاری دفتروں کا ایک رابطہ دفتر ہونا چاہئے جہاں کسی مسئلے کی درخواست جمع کرانے کے بعد ایک عدد ’حوالہ (ریفرنس) نمبر‘ جاری کر دیا جائے اُور درخواست کا اُسی شناختی نمبر سے پیچھا (ٹریک) کیا جا سکے۔ حق تو یہ ہے کہ دفتری کاروائی کے جملہ مراحل بھی اَزخود طے ہونے چاہیءں۔ سرکاری اہلکاروں کی جسمانی طور پر حاضری یقینی بنانے اور اُنہیں کسی درجے ’نظم و ضبط کا پابند‘ بنانے کا ہدف بڑی حد تک تو حاصل کر لیا گیا ہے لیکن اِس کے کامیابی کے خاطرخواہ ثمرات حاصل نہیں ہوسکے۔ شاید نہیں بلکہ یقینی طور پر اِس کی وجہ یہ ہے کہ پشاور میں مختلف محکموں کے مرکزی صدر دفاتر کے لئے ملازمین کی اکثریت مقامی (پشاور سے تعلق) ہونے کی بجائے چارسدہ اور مردان یا اِن کے گردونواحی علاقوں سے ہے‘ جنہیں گھر پہنچنے کی فکر پشاور اُترتے ہی لاحق ہو جاتی ہے۔ اِن ملازمین کو لانے لیجانے کی بسوں پر ہوئے متعدد دہشت گرد حملوں کے بعد ملازمین نے آپس میں مل بانٹ کر گاڑیاں خرید لی ہیں اور ایک بڑی تعداد نے اگرچہ اکٹھے سفر کرنا ترک کردیا ہے لیکن پھر بھی سرکاری ملازمین کی ایسی بسیں دیکھی جا سکتی ہیں جو لبالب بھری ہوں! پشاور سے ہونے والی صرف یہی ایک ’حق تلفی‘ نہیں کہ اِسے (صوبائی فنانس کمیشن کے تحت وسائل کی تقسیم کے اصول) 1: حسب آبادی‘ 2: حسب غربت‘ 3: حسب آمدن اور 4: عارضی سکونت رکھنے والوں کی تعداد کے مطابق ’فنانس ایوارڈ‘ سے ترقیاتی فنڈز نہیں ملے بلکہ یہ سوچی سمجھی‘ دانستہ ناانصافی بھی ہوئی کہ یہاں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو تعلیمی قابلیت کے باوجود ملازمتوں میں اُن کا خاطرخواہ حصہ نہیں مل سکا۔

بہرکیف سرکاری اِداروں کی کارکردگی ’اِی گورننس‘ سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا مرکزی دفتر (استقبالیہ) مقرر کیا جا سکتا ہے جہاں پٹوار خانے سے لیکر میونسپل کارپوریشن تک ہر اُس کام کے لئے رجوع کیا جاسکے‘ جس میں درخواست گزار کے جسمانی طور پر پیش ہونے کی حاجت نہ آئے۔ درخواست گزار کی تصویر اور اُنگلیوں کے نشانات (بائیومیٹرکس) کے ساتھ درخواست وصول کر کے اُسے متعلقہ محکموں کو ’الیکٹرانک (سکین شدہ)‘ یا ’ٹائپ شدہ‘ حالت (فارمیٹ) میں اِرسال کر دیا جائے‘ جہاں سے وصولی کی رسید سے بذریعہ ’ایس ایم ایس‘ درخواست گزار بھی آگاہ ہو اُور خودکار نظام کے تحت درخواست کو فوری نمٹانا بھی صرف اِسی صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ عوامی شکایات یا روزمرہ کام نمٹانے میں غیرضروری تاخیر کے مرض کا اِس دوائی سے علاج کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہر درخواست گزار کے پاس موبائل فون نمبر ہو اُور ’الاٹ‘ ہونے والے درخواست پرکاروائی کی تفصیلات بذریعہ ’ویب سائٹ‘ دیکھنے کے وسائل رکھتا ہو‘ اِس لئے کسی ’مرکزی دفتر‘ سے رجوع کرنا نہ صرف آسان ہوگا بلکہ اگر کسی درخواست کو ایک سے زیادہ محکموں کا چکر لگانا ہے تو معمول کے اِس جھنجھٹ سے بھی ’العارض‘ کی گلوخلاصی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ ابتدأ میں ’اِی گورننس‘ سے بھلے ہی سوفیصد نتائج حاصل نہ ہوں لیکن اگر ہم ’سردست ٹیکنالوجی‘ کے استعمال پر آمادگی کا اِظہار کرلیں تو اِس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کمپیوٹرز کبھی ہڑتال نہیں کرتے۔ بیمار نہیں پڑتے۔ کسی ضروری کام کا بہانہ بنا کر اچانک رخصت پر نہیں چلے جاتے۔ بناء اطلاع غائب بھی نہیں ہوتے۔ اِنہیں سالانہ تعطیلات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِن کا کوئی آبائی علاقہ نہیں ہوتا کہ جہاں انہیں تعیناتی کی ضرورت ہو۔ یہ قواعد و ضوابط میں موجود سقم اور اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہر لمحے سوچ و بچار نہیں کرتے۔ اُن کی سالانہ تنخواہیں و مراعات بڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی اُور انہیں ہر سال ترقی دے کر قومی خزانے پر پہلے سے پہاڑ جتنے ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کے بوجھ میں اِضافہ بھی نہیں ہوگا!
E Governance is the solution for complex problems and financial management

No comments:

Post a Comment