Monday, June 1, 2015

Jun2015: Constructive Democracy!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعمیری‘ شعوری و جمہوری تقاضے
مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے عام انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ نے داخلی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی ہے‘ جو آئندہ چند روز میں رپورٹ چیئرمین عمران خان کو پیش کرے گی اور مذکورہ رپورٹ خفیہ رکھنے کی بجائے اسے عوام کی عدالت میں پیش کرنے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اسی قسم کی تحقیقات مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد بھی کی گئیں لیکن ان کو ’پبلک‘ کرنے سے تحریک کے لئے مشکلات پیدا ہوئیں اور جہاں تک ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بات ہے تو اگر یہ طرزعمل پہلے اختیار کیا گیا ہوتا تو تیس مئی کے انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی نہ ہونے کا ’سانحہ‘ پیش ہی نہ آتا۔ کون نہیں جانتا کہ ہر جماعت کی طرح تحریک انصاف میں بھی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں بے قاعدگیاں ہوئیں اور اِس کے خلاف کئی ایک کارکنوں نے مختلف اضلاع میں احتجاج بھی کیا‘ جسے غیرمنطقی انداز میں خاطر میں نہیں لایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تحریک انصاف کی پارٹی پوزیشن حاصل کردہ نشستوں سے کئی گنا بڑھ کر ہے اور جو نمائندے آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں اُن کی اکثریت بھی تحریک انصاف ہی سے تعلق رکھتی ہے جو ضلعی و تحصیل نظامت کے موقع پر تحریک ہی کا ساتھ دے گی۔ جن حلقوں میں تحریک کے مخالف اُمیدوار کامیاب ہوئے اگر وہاں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو اس ناکامی کے پیچھے ’تحریک کی داخلی دھڑے بندیاں‘ نظرآئیں گی جن سے چھٹکارہ حاصل کئے بناء خیبرپختونخوا میں پارٹی کی مثالی مضبوطی ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں پارٹی فیصلہ سازوں کو اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کو قربان کرنا پڑے گا اور اُن ترجیحات میں تبدیلی لانا ہوگی‘ جو عام کارکنوں کے غم وغصے کاسبب بنتی ہے۔

مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تحریک انصاف کا مقابلہ غیرمتوقع طور پر ’عوامی نیشنل پارٹی‘ سے رہا‘ جس نے ’ڈنکے کی چوٹ‘ پر خیبرپختونخوا میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے اور اگر اسے ’اے این پی‘ کی سیاست میں واپسی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اِسے کہتے ہیں غلطیوں سے سبق سیکھنا۔ اے این پی کی سطح پر بھی مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پارٹی کی کمزور کارکردگی بارے تحقیقات کی گئیں اور اُن تحقیقات کی روشنی میں اختیار کئے جانے والا لائحہ عمل سوفیصد کامیاب ثابت ہوا ہے۔ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو ’اے این پی‘ کے داخلی نظم و ضبط اور نسبتاً خاموش طرزفکروعمل سے سبق سیکھنا چاہئے۔ یہ لمحۂ فکر اُس حکمت عملی کو بھی سمجھنے کا ہے جس کے تحت ’خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کا مفید استعمال کیا گیا۔‘ حقیقت تو یہ ہے کہ ’اے این پی‘ کی کامیابی کے پیچھے بھی تحریک انصاف ہی کا ہاتھ ہے اگر امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری نہ آئی ہوتی تو ’اے این پی‘ کے لئے ایک مرتبہ پھر انتخاب جیتنا ممکن نہ ہوتا۔ پھر کامیابی تو دور کی بات وہ خشوع و خضوع کے ساتھ انتخابات میں حصہ بھی نہ سکتے۔ شکرگزاری کا اظہار دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی ہونا چاہئے لیکن شاید ابھی ہم اُس سیاسی تہذیب سے بہت دور ہیں جہاں سیاسی مخالفین کی کارکردگی کو سراہا جاتا ہے بلکہ ہماری سوچ‘ وسائل اور جملہ توانائیاں تو ایک دوسرے کے کاموں میں کیڑے نکالنے پر ہی خرچ ہو جاتی ہیں!

گردوپیش پر نگاہ کیجئے۔ انتخابات پر منحصر سیاست کو اگر سمجھنا مقصود ہو تو اسے دو درجات ’’ تعمیری و تخریبی‘‘ میں تقسیم کرنے والے اپنے اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ تعلقات اُور بیانات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ’جنگ‘ انتخابات اور سیاست‘ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہر کام جائز ہوتا ہے؟ ہمیں اِس بات پر فخر ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت بحال ہوچکی ہے۔ عام انتخابات کے ذریعے قیادت منتخب ہوتی ہے۔ اقتدار کی کسی حد تک نچلی سطح پر منتقلی کا وعدہ بھی پورا کر دیا گیا ہے لیکن جمہوریت کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں میں برداشت پیدا کریں۔ محض سیاسی اختلافات کی وجہ سے پرتشدد روئیوں کا مظاہرہ‘ توڑپھوڑ اور جانی و مالی نقصانات سے ہم جمہوریت کی خدمت نہیں بلکہ اسے نادانستہ طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی سیاست میں چھوٹا بڑا حصہ رکھنے والی ہر سیاسی جماعت کی قیادت کو ’اصلاحی کردار‘ ادا کرنا ہوگا۔

آگ پر تیل چھڑکنے اور مخالفین کو سبق سکھانے جیسی انتقامی سیاست ترک کرنا بعد کی پشیمانی سے بہتر ہے۔ انسانی جان سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں اور نہ ہی اِس خسارے کا بعدازاں کوئی متبادل ہوسکتا ہے۔ جوش کی بجائے ہوش اور ہوش کی ارتقائی شکل یعنی ’دانشمندی کا مظاہرہ‘ حسب حال ہونا چاہئے۔ جو سیاسی جماعت جتنی زیادہ مقبول و کامیاب ہے معاشرے کو انتہاء پسندی اور تشدد سے باز رکھنے کے لئے اُس کی ذمہ داری بھی اس قدر ہی زیادہ بنتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست میں برداشت کا کلچر متعارف کرانے اور سیاسی مخالفین کو گلے لگا کر سیاست کو تعمیری اَقدار سے روشناس کرانے میں پہل کون کرتا ہے؟
Democracy is all about thinking and reforms

No comments:

Post a Comment