Wednesday, June 3, 2015

Free Internet

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مفت انٹرنیٹ
سماجی رابطہ کاری کے ذریعے خبروں پر تبصرے ہوں یا گردوپیش کے حالات و واقعات کا ایک دوسرے سے تبادلہ‘ انٹرنیٹ کی بدولت تفریح سے لیکر اظہار کے وسیلوں تک ہر شعبے میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہاں تک کہ طرز حکمرانی میں اصلاحات‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور عام انتخابات میں قابل یقین و بھروسہ شفافیت متعارف کرانے کے لئے بھی انٹرنیٹ سے کہیں استفادہ تو کہیں اِس کے بارے غوروخوض جاری ہے لیکن ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کی مقررہ قیمت ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ایسے افراد میں بڑی تعداد طلباء و طالبات کی ہے جو عموماً ایک انٹرنیٹ کنکشن کے بل کو آپس میں تقسیم کرکے سست رفتار انٹرنیٹ سے اپنا شوق یا تحقیق کی ضرورت پورا کرتے ہیں۔

 عالمی سطح پر ’انٹرنیٹ‘ کو پانی‘ ہوا اُور خوراک کی طرح کرہ ارض پر رہنے والے باشعوروں کے لئے ایک بنیادی ضرورت قرار دیا جاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ دو طرح کی تحاریک چل رہی ہیں۔ ایک تحریک انٹرنیٹ کو مفت فراہم کرنے کی وکالت کرتی ہے اور دوسری تحریک انٹرنیٹ پر حکومتوں کے کنٹرول اور کسی بھی وجہ سے سے سنسر (پابندیوں) کی مخالف ہے۔ اِن دونوں تحاریک کی وجہ سے کئی ایک تبدیلیاں آئی ہیں‘ جن میں سرفہرست انٹرنیٹ صارفین کے حقوق ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ موضوعات ’تعارف‘ سے بھی محروم ہیں کیونکہ ایک تو نصاب تعلیم میں نئے موضوعات داخل کرنا ممکن نہیں۔ دوسرا ٹیکنالوجی کے ساتھ اخبارات و جرائد کا رویہ بھی ظالمانہ ہے اور اگر ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ لکھا جاتا بھی ہے تو وہ نت نئے ایجادات کی خبریں ہوتی ہیں کہ فلاں کمپنی نے نیا موبائل ایجاد کر دیا‘ جس کی ان گنت خوبیاں گنوا دی جاتی ہیں!

پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کو جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے‘ ان کی موجودگی میں میں Internet.org کے ذریعے مفت انٹرنیٹ خوشگوار تو ہے لیکن اس کے ساتھ کئی ایک ’لیکن‘ بھی جڑے ہوئے ہیں‘ جنہیں استعمال سے قبل اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ مفت انٹرنیٹ کے حوالے سے پاکستان پہنچنے والا جدید ترین تصور یہ ہے میں ’انٹرنیٹ ڈاٹ اُو آر جی‘ کسی بھی صارف کو مختلف ویب سائٹس تک رسائی دے گا لیکن یہ ویب سائٹس اشتہارات سے بھری ہوں گی اور جو صارف اِن کا استعمال کریں گے اُن کے بارے میں معلومات اور رجحانات کی کہیں نہ کہیں نگرانی ہو رہی ہوگی۔ جو صارفین انٹرنیٹ پر بہت زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکتے‘ یہ ان کے لئے تو سہولت ہے لیکن صرف انٹرنیٹ تک رسائی ہی کو کافی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اہم بات یہ بھی ہے کہ آن لائن ہوتے ہوئے آپ کا ڈیٹا (الفاظ‘ تصاویر‘ ویڈیوز وغیرہ) کس قدر محفوظ ہیں۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کی رہنمائی کی بہت ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کی سطح پر ’انٹرنیٹ ڈاٹ اُو آر جی‘ کے بارے میں آگہی مہمات چلائی جائیں۔ اساتذہ خود بھی سمجھیں اور طلباء و طالبات کی رہنمائی بھی کریں تاکہ وہ انجانے میں غلطی نہ کر بیٹھیں۔ مثال کے طور پر ’انٹرنیٹ اُو آر جی‘ کے ذریعے جن ویب سائٹس یا ایپلی کیشنز تک رسائی مفت دی جائے گی وہ سیکورٹی کی بنیادی شرط SSL کے بغیر ہوں گے مطلب یہ ہے کہ آپ کے پیغامات‘ تصاویر اور دیگر تمام ڈیٹا (کوائف‘ امور معلومہ) خفیہ نہیں ہوگا بلکہ آپ اور آپ کے دوستوں یا عزیزواقارب کے علاؤہ غیر متعلقہ بہت سے دیگر لوگ بھی آپ کے ڈیٹا کو دیکھ رہے ہوں گے۔ تصور کریں کہ آپ انٹرنیٹ پر اپنی پسندیدہ ٹی وی سیریز یا میوزک ویڈیو دیکھ رہے ہیں اور جب بھی آپ اس پر کلک کرتے ہیں تو آپ کا انٹرنیٹ کنکشن کافی حد تک سست ہو جاتا ہے۔ آپ اسکائپ‘ گوگل ہینگ آؤٹ کھولتے ہیں اور جیسے ہی ’کال‘ پر کلک کرتے ہی انٹرنیٹ کی کوالٹی اتنی خراب ہوجاتی ہے کہ آپ بمشکل ہی بات کر پاتے ہیں۔ کیا یہ امر پریشان کن ہے؟ یہ وہ چند امور ہیں جن کی حوصلہ افزائی ’انٹرنیٹ ڈاٹ اُو آر جی‘ نامی تصور کر رہا ہے۔

مستقبل قریب میں ایسے کئی ایک دیگر پلیٹ فارمز بھی متعارف ہونے والے ہیں اور چونکہ ’مفت‘ کا ’لاحقہ‘ لگا ہوتا ہے اِس لئے ہمارے نوجوان اس کی جانب تیزی سے راغب ہو جاتے ہیں!

ذہن نشین رہے کہ انٹرنیٹ کی موجودہ شکل ترقی یافتہ نہیں بلکہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ ایسے بہت سے صارفین ہیں جنہوں نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس کے استعمال سے ’آن لائن عملی زندگی کا آغاز‘ کیا لیکن چند برس بعد ہی اُکتا گئے۔ سبب یہ ہے کہ ہم ’ویب سائٹس‘ کے سطحی و عمومی استعمال سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ دوسری اہم بات سمجھنے لائق یہ ہے کہ اگلی ایک دہائی میں جو ایک ارب لوگ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کریں گے‘ انہیں بڑے کاروباری و تجارتی ادارے اور حکومتیں اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہیں گی۔ چاہے کوئی صارف انٹرنیٹ کی قیمت ادا کرنے کی سکت رکھتا ہو یا وہ اسے مفت استعمال کر رہا ہو‘ آنے والے دنوں میں سب کچھ حکومتوں کے کنٹرول میں ہوگا‘ اور یہی دنیا کا مستقبل ہے‘ جس میں طرز غلامی کو آزادی اور آزادی کے ساتھ غلامی رہے گی۔ نہ کوئی کلی طور پر غلام ہوگا اور نہ ہی آزاد! ادارے اور حکومتیں پہلے ہی پوشیدہ طور پر انٹرنیٹ صارفین کا ڈیٹا (امورمعلومہ) استعمال کر کے منافع کما رہی ہیں یا مکمل طور پر کنٹرول چاہتی تھیں۔ اب ہم کس طرح آپسی رابطے کرتے ہیں‘ یہ فیصلہ بھی جلد ہی ہمارے بس میں نہیں رہے گا!
Nothing is free in the world

No comments:

Post a Comment