Thursday, June 4, 2015

Jun2015: The only way out!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
معنویت: راۂ نجات
ہمیں درختوں کی ضرورت ہے اُور درخت چاہتے ہیں کہ ہمارے اَرباب اختیار فیصلہ سازی کے مرحلے پر اَپنی ’سوچ اُور رویئے‘ تبدیل کرلیں۔ اپنے نکتۂ نظر پر نظرثانی کریں کہ درخت صرف کاغذوں پر نہیں بلکہ زمین پر لگا کر اُن کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی کرنی ہوتی ہے تاکہ وہ قدکاٹھ بنانے کے نازک مراحل سے گزر کر آب و ہوا سمیت ’معیشت و معاشرت‘ کے لئے مفید ثابت ہو سکیں۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کہ ہمیں درختوں کی اہمیت کا احساس تو ہے لیکن اکثریت اِس احساس کا بوجھ خود پر عملی طور پر محسوس نہیں کر رہی اُور نہ ہی درختوں کی محبت و اہمیت ہمارے قول کی طرح افعال سے جھلک رہی ہے!

خیبرپختونخوا میں ’سونامی (ایک ارب نئے درخت لگانے) کا جنون سر پر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن ’وحشت کے سبب پورے کا پورا نقشہ اُلٹا نظر آ رہا ہے۔‘ ایبٹ آباد کچہری کی ہر ایک انچ کو ’بجری (کنکریٹ)‘ ڈال کر سیمنٹ سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ چھوٹے بڑے کئی درخت بیلچوں سے وار کرکے قتل کر دیا گیا حالانکہ پیدل چلنے کے لئے آٹھ فٹ کی ایک راہداری ہی کافی تھی۔ ’وال ٹو وال کنکریٹ‘ بچھانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک مالی سال کے ختم ہونے سے قبل مختص مالی وسائل کو کہیں نہ کہیں خرچ کرنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مال سرکار سے ترقی کا عمل اچانک تیزرفتار دکھائی دینے لگتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ۔۔۔ کسی ضلع کا ’ڈپٹی کمشنر‘ مغل بادشاہ نہیں ہوتا۔ فوج کے ریٹائرڈ اہلکاروں کو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز تو کیا جاتا ہے لیکن اُنہیں اِس بات کی تلقین نہیں کی جاتی کہ وہ عوام کی خدمت کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں گے اور اپنے دماغ کو زمین پر لائیں گے کیونکہ وہ اب ملک کا دفاع نہیں بلکہ اِس کی دوسرے محاذ پر خدمت کے لئے چن لئے گئے ہیں! لیکن ’ایک سے بڑھ کر ایک حاکم‘ ایک سے بڑھ کر ایک بااختیار‘ ایک سے بڑھ کر ایک اکڑی گردن‘ لاتعداد حاکم اور چیونٹیوں جیسی حیثیت رکھنے والے محکوم جنہیں اختیارات کے پاؤں تلے ’مسلنا‘ نہ تو جرم ہے اور نہ ہی اِس بارے میں کوئی اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتا ہے!

یادش بخیر کم و بیش ایک ماہ قبل میونسپل‘ کنٹونمنٹ‘ محکمہ جنگلات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ غوروخوض کا نکتہ یہ تھا کہ صوبائی سطح پر ’شجرکاری مہم‘ کو کس طرح آگے بڑھایا جائے اور پھر یونین کونسل دھمتوڑ کے علاقہ ’تکیہ‘ میں سینکڑوں قیمتی درخت لگائے گئے جن کی ماضی ہی کی طرح بعد میں خبر نہیں لی گئی۔ تصاویر اُور خبریں اَخبارات میں پورے اِہتمام سے شائع کی گئیں اور یہی کچھ ماضی میں بھی ہوتا رہا کہ صوبائی حکومت کی سوچ کو رنگین و خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

