ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کافی‘ ناکافی!
کافی‘ ناکافی!
خود ستائش پر مبنی اطمینان اور حقیقت پسندی دو الگ چیزیں ہیں؟ تعلیم کے
شعبے میں پائیدار ترقی اور خواندگی کے ہمارے اپنے ہی مقرر کردہ اہداف کس حد
تک قابل بھروسہ ہیں‘ کیونکہ سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم یا پرائمری کی سطح
پر فارغ التحصیل ہونے والوں کو خواندہ شمار تو کر لیا جاتا ہے لیکن ایسے
بہت سے بچے ہمارے درمیان موجود ہیں‘ جنہیں چند فقرے پڑھنے یا اپنا نام
لکھنے میں دشواری پیش آتی ہے! بہت کچھ کرنے کی لگن میں ’آگے دوڑ اور پیچھے
چھوڑ‘ والی صورتحال درپیش ہے لیکن اِس میں صرف صوبائی حکومت کو ہی ذمہ دار
نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جہاں سرکاری اداروں کے اَساتذہ کی اکثریت درس و
تدریس سے جڑی اپنی حساس ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی سے زیادہ ’ملازمت‘
مراعات اُور اپنی سہولت‘ کی فکر میں رہتی ہو‘ وہاں حاصل ہونے والے ’تعلیمی
و غیرتعلیمی نتائج‘ بھلا کیسے مختلف (برآمد) ہو سکتے ہیں!
مالی سال 2015-16ء کا کل (یکم جولائی) سے آغاز ہونے والا ہے اور نئے مالی سال میں خیبرپختونخوا نے دیگر صوبوں پر سبقت لیجاتے ہوئے پرائمری سکولوں میں طالب علموں کو اشیائے خوردونوش فراہم کرنے کے لئے 10 کروڑ (ایک سو ملین) روپے مختص کئے ہیں۔ یہ ضرورت اِس لئے پیش آئی ہے کیونکہ اگرچہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’غربت‘ زیادہ ’سنگین‘ نہیں لیکن برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو سرکاری پرائمری سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں‘ اُن کی اکثریت کے پاس صبح کے ناشتے کے لئے مالی وسائل نہیں ہوتے! اور کئی ایک اضلاع سے متعلقہ حکام کو بتایا گیا کہ پرائمری سکول کے بچے بھوک و پیاس کی شدت کے باعث بے ہوش ہو جاتے ہیں! لیکن کیا خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے 10کروڑ روپے مختص کرنا کافی ہوگا جبکہ پرائمری سکولوں میں کم و بیش 30لاکھ بچے زیرتعلیم ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ حکومت اپنے تیسرے مالی سال کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ پہلے اُور دوسرے مالی سال میں تعلیم و صحت کے شعبے میں اربوں روپے مختص کئے گئے (ماشاء اللہ) لیکن سال کے اختتام تک خرچ نہیں کئے جاسکے (انا للہ وانا علیہ راجعون)۔ ایسے بہت سے شعبے ہیں جن کے لئے فراخدالانہ انداز میں مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں لیکن جب بات پرائمری کی سطح پر بچوں کو خوراک فراہم کرنے کی تھی تو اِس قدر واجبی رقم مختص کی گئی ہے جو مضحکہ خیز حد تک کم بھی ہے اور ناکافی بھی! بہرکیف رابطہ کرنے پر بنیادی و ثانوی تعلیم کے محکمے کی جانب سے وضاحت پیش کی گئی ہے کہ ’’پرائمری کی سطح پر بچوں کو ’ہائی انرجی بسکٹ‘ اُور جوس فراہم کئے جائیں گے جس پر فی بچہ چالیس روپے لاگت آئے گی۔‘‘ حکام کو توقع نہیں بلکہ یقین ہے کہ ’’رواں برس موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جب سکول کھلیں گے تو مفت کتابوں اور دیگر سہولیات کے ساتھ بچوں کو مفت خوراک کی کشش سکول کی طرف راغب کرے گی اور وہ بچے جو کسی وجہ سے پرائمری سکول نہیں جارہے وہ بھی بڑی تعداد میں سکولوں کا رُخ کریں گے۔