ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلاول کی واپسی!
بلاول کی واپسی!
پاکستان پیپلزپارٹی کے جوانسال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں اب
تک کی گئی کوئی بھی سیاسی و غیرسیاسی پیشنگوئی درست ثابت نہیں ہوئی اُور
ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چھبیس سالہ بلاول ’تیس نومبر 1967ء‘
کو وجود میں آنے والی پیپلزپارٹی کو پھر سے منظم اُور پاکستان کی سیاست میں
’کلیدی کردار‘ اَدا کرنے کے لئے چھ ماہ بعد (یکم جون کے روز) واپس تشریف
لا چکے ہیں تو اگرچہ وہ کراچی میں مقیم ہیں لیکن اُنہوں نے پہلا دورہ پنجاب
کا طے کیا ہے۔ بلاول ناراض ہوئے۔ بلاول مان گئے۔ بلاول وطن سے چلے گئے اور
بلاول وطن واپس آ گئے یہ آمدورفت ’بھٹو خاندان‘ کے اندر اختیارات کی جاری
سردجنگ کو عیاں کرتی ہے جس سے نہ صرف موقع شناس فائدہ اُٹھا رہے ہیں بلکہ
اُن سبھی قوتوں کا کام بھی نسبتاً آسان ہو گیا ہے جو ’پیپلزپارٹی‘ کو
’مردہ‘ قرار دینے کی کوششوں میں عرصہ دراز سے مصروف ہیں۔
پیپلزپارٹی کے اندر ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ کے بارے سبھی اطلاعات جھوٹ پر مبنی نہیں۔ عوام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ’درون خانہ‘ ہونے والی اُن باتوں سے بھی آگاہ ہوں‘ جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا وجود ہی خطرے سے دوچار ہے۔ جب بلاول ملک سے جا رہے تھے تو تب بھی یہی کہا گیا کہ اُنہیں واپس آنا ہی آنا ہے۔ اگر کچھ لوگ نہ بھی چاہیں تو وہ واپس ضرور آئیں گے اور ایسا ہی ہو چکا ہے۔ بلاول کو پاکستان (کی سیاست و سرزمین) سے الگ اور پیپلزپارٹی سے دور رکھنے والے حلقوں میں پائی جانے والی ’شدید مایوسی‘ اور دلی کیفیت کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ باوجود انتہائی حفاظتی انتظامات بھی اُنہیں جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے اُور وہ وطن سے دور ہو جائیں۔
بلاول جدید طرز حکمرانی کے وہ سبھی تصورات رکھتے ہیں‘ جو آج کے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اُن کی جماعت ’روزگار‘ کے مواقع پیدا کرنے کے لئے خاص شہرت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر بلاول صرف اور صرف روزگار ہی فراہم کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل پیش کریں تو ’روٹی کپڑے اور مکان‘ جیسی ضروریات خودبخود پوری ہوتی چلی جائیں گی۔ کراچی سمیت صوبہ سندھ کے بڑے شہروں میں مفت انٹرنیٹ (وائی فائی) کی سہولت متعارف کرانے سے متعلق بلاول کا اعلان اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ تجربہ پہلے ہی پنجاب کے مختلف شہروں میں چھوٹے پیمانے پر کیا جاچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کو کچھ مختلف اور زیادہ بڑا سوچنا ہوگا کیونکہ بلاول سے وابستہ توقعات صرف سندھ کی حد تک محدود ترقی پر منحصر نہیں ہونی چاہیئں۔
پیپلزپارٹی کو پھر سے منظم کرنے کا عزم اور ’بھٹو اِزم‘ کے پرچار سے توجہ حاصل کرنے والے بلاول کو بہت سے چھبتے ہوئے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ کس طرح پیپلزپارٹی کے نام پر مفادپرستوں نے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کیا۔ معمولی سرکاری ملازمتیں اور انتظامی عہدوں پر فائز کارکن پارٹی کی کلیدی فیصلہ سازی کا حصہ بنے تو ایسی ’کارکن نوازی‘ کی مثالیں کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں ملتی۔ احسان فراموش اور موقع پرست کرداروں سے پیپلزپارٹی کو نجات دلائے بناء ’تنظیم سازی‘ کا ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بلاول کی مجبوری سیکورٹی کا حصار بھی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ تو دیرینہ کارکنوں سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی کارکنوں کی اُن تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بلاول کا ٹوئٹر اکاونٹ (@BBhuttoZardari) اُن کے استعمال میں نہیں جبکہ اُن کے 9لاکھ 44 ہزار سے زیادہ فالوورز کو 15اپریل کے بعد کوئی (ٹویٹ) پیغام بھی نہیں دیا گیا۔ سات جون تک 53 دن ہو چکے ہیں جبکہ اُنہوں نے سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال نہیں کیا۔ اس سلسلے میں اُن کی بہنوں بختاور (@BakhtawarBZ) یا آصفہ (@AAliZardari) کے ٹویٹر اکاونٹ فعال ہیں جن کے اصل و نقل ہونے کو اُن کے خیالات یا پسندوناپسند کے اظہار سے باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اِس میں ’بلاول‘ سے تعلق رکھنے والوں پر ’بلاول ہاؤس‘ کے دروازے ہی بند کر دیئے جاتے ہیں! ٹوئٹر سمیت سماجی رابطہ کاری کے وسائل سے استفادہ کرنے والے بہت کم پیپلزپارٹی کے رہنما ایسے ہیں‘ جو بلاول کی تصویر کو اپنی اکاونٹ کی شناخت کا حوالہ (پروفائل) بنائے ہوئے ہیں!
