Power
حکمراں ترجیحات
حکمراں ترجیحات
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے جن علاقوں میں حالیہ چند
دنوں میں ہلاکتیں ہوئی ہیں اُن کی وجوہات میں واضح طور پر فرق ہے۔ گرمی کی
لہر کے سبب ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ گرمی ایک موسمی شدت کا نام ہے جو قدرت کی
طرف سے ہوتی ہے جبکہ ہلاکتیں اِس وجہ سے ہوئیں کیونکہ حکومت اور ادارے عوام
کو سہولیات میسر نہیں کرسکے اور ہمارے ہاں جمہوریت کا اَلمیہ یہ ہے کہ اِس
کے ذریعے عام آدمی کی مشکلات اُور دیکھے اَن دیکھے خطرات کا نہ تو مقابلہ
کیا جاتا ہے اور نہ ہی پہلے سے ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ آنے والے خطرات
سے بہ احسن نمٹا جا سکے۔ گرمی کی لہر کو روکنا ممکن نہیں لیکن اس سے ہونے
والی جانی و مالی نقصان ضرور کم کئے جا سکتے ہیں۔ گرمی قدرت کی طرف سے ہے
لیکن گرمی سے ہونے والی ہلاکتیں ناقص انتظامات کے سبب۔تصور کیجئے کہ حکومت
ہزاروں کی تعداد میں اپنے ہی لوگوں کی ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار ہے۔
یاد رہے کہ گرمی کی لہر سے کوئی امیر آدمی ہلاک نہیں ہوا‘ صرف غریب لوگ مرے ہیں۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ کسی ایک شہر یا علاقے میں پڑنے والی گرمی سے ہوئی ہلاکتوں کا سبب موسم کی شدت نہیں بلکہ غربت ہے۔ حکومت اپنی ریاست میں رہنے والے غریبوں کی جان بچانے میں ناکام رہی۔ گرمی کی لہر کیا ہوتی ہے جب ہوا کا بہت زیادہ دباؤ پیدا جو 10 ہزار فٹ سے 25ہزار فٹ کے درمیان ہو اور یہ دباؤ کسی ایک علاقے پر کئی دن تک برقرار رہے۔
ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جس کے بارے میں موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صدی کے دوران ’گرمی کی شدید لہریں‘ آئیں گی۔ اِس موسمی پیشنگوئی کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ اس سے متاثر ہونے والوں میں نہ صرف بزرگ بلکہ جوان اور بیمار آئیں گے جنہیں پہلے سے خبردار کیا جا سکتا ہے اور گرمی کی لہر سے متوقع طور پر متاثر ہونے والے طبقات کو بچانے کے لئے تدابیر بھی بہت آسان ہیں کہ سب سے پہلے گرمی کی لہر کا سامنا کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ پانی یا محلول اشیاء کا استعمال کرنا چاہئے اور براہ راست دھوپ سے گریز کرتے ہوئے نسبتاً ٹھنڈے مقامات پر رہنا چاہئے۔ بالخصوص ایسے مقامات پر رہنے سے گریز کرنا چاہئے جہاں ہوا کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہو۔
بھارت کے شہر احمد آباد میں گرمی کی لہر آنے سے متعلق محکمہ موسمیات نے پیشنگوئی کی تو وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے گرمی کی شدت سے متعلق نہ صرف عوام میں شعور عام کیا بلکہ اداروں نے پہلے سے تیاری بھی کی اور باوجود شدید ترین گرمی کے بھی وہاں صرف 7 افراد کی ہلاک ہوئے۔
سوال: کراچی میں لو لگنے والوں کے لئے علاج کے خصوصی مراکز کس نے قائم کئے؟ جواب: سندھ رینجرز نے۔ ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح سول حکومت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں رکھتی اور آفت چاہے قدرتی ہی کیوں نہ ہو‘ اُسے اِس شدت تک لیجایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کمائی کی جاسکے۔
توجہ کیجئے کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو دیئے جانے والے سالانہ مالی سال کا تناسب اگر آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ 2 روپے فی پاکستانی (بشمول بچوں اور خواتین) سالانہ بنتی ہے! اُور دوسری طرف مالی سال 2015-16ء کے دوران وزیراعظم کے غیرملکی دوروں کے لئے 46لاکھ روپے یومیہ رکھے گئے ہیں اور یہ رقم پورے سال کے حساب سے مختص کر دی گئی ہے!