‘‘ اگر ہم اِس منطق کو درست تسلیم کرلیں تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کی موجودہ تعداد کے پیش نظر مختص کی جانے والی رقم کافی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کو مصنوعی ذائقوں اور رنگ والا جوس فراہم کیا جائے گا‘ جو کسی بھی صورت کم عمروں کی صحت کے لئے مفید نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو پرائمری کی سطح پر اگر خوراک دی جاتی ہے تو وہ مصنوعی اجزأ سے پاک ہوتی ہے اور بچوں کی جسمانی نشوونما و دیگر ضروریات بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ’ہائی انرجی بسکٹ‘ کی بجائے اگر سرخ لوبیا‘ آلو‘ کیلا اُور ملاوٹ سے پاک میٹھے دودھ کا ایک گلاس یا پینے کا ’وہی‘ صاف پانی فراہم کیا جائے جو اکثر حکومتی اجلاسوں کے دوران سیاست دانوں کے سامنے ڈھکن لگی ہوئی بوتلوں میں پڑا ہوتا ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ منرل واٹر کی بوتلیں محکمہ تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں کے لئے تو ہیں لیکن بچوں کے لئے نہیں‘ آخر کیوں؟
محکمہ بنیادی و ثانوی تعلیم کی ویب سائٹ پر موجودہ سال 2013-14ء کے اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں تیس لاکھ سے زیادہ بچے پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم ہیں لیکن یہ اعدادوشمار حکومت کی جانب سے اُس بڑے پیمانے پر شروع کی گئی ’داخلہ مہم‘ سے پہلے کے ہیں‘ جس کی کامیابی کے بلند بانگ دعوؤں کو اگر درست مان لیا جائے تو کم اَز کم مزید پانچ سے دس لاکھ بچے صوبے کے طول و عرض کے پرائمری سکولوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ختم ہو رہے مالی سال کے دوران ’گھر آیا اُستاد‘ نامی حکمت عملی کے تحت 8 لاکھ بچوں کو سکول لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اُور اگرچہ ہمیں سرکاری پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی موجودہ مستند تعداد کا علم نہیں لیکن یقیناًیہ تعداد پینتیس لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ ہمارے ہاں تعلیمی سال (تین سو پینسٹھ کا نہیں) بلکہ زیادہ سے زیادہ 200 دن کا ہوتا ہے۔ پرائمری سکول کے بچوں کی تعداد اُور مختص رقم کا تناسب دیکھا جائے تو صرف 12 ہزار پانچ سو بچوں کو 200دن تک ’بسکٹ اُور جوس‘ دیا جاسکے گا۔ اگر حکومت تیس لاکھ کی بجائے انتہائی پسماندہ اضلاع میں صرف پچاس ہزار پرائمری سکول میں زیرتعلیم بچوں کے لئے ایک وقت کی خوراک کا بندوبست کرے تو چھبیس دنوں کے مہینے کے لئے 5 کروڑ 20 لاکھ روپے درکار ہوں گے جبکہ ایک لاکھ بچوں کے لئے 10کروڑ چالیس لاکھ روپوں کی ضرورت ہوگی جو مختص رقم سے زیادہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا بچوں کو صرف اُسی وقت خوراک دی جائے جبکہ وہ سکول جائیں لیکن جب سکول کی چھٹی ہو یا طویل تعطیلات ہوں تو اُس دوران بچوں کی خوردنی ضروریات کا خیال کون رکھے گا جبکہ والدین پہلے ہی کفالت کرنے سے عملاً معذوری کا اظہار کر چکے ہیں! اِس بات کی ضمانت (گارنٹی) کون دے گا کہ دور دراز اضلاع کے دیہی علاقوں میں جو خوراک پرائمری سکول کے بچوں کے لئے ارسال کی جائے گی‘ وہ مستحق بچوں تک پہنچ پائے گی؟ ہمارا ماضی ایسا بدنما مثالوں سے بھرا پڑا ہے جب زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے لئے اِمدادی سازوسامان میں خوب خردبرد کی گئی۔
صوبائی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ حکمت عملی وضع کرنے سے زیادہ اُس کی تکمیل اور شفافیت بھی یکساں ضروری و لازمی حاجتیں ہیں۔
