Friday, June 5, 2015

Jun2015: World Environment Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ماحول ہے ترجیح؟
یوں تو ہر گھڑی‘ لمحہ اُور بالخصوص دن کا آغاز ’تحفظ ماحول‘ کے لئے سوچ یا کرۂ ارض کے ماحولیاتی تنوع کو برقرار رکھنے یا ماحول کی بحالی کے لئے فکری و شعوری کوششوں اور عملی اقدامات سے ہونا چاہئے لیکن چونکہ اکثریت حال و مستقبل کو لاحق خطرات سے آگاہ نہیں‘ اِس لئے ’ماحول اور ماحول دوستی‘ جیسے عمومی تصورات سینہ بہ سینہ منتقل نہیں ہو پاتے اور یہ سوچ و عمل ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ 15 دسمبر 1972ء سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک ’تحفظ ماحول کا عالمی دن‘ باقاعدگی اور حسب روایت منا رہے ہیں لیکن اس کوشش سے خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں ہو پا رہے۔ ماحول سے عوام کی اکثریت ’بے نیاز‘ اور اگر تحفظ ماحول کی بات کی جائے تو اکثریت بالخصوص ارباب اختیار ’بے زار‘ دکھائی دیتی ہے اور اسے ’مغربی تصور‘ کہہ کر یکسر جھٹلا دیا جاتا ہے۔

دیگر عالمی دنوں کی طرح تحفظ ماحول کے دن کا آنا اُور گزر جانا‘ تعجب خیز بھی نہیں رہا! جن غیرسرکاری اداروں کی روزی روٹی بیرون ممالک سے ملنے والی امداد سے جڑی ہے وہ حسب حال تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں۔ سرکاری متعلقہ ادارے بھی اس موقع پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اور پھر ہر سال پانچ جون کا سورج غروب ہو جاتا ہے!

کون جانتا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ’پانچ جون‘ کو تحفظ ماحول کا عالمی دن (ورلڈ انوئرمنٹ ڈے) مقرر کر رہی ہے تو یہ ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ پاکستان دنیا کے کل رقبے کا صرف 0.7 فیصد ہے جبکہ عالمی آبادی میں پاکستان صرف 2فیصد کا حصہ دار ہے لیکن ہمارے ہاں قدرتی وسائل کی کمی نہیں اور نہ صرف مختلف موسم پائے جاتے ہیں بلکہ زرخیزی کے لحاظ سے مختلف قسم کی زمین بھی پائی جاتی ہے‘ جو اپنی جگہ ایک الگ نعمت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنے جنگلات کا تحفظ کر پائے اور نہ ہی اُن کے رقبے میں اضافہ۔ ہمارے پاس پانی کی کمی نہیں لیکن اس سے دیرپا‘ مفید اور حسب ضرورت استفادہ نہیں ہوسکا اور تکنیکی مسائل بھی سیاسی مخالفت کی نذر کردیئے گئے! تشویشناک امر یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی ایسا واحد ملک نہیں جہاں ماحول کا نہ تو خاطرخواہ احترام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اکثریت اِس کی اہمیت سے آشنائی عام ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک میں قدر مشترکہ یہی رجحان ہے کہ تعمیر و ترقی میں جس ایک ضرورت کا سب سے کم خیال رکھا جاتا ہے وہ ماحولیاتی تنوع کی بقاء ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں الگ ہیں جہاں انسانوں اور جانوروں (جنگلی و پالتو ہم زمین حیات) سے دوستی اور ماحول کو شہری سہولیات سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور یہی مغربی دنیا کی ترقی کا راز بھی ہے کہ اُنہوں نے قدرت کے مقرر کردہ ماحولیاتی توازن اور اِس کی اہمیت کو عقل سے پرکھ و سمجھ کر دل سے اِس پر یقین کر لیا ہے۔ کرۂ ارض پر رہنے کے آداب‘ حدود وقیود کا ادراک ہونا بھی کسی ’وہبی علم‘ اور نعمت سے کم نہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ماحول دوستی پر نہ تو اُکسایا جاتا ہے اور نہ ہی مجبور کیا جاتا ہے جیسا کہ مغربی دنیا ہمیں جمہوری نظام اور بدعنوانی سے پاک طرز حکمرانی کے قیام پر مجبور کرتی ہے۔

