Saturday, June 6, 2015

Jun2015: School On Wheel

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
چلتے پھرتے سکول!
بیرون ملک مقیم دردمند پاکستانیوں نے ’شعبۂ تعلیم‘ کی سرپرستی کرنے کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا تو اِس سے زیادہ خوش آئند بات کوئی دوسری نہیں ہوسکتی کیونکہ جب کوئی قوم اپنی تقدیر خود تبدیل کرنے کا تہیہ کر لیتی ہے تو اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہوتی چلی جاتیں ہیں۔ ’ناخواندگی کی شرح‘ اور بالخصوص درسگاہوں سے واسطہ نہ رکھنے والوں بچوں کا احساس کرنا ’سوچ کی معراج‘ اُور اُس ‘شدید ترین بحران‘کا حل یعنی درست منزل کا تعین اور صراط مستقیم پر اٹھائے جانے والے ’پہلے قدم‘ جیسا ہے جہاں حوصلوں کے سامنے فاصلوں کی مات یقینی ہے۔

 سوچ یہ ہے کہ طلباء و طالبات کی وہ تمام درسی ضرورتیں اور خواہشات پوری کی جائیں‘ جن کی وجہ سے اُنہیں یا تو معیاری تعلیم کے مواقع میسر نہیں یا پھر اُن میں ایک طرح کا ’احساس محرومی‘ سرایت کر چکا ہے اور وہ منفی رجحانات یا نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے اپنی خداداد صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر پارہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے بھی اِسی قسم کی ایک حکمت عملی موجود ہے‘ جس میں بیرون و اندرون ملک مخیر حضرات سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی مالی سرپرستی کریں اور اِس مقصد کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری سکولوں کی نشاندہی کرکے اُنہیں بذریعہ ’ویب سائٹ‘ مشتہر بھی کیا گیا لیکن سکولوں کی تعمیر‘ وہاں چاردیواری‘ پینے کے پانی اور کمروں جیسی بنیادی سہولیات کا بندوبست کرنا ہی ’تعلیم‘ نہیں بلکہ اگر ہم شرح خواندگی میں اضافے کے ساتھ ’تعلیم و شعور‘ کی ’انقلابی سوچ‘ کے ذریعے ’تبدیلی‘ متعارف کرائیں تو اِس کے لئے عمارت‘ چاردیواری اُور کمروں پر مشتمل سکولوں کی ’روائتی سرپرستی‘ کے ساتھ کچھ مختلف اسلوب اختیار کرنا پڑے گا‘ جس سے اُن بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاطرخواہ (بنیادی) اہتمام ہو سکے‘ جو کسی وجہ سے تاحال تعلیمی اداروں کی جانب کمر کئے بیٹھے ہیں۔

کیا ہم کسی ایسے ’چلتے پھرتے سکول‘ کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو گاڑی (وین) میں قائم کیا گیا ہو اور بجائے یہ کہ محنت کش یا بے گھر بچوں کو کسی دور دراز سکول تک‘ کسی مقررہ وقت آنے کے لئے راغب کیا جائے‘ یہ غیرروائتی سکول خود چل کر اُن کے پاس چلے جایا کریں؟ کیا ہم کسی ایسے سکول کو تصور کر سکتے ہیں جو ہفتے کے سات دن فعال رہے اور جس میں تدریسی کتب کے ساتھ‘ انٹرنیٹ‘ سبق آموز کارٹون کرداروں کی کہانیوں کے ذریعے بچوں کو عملی زندگی کے اَسباق و ضروریات سے روشناس کرایا جاسکے؟ بچوں کو ہمیشہ ہی سے گاڑیوں کا جنون ہوتا ہے‘ جب اُنہیں اپنا سکول گاڑی میں دکھائی دے‘ جس کا ماحول مختلف ہو تو کیا اُن کی توجہ‘ رغبت و دلچسپی نہیں بڑھے گی؟ کیا ہم ایسے کتب خانے (لائبریری) کا قیام عمل میں لاسکتے ہیں جو نسبتاً بہتر شرح خواندگی رکھنے والے شہری علاقوں میں شام سے دیر رات گئے تک کے اُن اوقات میں کتابیں فراہم کرنے کا ذریعہ ہوں‘ جبکہ سرکاری (پبلک) لائبریریوں کے دروازوں بند ہوتے ہیں! کیا ہم ’ایک کتاب یعنی ون بک لائبریری‘ کے تصور کو متعارف کرا سکتے ہیں جس میں ایک کتاب کے عوض دوسری کتاب جاری کی جائے اور لائبریری کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کی تصدیق و فیس حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو؟ کیا ہم ’سکول آن ویل (School on Wheel) یعنی SOW کے ذریعے ’علم و فن‘ کے ایسے بیج (فصل) بو سکتے ہیں‘ جن سے مستقبل میں شعور کا پھل حاصل ہو؟ کیا ہمیں صحت و صفائی جیسے بنیادی تصورات‘ ماں اور بچے کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے کوئی مختلف طرز عمل اپنانا چاہئے؟ ماحول دوستی ہو یا صارفین کے حقوق الغرض ایسا کونسا شعبہ ہے جس کا احاطہ ’گشتی درسگاہوں‘ سے ممکن نہیں؟ تو اِس کارخیر کی ابتدأ کیا جلد اَز جلد نہیں ہونی چاہئے؟
جبکہ ہم میں سے کسی کو نہ تو ’علم کی اہمیت‘ سے انکار ہے اور ہم نہ ہی ایسے بچوں کے وجود سے انکاری ہیں جو کہ ’سکول کا منہ‘ نہیں دیکھ پا رہے تو یہ سوچ تقاضا کرتی ہے کہ ’غیرشعوری لاتعلقی‘ کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہئے۔ ہمارے سیاسی و غیرسیاسی حکمران بھی اِس مسئلے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں‘ اگر یقین نہ آئے تو سبھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور پر نظر کیجئے‘ بلندبانگ تحریری وعدے لکھے ہوئے ملیں گے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ۔۔۔ ہر بچے کی تعلیم ’فیصلہ سازوں‘ کو اپنے بچوں کی طرح عزیز نہیں اور انہیں اپنے بچوں کی طرح بے گھر‘ کم مالی وسائل رکھنے والے بچوں کے نہ تو ’قیمتی وقت‘ کے ضائع ہونے کا صدمہ و تشویش ہے اور نہ ہی ایسے بچوں کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کا احساس کرتے ہوئے وہ اپنی اپنی ضمیر کی عدالتوں کے سامنے سرخرو ہیں۔

