Tuesday, June 2, 2015

Jun2015: Truth about ourselves!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گریباں چاک!
مقامی حکومتوں کے نتائج نے ’دودھ کا دودھ اُور پانی کا پانی‘ کر دیا ہے۔ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد ’تحریک اِنصاف‘ کو حکومت بنانے اور کارکردگی دکھانے کا موقع ملا تو کیا اِس موقع سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا سکا؟ ایک طبقے کا خیال ہے کہ ۔۔۔’’اگر خیبرپختونخوا میں شروع دن سے ترقیاتی عمل کا آغاز کیا جاتا تو مقامی حکومتوں کے انتخابات کے نتائج زیادہ مختلف ہوتے‘‘ لیکن تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کا مؤقف یہ ہے کہ ۔۔۔ ’’قانون ساز ایوانوں کے اراکین کو ترقیاتی عمل سے الگ کرنے کے لئے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کر دی گئی ہے اور اب جو بھی ترقی ہونی ہے اُس کا فیصلہ بلدیاتی نمائندوں نے کرنا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ترقی کا عمل زیادہ پائیدار ثابت ہوگا کیونکہ اس مقامی لوگ اُس ترقی کو اپنا سمجھ کر حفاظت کریں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے گلی سڑکیں‘ نالے نالیاں‘ سبزہ زار اور دیگر سہولیات (تعمیرات) کرائی جاتی ہیں لیکن لوہے کے جنگلے‘ نالیوں کے ڈھکن‘ سٹریٹ لائٹس کے کھمبے حتی کہ پانی کی ٹوٹیاں تک چوری ہو جاتی ہیں۔

لب لباب یہ ہے کہ 1: ترقیاتی حکمت عملی حقیقی ضروریات کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائی جاتی بلکہ سیاسی حامیوں کو خوش کرنے کے فنڈز کی اندھا دھند تقسیم کی جاتی رہی ہے جس سے ایک طبقہ خوش جبکہ متعلقہ علاقے کی اکثریت ناراض ہوتی ہے اور وہ اپنی ناراضگی کا اظہار لاتعلقی یا انتقام کی صورت کرتی ہے۔ 2: سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر تعمیروترقی کا معیار و پائیداری نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نگرانی ایک ایسے طبقے کو سونپی جاتی ہے جو سیاست میں سرمایہ کاری ہی اِس لئے کرتی ہے کہ بعدازاں ترقیاتی حکمت عملیوں کے مختص مالی وسائل سے فائدہ اُٹھائے گی۔ مقامی حکومتوں کے قیام سے کئی ایک ایسے اہداف حاصل ہو پائیں گے‘ جو وقت کی ضرورت ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کی ضلع و تحصیل کی سطح پر سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی تحریک انصاف پہلے نمبر پر ہے لیکن تحریک کو جو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے وہ ’اصولی مؤقف‘ کی بدولت ہے کہ ترقی کے نام پر ماضی کی طرح سرکاری مالی وسائل کا اندھا دھند استعمال نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کی کارکردگی پر پارٹی کی جانب سے نامزدگیوں کے بارے میں فیصلوں پر پیدا ہونے والے اختلافات بھی چھائے رہے تاہم اس قسم کے اختلافات دیگر جماعتوں میں بھی تھے جنہوں نے زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کے علاؤہ حالات کی نزاکت کو بھی سوچا اور سمجھا۔

تحریک اپنے اہداف کتنے حاصل کر پائی‘ اس نتیجے کو قابل فہم بنانے کے لئے ’ہزارہ ڈویژن‘ کے ’پانچ اضلاع‘ کی سطح پر نتائج بطور مثال ملاحظہ کیجئے۔ ’ضلع کونسل‘ کی کل 178 نشستوں میں سے تحریک انصاف نے 74‘ پاکستان مسلم لیگ (نواز) 42‘ آزاد اُمیدواروں نے34‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 11‘ عوامی نیشنل پارٹی نے 6 جبکہ پاکستان عوامی تحریک اُور جماعت اسلامی نے ایک ایک نشست حاصل کی ہے۔ ایبٹ آباد کی 51 یونین کونسلوں سے تحریک انصاف 23‘ نواز لیگ 19‘ آزاد 8‘ جبکہ جماعت اسلامی (تحریک کی اتحادی جماعت) نے ایک نشست حاصل کی ہے۔ ایبٹ آباد شہر کی صورتحال دیکھیں جہاں تحریک کے ضلعی صدر خود بھی آزاد حیثیت سے اپنی ہی جماعت کے خلاف بطور اُمیدوار میدان میں اُترے اور کامیاب رہے اور یہی وجہ ہے کہ اگرچہ وہ آزاد ہیں اِس لئے اُنہیں تحریک ہی کی عددی برتری میں شمار کیا جاتا ہے اور ضلعی نظامت کے لئے علی خان جدون کا کام نسبتاً آسان دکھائی دیتا ہے جنہیں چیئرمین بننے کے لئے زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ انتخابی منظرنامے پر بطور ’ضلعی نظامت‘ ظہور پذیر ہونے والے اِس نوجوان کا سیاسی درخشاں دکھائی دیتا ہے لیکن زیادہ خوش فہمی بھی اچھی نہیں ہوتی اور اعدادوشمار اپنی جگہ حقیقت تو ہوتے ہیں لیکن برسرزمین حقائق میں تبدیلی کو بھی سمجھنا چاہئے جن کاتقاضا یہ ہے کہ ’دلوں پر راج‘ صرف اور صرف خدمت سے ممکن ہے۔ مقامی حکومتوں کا کام آسان نہیں۔ انہیں سرکاری ہسپتالوں کے بہت سے معاملات درست کرنا ہوں گے۔ انہیں تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لئے ضلعی صورتحال میں بہتری لانا ہوگی۔ صحت و تعلیم میں غیراعلانیہ نج کاری نے عام آدمی کو جس طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے‘ اُسے سمجھنا ہوگا۔ اگر صوبائی حکومت کی کوششوں سے سرکاری اداروں کا قبلہ درست کر بھی دیا گیا ہے تو اس کے بارے میں عام آدمی کی رہنمائی کا انتظام اور شکایات کی وصولی سے زیادہ شکایات کے ازالے پر زور ہونا چاہئے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ تیس مئی کو ہوئے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں اگرچہ سیاسی و مذہبی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں لیکن ووٹ صرف اور صرف ’خدمت‘ اور ’کردار‘ کو ملے ہیں۔ ماضی کی سیاست میں انتخابی اُمیدوار ایک دوسرے کا حسب نسب بیان کرتے تھے لیکن اِس مرتبہ دوسروں کی بجائے ہر اُمیدوار کا اپنا گریباں چاک رہا۔ دوسروں سے زیادہ اپنی کارکردگی کے بارے میں خطبات سننے کو ملے‘ یہی مقامی حکومتوں کا حسن ہے جس میں کامیابی اور ناکامی پر مبنی اعدادوشمار سیاسی جماعتوں کا احتساب نہیں بلکہ ’خدمت کی سیاست‘ کی برتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
LG governance & realities

No comments:

Post a Comment