اَیبٹ آباد میں صرف ماحول ہی کو خطرات لاحق نہیں بلکہ سڑکوں پر بھاگنے دوڑنے والی سینکڑوں کی تعداد میں سوزوکیاں ’ماحول‘ اُور انسانی جان کے تحفظ کے نکتۂ نظر سے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ کسی سڑک پر کتنی سوزوکیاں ہونی چاہیءں؟ پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈائیوروں کو ’لائسینس (اجازت نامے)‘ جاری کرنے سے قبل کوئی ضابطۂ اخلاق دیا جاتا ہے؟ کیا پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کے لئے الگ قسم کے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے گئے ہیں کہ اُنہوں نے کتنے مسافر سوار کرنے ہیں؟ کتنی رفتار سے چلنا ہے؟ کس علاقے میں حد رفتار کیا ہوگی؟ گاڑی کی صفائی اور مسافروں کی بطور صارفین حقوق کیا ہوں گے؟ مسافروں کو اگر پبلک ٹرانسپورٹ سے شکایات ہیں تو کس سے رجوع کریں گے؟ پبلک ٹرانسپورٹ میں ’سی این جی سلینڈر‘ نصب اپنی جگہ ’بم‘ جیسے خطرناک ہیں تو کیا اُن کی جانچ پڑتال کے لئے مقررہ مدت کے قاعدے پر عمل درآمد ہوتا ہے؟ پبلک ٹرانسپورٹ کے انجن کی جانچ اور ماحول کے تحفظ کے قوانین موجود ہے جن پر عملدرآمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟ تجاوزات کے خلاف حکومت کا عزم لائق تحسین ہے لیکن سمجھنا ہے کہ تجاوزات دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک مستقل اور دوسری غیرمستقل۔ مستقل تجاوزات تعمیرات ہوتی ہیں جنہیں مسمار کر دیا جاتا ہے لیکن غیرمستقل تجاوزات میں پبلک ٹرانسپورٹ کی وہ گاڑیاں ہیں‘ جو قطار درقطار ہر سڑک پر قابض دکھائی دیتی ہیں اور اِن ’غیرمستقل تجاوزات‘ کا ’سنگین مسئلہ‘ بھی توجہ چاہتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ مسائل کا حل وغیرہ وغیرہ نہیں‘ سیدھی سادی ’راہ نجات‘ یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے منصب پر بیٹھے ہوئے ارباب اختیار کے ذاتی و کاروباری مفادات میں فاصلہ ہونا چاہئے۔ خیبرپختونخوا میں جہاں کہیں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہوگا‘ اُس میں کہیں نہ کہیں سیاسی شخصیات کا نام جڑا دکھائی دے گا۔ سب جانتے ہیں کہ متعلقہ سرکاری اہلکاروں بشمول پولیس اہلکاروں کی ایک خاص تعداد نے پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ آسان ہے کہ محض دس ہزار روپے کی پہلی قسط (ڈاؤن پیمنٹ) کے ذریعے حاصل ہونے والی سوزوکی گاڑی لی جائے اور یومیہ ایک ہزار روپے کمایا جائے۔ ہمیں شجرکاری (درختوں) کی اہمیت کو حقیقی معنوں میں سمجھنے میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا۔ ہمیں سڑکوں کو بلاوجہ کشادہ کرنے کی بجائے ’ٹریفک انجنیئرنگ‘ کے علوم (اصولوں) کوآزمانا چاہئے۔ ہمیں سڑکوں پر بڑھتی ہوئی سوزوکیاں (پبلک ٹرانسپورٹ) کی تعداد کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانا ہوگا۔ ہمیں وہ سب کچھ کرنا ہے‘ جو اصطلاحی طور پر ہو رہا ہے لیکن ہماری کوششوں اور سوچ میں ربط و ضبط اور الفاظ معنویت سے محروم ہیں‘ سوچ کا آغاز کل سے نہیں آج سے ہونا چاہئے۔

پس تحریر:گذارش ہے کہ عمومی بول چال میں جہاں کہیں مالی بدعنوانی کا حوالہ دینا ہو تو انگریزی زبان کے لفظ ’کمیشن‘ کی بجائے ’رشوت‘ کی اصطلاح کا استعمال کریں۔ ’رشوت ستانی‘ زیادہ سخت‘ مکروہ اور ہمارے ہاں رائج دفتری نظام کا موزوں ترین بیان ہے۔ وہ سبھی کردار جو محض ذاتی مفادات کے لئے معاشرے کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ جو ہمارے وجود‘ شناخت اور بقاء (ماحولیاتی تنوع) کے دشمن ہیں‘ وہ کسی بھی قسم کی عزت و احترام کے مستحق نہیں۔ ایسے عناصر تک یہ بات پہنچ جانی چاہئے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے اُور ’صبر کا پیمانہ‘ لبریز ہوچکا ہے!
Environment must be our priority or there's is no way out

No comments:

Post a Comment