Sunday, June 28, 2015

Jun2015: VIP culture & the verdict!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قومی راز!
پاکستان میں آمدنی پر محصول (ٹیکس) اَدا کرنے والوں کی اکثریت اُن ملازمین پر مشتمل ہے جن کی ماہانہ تنخواہوں سے ’ایٹ سورس‘ ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اُور اُن کے پاس اِس ٹیکس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو حسب آمدن ٹیکس ادا نہیں کرتا اور وفاقی وزارت خزانہ (ایف بی آر) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’بیس کروڑ آبادی کے پاکستان میں صرف 0.5فیصد لوگ اِنکم ٹیکس اَدا کرتے ہیں۔‘‘ اگرچہ ’ایف بی آر‘ نے خطے کے دیگر ممالک میں انکم ٹیکس ادا کرنے کی شرح کا ذکر نہیں کیا لیکن اگر بھارت پر نظر کی جائے تو وہاں دو سے تین فیصد جبکہ چین کی کل آبادی کا 20فیصد اپنے حصے کا انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ عجب ہے کہ پاکستان کے 1070 قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین میں سے نصف تعداد ایسی ہے جن کا ادا کردہ انکم ٹیکس درجۂ چہارم کے ملازمین سے بھی کم ہوتا ہے لیکن اُن کی ٹھاٹھ باٹھ اور شاہانہ رہن سہن کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ مسلط طبقات قومی وسائل کو ذاتی اثاثوں میں منتقل کرنے اور اپنی مشتبہ آمدنی کے وسائل پر ’انکم ٹیکس‘ ادا نہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں‘ عام آدمی کا اِس پورے نظام پر اعتماد نہیں رہا جسے بحال کرنے کی ایک کوشش اگرچہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی لیکن ’سپرئم کورٹ‘ کی جانب سے ایک مثبت بات سامنے آئی ہے کہ ’’وزیراعظم ہاؤس‘ ایوان صدر‘ گورنروں کی سرکاری رہائشگاہوں‘ اِن سے وابستہ افراد (ملازمین و مشیروں) کے اخراجات اور عوام کے پیسوں پر حکومتی اہلکاروں کی مراعات سے متعلق تفصیلات اب خفیہ نہیں رکھی جا سکیں گی اور انہیں حکومتی پالیسی کا حصہ و سیاسی معاملہ قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘ جسٹس عظمت سعید نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’سپرئم کورٹ عام طور پر ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی لیکن سرکاری وسائل عوام کی امانت ہیں۔‘‘ افسوسناک ہے کہ پاکستان لائرز فورم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے درخواست گزار کے دلائل چاہیں کتنے ہی وزن دار (منطقی) کیوں نہ ہوں‘ عدالت خود کو اس معاملے میں ملوث نہیں کرسکتی! یاد رہے کہ ’ستائیس نومبر دو ہزار دو‘ کو بھی لاہور ہائی کورٹ نے اسی طرح کی ایک درخواست کو خارج کر دیا تھا۔ اکتیس مارچ دو ہزار پندرہ کو دیئے گئے مختصر فیصلے میں تین رکنی بینچ جس میں جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس مشیر عالم بھی شامل تھے‘ جنہوں نے اہلیت پر نہ ہونے کی بنیاد پر درخواست کو مسترد (واپس) کیا تھا۔ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے ’اے کے ڈوگر‘ نے مؤقف اختیار کیا کہ ’’سرکاری اہلکاروں کو مہنگی گاڑیوں‘ بڑے بڑے گھر اور دیگر سہولیات کے ذریعے پرتعیش طرز زندگی فراہم کرنا نہ صرف غیر اسلامی اور غیر آئینی ہے بلکہ یہ پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ ریاست کے تمام اثاثے‘ فنڈز اور جائیداد (پراپرٹی) پاکستان کی عوام کے مفاد کے لئے ہیں‘ سرکاری اہلکاروں کے لئے نہیں‘ انہیں یہ سب صرف اس لئے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کو فائدہ پہنچائیں!‘‘ سماعت کے دوران کونسل کا مؤقف تھا کہ سرکاری حکام پر خرچ ہونے والی رقم کو عوام کے مفاد میں استعمال میں ہونی چاہئے۔ ان کے مطابق سرکاری حکام اور پاکستان کے ایک عام آدمی کے لائف اسٹائل میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جو کہ امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور اس سے عام آدمی کی عزت نفس بھی متاثر ہوتی ہے۔

 چھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں سپرئم کورٹ نے اعتراف کیا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوامی پراپرٹی پبلک ٹرسٹ ہے جو سرکاری حکام کے ہاتھ میں ہے تاہم عدالت نے کہا کہ سرکاری حکام کو مراعات دینے کا معاملہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے اور عدالت عام طور پر اس میں مداخلت نہیں کرتی۔ جب تک ہم اِس بات کا فیصلہ نہیں کر لیتے کہ سرکاری وسائل ایک امانت ہیں اور اُن سے بطور حکمراں استفادہ کرنے والوں کو دیانت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اُس وقت تک انکم ٹیکس کے نظام سمیت سرکاری اداروں کی خدمات کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی۔ اب اگر سوال یہ ہے کہ صادق و امین قیادت کہاں سے آئے گی تو اس کے لئے ’الیکشن کمیشن‘ کے قواعد واضح ہیں‘ جس میں انتخابی اُمیدواروں کی اہلیت کی کڑی شرائط موجود ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا! اگر سپرئم کورٹ جیسا معزز ادارہ ’صداقت و امانت‘ کی وضاحت کرنے میں مصلحت کا شکار ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود بھی مراعات یافتہ طبقات میں شامل ہے لیکن اگر اُمید کی کوئی ایک کرن ہے تو ’الیکشن کمیشن‘ کی خودمختاری یقینی بنانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف اپنی ہم خیال سول سوسائٹی کے ذریعے جدوجہد کرے تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

پس تحریر: خالصتاً رضائے الٰہی کے لئے بھوک و پیاس کی شدت کے باوجود ’صبر و استقامت‘ اختیار کرنے کا نام ’روزہ‘ ہے‘ جسے شعوری‘ فکری اُور عملی طور پر اختیار کرنے کے الگ الگ تقاضے ہیں۔ روزے کا ایک مقصد اُن لوگوں کی بھوک پیاس اور محرومیوں کا احساس بھی کرنا ہے جو محض مالی وسائل نہ ہونے کے سبب کھانے پینے جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں لیکن عمومی طور پر مشاہدہ یہی ہے کہ سب سے زیادہ اشیائے خوردونوش ماہ رمضان کے دوران ضائع ہوتی ہیں۔ دو روز متواتر گھر سے باہر افطاری کا موقع ملا تو دسترخوان پر ہر اُس نعمت کو موجود پایا جس کے بارے میں تصور ممکن تھا۔ انواع و اقسام کے ذائقے اور لذت کا بطور خاص اہتمام اس بات کا ثبوت تھا کہ میزبان کی مالی حیثیت کسی بھی طرح معمولی نہیں تھی لیکن یہی سب کچھ بہت سادگی اور ایک تہائی سے بھی کم اخراجات میں ممکن تھا۔

اسلامی عبادات کا مقصد اجتماعیت اور اجتماعیت کا حاصل سماج سے اجنبیت کا نام ونشان ختم کرنا ہے لیکن ہم نہ تو ’اجنبیوں‘ کو اپنے دسترخوان (مائدہ) کے قریب آنے دیتے ہیں اور نہ ہی رب تعالیٰ کے فضل سے حاصل کردہ نعمتوں کو مل بانٹنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ فطرانہ ادا کرتے ہوئے بھی کم سے کم شرح معلوم کرنے کوشش کرتے ہیں اور پھر اُسی محترم کی تقلید کرتے ہیں جو دوسروں کے مقابلے سب سے کم فطرانہ مقرر کرے۔ وسیع القلبی کے ساتھ عبادات کی روح پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ اطمینان اور خوشحالی کے لئے ہر کس و ناکس سرگرداں ہے اور بھٹکتا ہی رہے گا جب تک کہ ’حئی علی الفلاح‘ میں پنہاں مفہوم کو سمجھ نہیں لیا جاتا! ’’یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ پیوند۔۔۔بتان وہم و گماں‘ لا الہ الا اللہ!‘‘

No comments:

Post a Comment