Saturday, June 27, 2015

Jun2015: Dream of E Governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِی گورننس: جاگتے خواب
ٹیکنالوجی کے ذریعے طرز حکمرانی بالخصوص سرکاری اِداروں کو مستعد و فعال اُور مجموعی کارکردگی و ساکھ بہتر بنانے کے لئے ’اِی گورننس‘ کی ضرورت و اہمیت اُجاگر کرنے کا ’مقصد‘ اُس عام آدمی کی مشکلات کم کرنی ہیں‘ جس کی قسمت میں سوائے دھتکار اگر کچھ ہے تو تسلیاں اور جاگتی آنکھوں کے خواب۔ اِس سلسلے میں ستائیس جون کو شائع ہونے والے کالم سے متعلق ’جناب غازی خان‘ نے بذریعہ اِی میل چند ایسے اضافی اَمور کی نشاندہی کی ہے‘ جن کا اشارتاً ذکر تو موجود ہے لیکن اُن کی وضاحت طوالت سے گریز کے سبب بصورت تشنگی محسوس کی گئی ہے۔

طویل کلام (فیڈبیک) کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’سرکاری اِداروں میں حاضری کا واجبی سا نظام تو موجود ہے لیکن اِس پر اعلیٰ و ادنی ملازمین الگ الگ طریقوں سے عمل کرتے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے مثال دی ہے کہ ۔۔۔ ’’جس طرح سکول میں اساتذہ کی حاضری کا رجسٹر ملتا ہے جس میں پرنسپل کے علاؤہ باقی سبھی عملہ باقاعدگی سے اپنے حاضر ہونے کی سند درج کرتا ہے۔اسی طرح دیگر سرکاری دفاتر میں بھی حاضری لگانے کا عمل صرف اور صرف ماتحت عملے کی حد تک ہی محدود ہے جن کی جسمانی موجودگی کا دفتری اُوقات میں حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور دفتر کے انتظامی سربراہ کی عدم موجودگی (غیرحاضری) پر سوال اُٹھایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’صاحب یا تو میٹنگ یا پھر دورے (سائٹ) پر گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ یہ حقیقت بھی راز نہیں رہی کہ اگر کوئی فرض شناس اہلکار اپنے نگران و انتظامی افسر کی ’من مانیوں‘ یا سرکاری وسائل کے بیجا اِستعمال (اِسراف) کے خلاف آواز اُٹھائے تو اُس کے خلاف محکمانہ تحقیقات کا آغاز کر دیا جاتا ہے اُور اُسے ’مس فٹ‘ بلکہ ’اَن فٹ‘ قرار دینے کے لئے وجوہات بڑی محنت سے ایک ایک کرکے جمع کی جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ فرائض منصبی ادا کرنے میں ایمانداری و دیانت کے اصول پیش نظر رکھنے کا عزم لے کر سرکاری ملازمت اختیار کرنے والوں کا جوش و جذبہ اور حب الوطنی چند ہی مہینوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اُور وہ بھی اُسی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں‘ جس میں اہلیت پر سفارش اور قواعد پر تعلق حاوی دکھائی دیتا ہے۔ عوام تو کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما سے پوچھ لیجئے‘ وہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دے گا لیکن اگر اُن سے یہ پوچھا جائے کہ ماضی و حال میں اِس کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کئے گئے تو اُن کے جواب کا لب لباب یہی ہوگا کہ ’’بہتری کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔‘‘ ہم جاگتی آنکھوں سے سرکاری وسائل کا ضیاع دیکھتے ہیں اور پھر بھی نہیں دیکھتے! ہم سنتے کانوں سے مالی بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کی مثالیں بیان کرنے والوں سے اختلاف نہیں کرتے لیکن پھر بھی اِس گھناؤنے فعل کے مرتکب اہلکاروں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچاتے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز عوام کے جملہ منتخب نمائندے جواب دیں کہ ۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر سرکاری دفتر میں ’بائیومیٹرکس (اُنگلیوں کے نشانات سے شناخت)‘ پر مبنی ’حاضری (اٹینڈننس)کا نظام‘ متعارف نہیں کرایا جاسکتا؟‘‘
بائیومیٹرکس کا سب سے بڑا فائدہ (ایڈوانٹیج) یہ ہے کہ اِس سے کسی ملازم یا تمام اہلکاروں کی حاضری نہ صرف خودکار اَنداز میں درج (ریکارڈ) ہو سکتی ہے بلکہ اُس کے ساتھ دفتر میں آنے اور جانے کا وقت بھی ریکارڈ (محفوظ) ہو جاتا ہے اور اگر زیادہ شفافیت مقصود ہو تو خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں شمسی توانائی کی طاقت سے چلنے والے بائیومیٹرکس شناختی آلات ہر دفتر میں نصب کی جاسکتی ہیں۔ جن کو صوبائی دارالحکومت پشاور میں رکھے ہوئے مرکزی نظام سے جوڑا جا سکتا ہے اور اگر کوئی اہلکار بناء اطلاع غیرحاضر رہنے کا ’عادی مجرم‘ ہے یا دفتری اُوقات کے دوران کم اَز کم جسمانی طور پر اپنی نشست پر نہیں پایا جاتا تو اُس کی ماہانہ تنخواہ اور مراعات کی اَزخود اَدائیگی کمپیوٹر کی مدد سے روکی جا سکتی ہے۔ دفاتر میں استعمال ہونے والے بجلی و ٹیلی فون کے ماہانہ بلوں کی نگرانی (مانیٹرنگ) کے لئے بھی ’ای گورننس‘ کارآمد ’ہتھیار (ٹول)‘ ہے اور اگر کسی دفتر میں اچانک بجلی زیادہ استعمال ہونے لگے تو کمپیوٹر ہزاروں میں سے ایسے کسی ایک بجلی کنکشن کی بھی نشاندہی کرسکتا ہے‘ جو اپنی اوسط سے زیادہ یونٹ خرچ کر رہا ہو۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ جن سکولوں کالجوں اور جامعات (تعلیمی اداروں) میں موسم گرما کی تعطیلات ہیں‘ وہاں کے یوٹیلٹی بلز بھی ہزاروں میں آ رہے ہیں؟
کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اور کبھی نہ کبھی ہر سرکاری ملازم وسائل و اختیارات کا غلط استعمال ضرور کرتا ہے کیونکہ اُس کی نگرانی کا نظام کمزور ہے۔ کیونکہ سزا و جزا کا تصور عملی طور پر موجود نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سرکاری ملازم بننے کے بعد اُس کے خلاف زیادہ سے زیادہ یہی محکمانہ کاروائی ہو سکتی ہے کہ اُس کی خدمات کسی دور دراز ضلع کو بھیج دی جائیں گی اُور چونکہ سرکاری ملازمین کی اکثریت اِس قدر یتیم نہیں ہوتی کہ اُن پر کسی سیاست دان کے ہاتھ کا سایہ نہ ہو‘ اِس لئے معاون سے لیکر سیکرٹری تک خیبرپختونخوا کے کم وبیش چار لاکھ سرکاری ملازمین اُس تاخیر (وقفے) سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جو ’ای گورننس‘ کے رائج ہونے کی راہ میں حائل ہے۔