ضرورت کا احساس تو ہے لیکن عملی ترجیحات (ایکشن) مختلف ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پانچ جون کو پیش کئے گئے ’بجٹ (آمدن و اخراجات کے میزانئے)‘ میں شعبۂ دفاع کے لئے گیارہ فیصد اضافی لیکن (گذشتہ مالی سال کے مقابلے) اعلیٰ تعلیم کے لئے 4.5 ارب روپے کم مختص کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ تعلیم کے لئے مختص بجٹ کو چار فیصد تک بڑھایا جائے گا تو اِس اعلان (وعدے) کو پورا کرنے کے لئے مالی سال کے اختتام تک شعبہ تعلیم کو 3.2فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کے تناسب سے وسائل فراہم کئے جائیں گے۔‘‘ وفاقی حکومت کی جانب سے اشارتاً یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ تعلیم چونکہ ’صوبائی معاملہ‘ ہے اِس لئے صوبوں کو چاہئے کہ وہ اِس سلسلے میں اپنی ترجیحات وضع کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ پاکستان کے ’آئین کی شق 25-A‘ کے تحت 5سے 16 سال کے بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) کے لئے مفت تعلیم کا بندوبست کرنا (وفاقی اُور ہر صوبائی) حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور قانون یہ بھی کہتا ہے کہ حکومت نہ صرف پانچ سے سولہ برس کے بچوں کے لئے تعلیم کی مفت سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے بلکہ یہ سہولیات معیاری بھی ہونی چاہیءں۔ توجہ کیجئے کہ پاکستان میں 51 لاکھ (پانچ اعشاریہ ایک ملین) سے زیادہ ایسے بچے ہیں جو سکولوں کو نہیں جاتے! اگرچہ ایسے پچاس لاکھ سے زائد بچوں کے بارے سوچنا قانون کی رو سے حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہوئے ’جہالت کے بوجھ‘ کو مل بانٹ کر‘ چھوٹی چھوٹی کوششوں اُور چھوٹے چھوٹے اقدامات سے کم کیا جاسکتا ہے۔

جذبۂ تعمیر سے پرجوش ایسے پڑھے لکھے‘ زیرتعلیم یا تعلیم یافتہ رضاکاروں کی کمی نہیں‘ جو اپنی مصروفیت بھری عملی زندگی سے چند گھنٹے نکال کر ’تعلیم سے محروم بچوں‘ کی سرپرستی و رہنمائی کریں‘ جس کی سرپرستی بطور ’سماجی ذمہ داری (سوشل رسپانسبلٹی)‘ نجی کاروباری و تجاری ادارے کر سکتے ہیں۔ ’تعلیمی انقلاب کی دروازے پر دستک‘ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے کانوں تک بھی پہنچی چاہئے۔ ایسے بچے کہ جنہیں صرف غذا یا تن ڈھانپنے کے لئے کپڑوں ہی کی نہیں بلکہ سب سے زیادہ ’علم‘ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
Idea of "School on Wheel (SOW) for less advantage communities. Data says 5.1 million kids are out of school in Pakistan

No comments:

Post a Comment