اب جائزہ لیجئے کہ اصل حکومت میں کون ہے؟ حکمرانی کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ 1: اپنے اردگرد کو تبدیل کرنے کی صلاحیت و شرط۔ 2: دیگر ریاستی اداروں کو متحرک و فعال کرنے اُور اُن پر اثرورسوخ اُور 3: کہ حکومت میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ غیرملکی طاقتوں سے اپنے حق میں مفادات حاصل کر سکے۔
سوال: حکمرانی کے اِن تین بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچئے کہ ہماری حکومت کے پاس اِن میں سے کتنے اختیارات ہیں
فوج کا ادارہ دو ستونوں پر ایستادہ ہے۔ 1: بلاواسطہ حکمرانی (اختیارات) اور بلاواسطہ حکمرانی (اختیارت و ملکی فیصلہ سازی میں شمولیت)۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی طاقت بھی دو ستونوں پر استوار ہے۔ ایک تو اُسے 1 کروڑ 48لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ ملے ہیں جس کی بنیاد پر اُسے 189 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور ایوان بالا میں اُس کے 26 سینیٹرز ہیں۔ نواز شریف کی ذاتی مقبولیت کا بھی مسلم لیگ کو فائدہ حاصل ہے۔
مئی 2011ء سے جون 2015ء کے عرصہ میں پاک فوج کے ادارے کی مستقل (ہارڈ) قوت (افرادی شمار‘ اسلحہ آلات و گاڑیوں وغیرہ) میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ وہی لوگ ہیں اور وہی نظام۔ 2مئی 2011ء کے دن جب ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ کے خلاف امریکہ نے کاروائی کی‘ اُس دن فوج کے ادارے کی مخفی یا جزوی طاقت (سافٹ پاور) سب سے کم ترین سطح پر تھی۔
اُنتیس نومبر 2013ء کے دن جب جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں تو اُس وقت سے پاک فوج کی ’سافٹ پاور‘ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ پندرہ جون دو ہزار چودہ کے دن جب آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اعلان کیا کہ غیرملکی اور ملکی دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے تو اُس دن ’جی ایچ کیو‘ کی ’سافٹ پاور‘ میں مزید اضافہ ہونا شروع ہو گئی! 28جون 2015ء کے دن تک ’جی ایچ کیو‘ کی ’سافٹ پاور‘ گذشتہ کئی دہائیوں میں بلند ترین سطح اُور اپنے عروج کو چھو رہی ہے!
خلاصۂ کلام: حکمراں جماعت کی ’سافٹ پاور‘ میں کمی جبکہ پاک فوج کے ادارے کی ’سافٹ پاور‘ میں اضافہ ہورہا ہے اور اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت خسارے جبکہ فوج کا ادارہ حالات کو اپنے حق میں کئے ہوئے ہے اور اس کی مقبولیت تاریخ کی بلند ترین سطحوں کو چھو رہی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
یاد رہے کہ گرمی کی لہر سے کوئی امیر آدمی ہلاک نہیں ہوا‘ صرف غریب لوگ مرے ہیں۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ کسی ایک شہر یا علاقے میں پڑنے والی گرمی سے ہوئی ہلاکتوں کا سبب موسم کی شدت نہیں بلکہ غربت ہے۔ حکومت اپنی ریاست میں رہنے والے غریبوں کی جان بچانے میں ناکام رہی۔ گرمی کی لہر کیا ہوتی ہے جب ہوا کا بہت زیادہ دباؤ پیدا جو 10 ہزار فٹ سے 25ہزار فٹ کے درمیان ہو اور یہ دباؤ کسی ایک علاقے پر کئی دن تک برقرار رہے۔
ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جس کے بارے میں موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صدی کے دوران ’گرمی کی شدید لہریں‘ آئیں گی۔ اِس موسمی پیشنگوئی کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ اس سے متاثر ہونے والوں میں نہ صرف بزرگ بلکہ جوان اور بیمار آئیں گے جنہیں پہلے سے خبردار کیا جا سکتا ہے اور گرمی کی لہر سے متوقع طور پر متاثر ہونے والے طبقات کو بچانے کے لئے تدابیر بھی بہت آسان ہیں کہ سب سے پہلے گرمی کی لہر کا سامنا کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ پانی یا محلول اشیاء کا استعمال کرنا چاہئے اور براہ راست دھوپ سے گریز کرتے ہوئے نسبتاً ٹھنڈے مقامات پر رہنا چاہئے۔ بالخصوص ایسے مقامات پر رہنے سے گریز کرنا چاہئے جہاں ہوا کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہو۔