یاد رہے کہ مالی سال 2015-16ء کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے بنیادی (پرائمری) و ثانوی (سیکنڈری) تعلیم کے شعبے میں 71 منصوبوں کے لئے 10.2 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اِس رقم میں سے 2.24 ارب روپے 22 نئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے اُور حکومت مصمم ارادہ رکھتی ہے کہ نئے مالی سال کے دوران 150نئے پرائمری سکول‘ 100نئے سیکنڈری سکول‘ 50مڈل سکولوں کی اپ گریڈیشن اور طالبات کے لئے 50 ہائی سکول تعمیر کرے گی۔ علاؤہ ازیں کمپیوٹر لیبارٹریز اور نئی کیمونٹی سکولز بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں پرائمری سکولوں کے لئے مختص مالی وسائل کافی بھی ہیں اور بیک وقت ناکافی بھی تو کیا اَرباب اِختیار ’شعبۂ تعلیم‘ سے ’حقیقی و معنوی انصاف‘ کر رہے ہیں؟
مالی سال 2015-16ء کا کل (یکم جولائی) سے آغاز ہونے والا ہے اور نئے مالی سال میں خیبرپختونخوا نے دیگر صوبوں پر سبقت لیجاتے ہوئے پرائمری سکولوں میں طالب علموں کو اشیائے خوردونوش فراہم کرنے کے لئے 10 کروڑ (ایک سو ملین) روپے مختص کئے ہیں۔ یہ ضرورت اِس لئے پیش آئی ہے کیونکہ اگرچہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’غربت‘ زیادہ ’سنگین‘ نہیں لیکن برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو سرکاری پرائمری سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں‘ اُن کی اکثریت کے پاس صبح کے ناشتے کے لئے مالی وسائل نہیں ہوتے! اور کئی ایک اضلاع سے متعلقہ حکام کو بتایا گیا کہ پرائمری سکول کے بچے بھوک و پیاس کی شدت کے باعث بے ہوش ہو جاتے ہیں! لیکن کیا خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے 10کروڑ روپے مختص کرنا کافی ہوگا جبکہ پرائمری سکولوں میں کم و بیش 30لاکھ بچے زیرتعلیم ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ حکومت اپنے تیسرے مالی سال کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ پہلے اُور دوسرے مالی سال میں تعلیم و صحت کے شعبے میں اربوں روپے مختص کئے گئے (ماشاء اللہ) لیکن سال کے اختتام تک خرچ نہیں کئے جاسکے (انا للہ وانا علیہ راجعون)۔ ایسے بہت سے شعبے ہیں جن کے لئے فراخدالانہ انداز میں مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں لیکن جب بات پرائمری کی سطح پر بچوں کو خوراک فراہم کرنے کی تھی تو اِس قدر واجبی رقم مختص کی گئی ہے جو مضحکہ خیز حد تک کم بھی ہے اور ناکافی بھی! بہرکیف رابطہ کرنے پر بنیادی و ثانوی تعلیم کے محکمے کی جانب سے وضاحت پیش کی گئی ہے کہ ’’پرائمری کی سطح پر بچوں کو ’ہائی انرجی بسکٹ‘ اُور جوس فراہم کئے جائیں گے جس پر فی بچہ چالیس روپے لاگت آئے گی۔‘‘ حکام کو توقع نہیں بلکہ یقین ہے کہ ’’رواں برس موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جب سکول کھلیں گے تو مفت کتابوں اور دیگر سہولیات کے ساتھ بچوں کو مفت خوراک کی کشش سکول کی طرف راغب کرے گی اور وہ بچے جو کسی وجہ سے پرائمری سکول نہیں جارہے وہ بھی بڑی تعداد میں سکولوں کا رُخ کریں گے۔‘‘ اگر ہم اِس منطق کو درست تسلیم کرلیں تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کی موجودہ تعداد کے پیش نظر مختص کی جانے والی رقم کافی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کو مصنوعی ذائقوں اور رنگ والا جوس فراہم کیا جائے گا‘ جو کسی بھی صورت کم عمروں کی صحت کے لئے مفید نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو پرائمری کی سطح پر اگر خوراک دی جاتی ہے تو وہ مصنوعی اجزأ سے پاک ہوتی ہے اور بچوں کی جسمانی نشوونما و دیگر ضروریات بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ’ہائی انرجی بسکٹ‘ کی بجائے اگر سرخ لوبیا‘ آلو‘ کیلا اُور ملاوٹ سے پاک میٹھے دودھ کا ایک گلاس یا پینے کا ’وہی‘ صاف پانی فراہم کیا جائے جو اکثر حکومتی اجلاسوں کے دوران سیاست دانوں کے سامنے ڈھکن لگی ہوئی بوتلوں میں پڑا ہوتا ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ منرل واٹر کی بوتلیں محکمہ تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں کے لئے تو ہیں لیکن بچوں کے لئے نہیں‘ آخر کیوں؟