سال 2015ء کے لئے ’تحفظ ماحول کے عالمی دن‘ کا پیغام ہے کہ ’’سات ارب لوگ‘ ایک کرۂ ارض: قدرتی وسائل کا دانشمندانہ اِستعمال کیجئے۔‘‘ یہی ایک سال کا لائحہ عمل اور ہدف بھی ہے‘ تاہم جس بھدے انداز میں پاکستان نے عالمی معاہدے کے تحت ’ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز‘ پر پیش رفت کی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے محض ایک برس میں اتنی بڑی تبدیلی آنے کی توقع نہیں کہ ہمارے رویئے اور افعال ماحول دوست بن جائیں۔ ہم ’یکایک قدرتی وسائل کادانشمندانہ استعمال کرنے لگیں!‘ کیا ہمارے نصاب تعلیم میں اِس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ تحفظ ماحول یا دیگر عالمی دن کے حوالے سے اسباق شامل کئے جاسکیں۔ عجب ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں دن کا آغاز قومی ترانے اور دعا سے ہوتا ہے جبکہ بچوں کو نہ تو قومی ترانے کے مفہوم و معانی سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی منظوم دعا کے ردیف و قافیہ اُن کی سمجھ میں آتے ہیں لیکن جیسے ہی سے طالبعلم سکول سے کالج اور بعدازاں جامعات پہنچتے ہیں تو درس گاہوں میں دن کے آغاز پر ’قومی ترانہ‘ پڑھنے کی روایت ختم کر دی جاتی ہے۔ فارسی زبان میں لکھے ہوئے قومی ترانے کا قومی زبان سے کتنا تعلق ہے اور فارسی زبان کے الفاظ و تراکیب سے طلباء وطالبات کتنے مانوس ہوتے ہیں‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اُلجھے ہوئے اذہان ’زبان شناسی‘ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے جس سے نوجوانوں کو متعارف کرانا ضروری ہے۔

ماحول دوستی ہماری ترجیجات کا حصہ نہیں‘ جس پر نہ تو ہمیں ندامت ہے اور نہ ہی اَفسوس۔ اِس صورتحال میں تبدیلی کی واحد صورت ’ماحول‘ سے متعلق موضوعات کو نصاب کا حصہ بنانا ہے۔ ٹیلی ویژن ڈراموں‘ فلموں اور تفریح کے دیگر پروگراموں میں جس طرح تمباکو نوشی کے مناظر نہیں دکھائے جاتے‘ اسی طرح درخت‘ جنگلی حیات اور قدرتی وسائل سے متعلق بڑی باتوں کے ذریعے شعور اُجاگر کیا جاسکتا ہے۔ دانت صاف کرنے کے لئے چاہے آپ مسواک یا برش اُور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کر رہے ہیں یا شیو بنا رہے ہیں تو اِس عمل میں پانی بہتے رہنے کی عمومی عادت کی رہنمائی سے باآسانی اِصلاح ممکن ہے۔ پانی جیسی نعمت کا ’دانشمندانہ استعمال‘ صرف ضرورت ہی نہیں رہی بلکہ مجبوری بن چکی ہے۔ ایک منٹ میں چھ گلاس (ڈیرھ لیٹر) پانی ضائع ہونے سے باآسانی بچایا جا سکتا ہے اور یہ محاورہ یقیناًسن رکھا ہوگا کہ ۔۔۔ ’قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے!‘
World Environment Day, what's our priorities really are

No comments:

Post a Comment