بھارت کے شہر احمد آباد میں گرمی کی لہر آنے سے متعلق محکمہ موسمیات نے پیشنگوئی کی تو وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے گرمی کی شدت سے متعلق نہ صرف عوام میں شعور عام کیا بلکہ اداروں نے پہلے سے تیاری بھی کی اور باوجود شدید ترین گرمی کے بھی وہاں صرف 7 افراد کی ہلاک ہوئے۔
سوال: کراچی میں لو لگنے والوں کے لئے علاج کے خصوصی مراکز کس نے قائم کئے؟ جواب: سندھ رینجرز نے۔ ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح سول حکومت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں رکھتی اور آفت چاہے قدرتی ہی کیوں نہ ہو‘ اُسے اِس شدت تک لیجایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کمائی کی جاسکے۔
توجہ کیجئے کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو دیئے جانے والے سالانہ مالی سال کا تناسب اگر آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ 2 روپے فی پاکستانی (بشمول بچوں اور خواتین) سالانہ بنتی ہے! اُور دوسری طرف مالی سال 2015-16ء کے دوران وزیراعظم کے غیرملکی دوروں کے لئے 46لاکھ روپے یومیہ رکھے گئے ہیں اور یہ رقم پورے سال کے حساب سے مختص کر دی گئی ہے!
اب جائزہ لیجئے کہ اصل حکومت میں کون ہے؟ حکمرانی کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ 1: اپنے اردگرد کو تبدیل کرنے کی صلاحیت و شرط۔ 2: دیگر ریاستی اداروں کو متحرک و فعال کرنے اُور اُن پر اثرورسوخ اُور 3: کہ حکومت میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ غیرملکی طاقتوں سے اپنے حق میں مفادات حاصل کر سکے۔
سوال: حکمرانی کے اِن تین بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچئے کہ ہماری حکومت کے پاس اِن میں سے کتنے اختیارات ہیں
فوج کا ادارہ دو ستونوں پر ایستادہ ہے۔ 1: بلاواسطہ حکمرانی (اختیارات) اور بلاواسطہ حکمرانی (اختیارت و ملکی فیصلہ سازی میں شمولیت)۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی طاقت بھی دو ستونوں پر استوار ہے۔ ایک تو اُسے 1 کروڑ 48لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ ملے ہیں جس کی بنیاد پر اُسے 189 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور ایوان بالا میں اُس کے 26 سینیٹرز ہیں۔ نواز شریف کی ذاتی مقبولیت کا بھی مسلم لیگ کو فائدہ حاصل ہے۔
مئی 2011ء سے جون 2015ء کے عرصہ میں پاک فوج کے ادارے کی مستقل (ہارڈ) قوت (افرادی شمار‘ اسلحہ آلات و گاڑیوں وغیرہ) میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ وہی لوگ ہیں اور وہی نظام۔ 2مئی 2011ء کے دن جب ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ کے خلاف امریکہ نے کاروائی کی‘ اُس دن فوج کے ادارے کی مخفی یا جزوی طاقت (سافٹ پاور) سب سے کم ترین سطح پر تھی۔
اُنتیس نومبر 2013ء کے دن جب جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں تو اُس وقت سے پاک فوج کی ’سافٹ پاور‘ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ پندرہ جون دو ہزار چودہ کے دن جب آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اعلان کیا کہ غیرملکی اور ملکی دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے تو اُس دن ’جی ایچ کیو‘ کی ’سافٹ پاور‘ میں مزید اضافہ ہونا شروع ہو گئی! 28جون 2015ء کے دن تک ’جی ایچ کیو‘ کی ’سافٹ پاور‘ گذشتہ کئی دہائیوں میں بلند ترین سطح اُور اپنے عروج کو چھو رہی ہے!
خلاصۂ کلام: حکمراں جماعت کی ’سافٹ پاور‘ میں کمی جبکہ پاک فوج کے ادارے کی ’سافٹ پاور‘ میں اضافہ ہورہا ہے اور اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت خسارے جبکہ فوج کا ادارہ حالات کو اپنے حق میں کئے ہوئے ہے اور اس کی مقبولیت تاریخ کی بلند ترین سطحوں کو چھو رہی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
![]() |
Power by Dr Farrukh Saleem |
No comments:
Post a Comment