جب ایک نہ ایک دن اور کسی نہ کسی نے مکمل طور پر ’ای گورننس‘ رائج کرنی ہی ہے اور ٹیکنالوجی دوست ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی صوبائی حکومت بائیومیٹرکس تنصیب کا مرحلہ وار آغاز بھی کر چکی ہے تو نظام مرتب کرتے ہوئے اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ اِس میں وسعت (ایکسپینشن) کی گنجائش موجود رہے اور تمام سرکاری ملازمین چاہے اُن کا تعلق کسی بھی محکمے سے ہو‘ فنانس اور آڈیٹر جنرل آفسیز کو اُن کی کم از کم حاضری کا تو علم ہونا ہی چاہئے لیکن جہاں ’نظام کو بہتر بنانے کے لئے سوچ بچار اُور پوچھنے (استفسار کرنے) والوں کی اپنی توجہات اُور اپنی ذات یا سیاسی مفادات کے گرد گھومنے والی ترجیحی ترجیحات ہوں‘ وہاں سرکاری اِداروں کی ناقص کارکردگی اُور سرکاری وسائل (دفاتر میں فراہم کردہ سہولیات‘ رہائشگاہوں‘ گاڑیوں) کا یوں بیجا استعمال ہونے پر تعجب کا اظہار بذات خود ’تعجب خیز‘ ہے۔

سرکاری ملازمین کی کارکردگی بہتر بنانا تو دُور کی بات صرف معمول پر لانے ہی کو اگر ہدف بنا لیا جائے تو اِس ہدف کا ہرممکن و ہرممکنہ و بہرصورت حصول ضروری ہے ’بہتر طرز حکمرانی (گڈ گورننس)‘ کے خواب کی تعبیر بناء ٹیکنالوجی (ای گورننس) ممکن نہیں۔
E Governance a dream yet to make reality

No comments:

Post a Comment