محکمہ بنیادی و ثانوی تعلیم کی ویب سائٹ پر موجودہ سال 2013-14ء کے اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں تیس لاکھ سے زیادہ بچے پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم ہیں لیکن یہ اعدادوشمار حکومت کی جانب سے اُس بڑے پیمانے پر شروع کی گئی ’داخلہ مہم‘ سے پہلے کے ہیں‘ جس کی کامیابی کے بلند بانگ دعوؤں کو اگر درست مان لیا جائے تو کم اَز کم مزید پانچ سے دس لاکھ بچے صوبے کے طول و عرض کے پرائمری سکولوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ختم ہو رہے مالی سال کے دوران ’گھر آیا اُستاد‘ نامی حکمت عملی کے تحت 8 لاکھ بچوں کو سکول لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اُور اگرچہ ہمیں سرکاری پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی موجودہ مستند تعداد کا علم نہیں لیکن یقیناًیہ تعداد پینتیس لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ ہمارے ہاں تعلیمی سال (تین سو پینسٹھ کا نہیں) بلکہ زیادہ سے زیادہ 200 دن کا ہوتا ہے۔ پرائمری سکول کے بچوں کی تعداد اُور مختص رقم کا تناسب دیکھا جائے تو صرف 12 ہزار پانچ سو بچوں کو 200دن تک ’بسکٹ اُور جوس‘ دیا جاسکے گا۔ اگر حکومت تیس لاکھ کی بجائے انتہائی پسماندہ اضلاع میں صرف پچاس ہزار پرائمری سکول میں زیرتعلیم بچوں کے لئے ایک وقت کی خوراک کا بندوبست کرے تو چھبیس دنوں کے مہینے کے لئے 5 کروڑ 20 لاکھ روپے درکار ہوں گے جبکہ ایک لاکھ بچوں کے لئے 10کروڑ چالیس لاکھ روپوں کی ضرورت ہوگی جو مختص رقم سے زیادہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا بچوں کو صرف اُسی وقت خوراک دی جائے جبکہ وہ سکول جائیں لیکن جب سکول کی چھٹی ہو یا طویل تعطیلات ہوں تو اُس دوران بچوں کی خوردنی ضروریات کا خیال کون رکھے گا جبکہ والدین پہلے ہی کفالت کرنے سے عملاً معذوری کا اظہار کر چکے ہیں! اِس بات کی ضمانت (گارنٹی) کون دے گا کہ دور دراز اضلاع کے دیہی علاقوں میں جو خوراک پرائمری سکول کے بچوں کے لئے ارسال کی جائے گی‘ وہ مستحق بچوں تک پہنچ پائے گی؟ ہمارا ماضی ایسا بدنما مثالوں سے بھرا پڑا ہے جب زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے لئے اِمدادی سازوسامان میں خوب خردبرد کی گئی۔
صوبائی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ حکمت عملی وضع کرنے سے زیادہ اُس کی تکمیل اور شفافیت بھی یکساں ضروری و لازمی حاجتیں ہیں۔
یاد رہے کہ مالی سال 2015-16ء کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے بنیادی (پرائمری) و ثانوی (سیکنڈری) تعلیم کے شعبے میں 71 منصوبوں کے لئے 10.2 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اِس رقم میں سے 2.24 ارب روپے 22 نئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے اُور حکومت مصمم ارادہ رکھتی ہے کہ نئے مالی سال کے دوران 150نئے پرائمری سکول‘ 100نئے سیکنڈری سکول‘ 50مڈل سکولوں کی اپ گریڈیشن اور طالبات کے لئے 50 ہائی سکول تعمیر کرے گی۔ علاؤہ ازیں کمپیوٹر لیبارٹریز اور نئی کیمونٹی سکولز بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں پرائمری سکولوں کے لئے مختص مالی وسائل کافی بھی ہیں اور بیک وقت ناکافی بھی تو کیا اَرباب اِختیار ’شعبۂ تعلیم‘ سے ’حقیقی و معنوی انصاف‘ کر رہے ہیں؟
![]() |
Allocation for food in the primary schools is good initiative but not sufficient |
No comments:
Post a Comment