پیپلزپارٹی کے سامنے تنظیم سازی سے پہلے اُس پارٹی نظم و ضبط کو بحال کرنا ہوگا۔ چند کردار اپنے سیاسی مستقبل‘ وجود اور مفادات کو ترجیح بنا کر ’پیپلزپارٹی‘ کا استعمال کر رہے ہیں۔گھر سے حکومت تک پرانے راستے‘ پرانے رویئے‘ پرانے اختیارات اُور پرانے طور طریقے تبدیل کرنا بلاول کے تجربے‘ سوچ اور حاصل آزادی کو دیکھتے ہوئے ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر بلاول سندھ حکومت میں مداخلت کرکے معاملات درست کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر سیاست میں اُن کی جگہ (اہمیت اُبھر کر) سامنے آ سکتی ہے لیکن اگر اُنہیں یہاں وہاں اِنتہائی حفاظتی حصار میں اجتماعات سے خطاب یا ذرائع ابلاغ کا پیٹ پالنے کے لئے بیانات کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے اُور وہ خود بھی اِس حیثیت پر اکتفا (اطمینان محسوس) کر لیتے ہیں‘ تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ سردست سوالات یہ ہیں کہ بلاول کیا چاہتا ہے اور بلاول کیا کہتا ہے؟ کیا اِن دونوں باتوں میں تعلق و مطابقت بھی پائی جاتی ہے؟
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور اگر اِس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے تعلیم و صحت کے شعبے میں اصلاحات لائی جاتی ہیں۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے قلیل و طویل المعیادی منصوبے شروع کئے جاتے ہیں۔ کراچی میں پانی جبکہ اندرون سندھ خشک سالی جیسے چیلنجوں سے نمٹا جاتا ہے تو ناممکنات ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔ بلاول پختہ سوچ کے مالک ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے فاصلہ رکھے لیکن اُن کا مؤقف نہ تو سنا اور نہ ہی سمجھا گیا! سندھ میں طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کے لئے ایک سے زیادہ ’پاور سنٹرز‘ میں بلاول اپنی جگہ کیسے بنائیں گے یا ایسا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ شریک چیئرمین زرداری اور اُن کی ہمشیرہ‘ وزیراعلیٰ سندھ‘ گورنر سندھ‘ خصوصی اختیاراتی اپیکس کمیٹی اُور متحدہ قومی موومنٹ الگ الگ طاقت کے مراکز ہیں۔ پیپلزپارٹی کے داخلی حلقے بلاول کو موقع دے رہے ہیں اور اُن کی ہر بات من و عن ماننے کی بجائے چاہتے ہیں کہ ایک حد تک بلاول کو محدود رکھا جائے۔
مالی و انتظامی بدعنوانیوں سے پاک طرز حکمرانی کا مطالبہ پاکستان میں زور پکڑ رہا ہے اور اگر بلاول پارٹی کی تنظیم نو کا آغاز پنجاب کی بجائے خیبرپختونخوا سے کرتے ہیں تو انہیں کم وقت میں زیادہ کامیابی و پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔ دورن خانہ (درپردہ) وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی کے آپسی تعلقات جتنے بھی اچھے ہوں لیکن پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب جیسے حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والوں کو ’تخت لاہور و اسلام آباد‘ پر بیٹھے ہوئے حکمران ایک ایسا خطرہ گردانتے ہیں‘ جس کا علاج دانت کے درد جیسا تجویز کیا جاتا ہے کہ اُسے منہ سے نکال ہی دیا جائے!
پیپلزپارٹی کے اندر ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ کے بارے سبھی اطلاعات جھوٹ پر مبنی نہیں۔ عوام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ’درون خانہ‘ ہونے والی اُن باتوں سے بھی آگاہ ہوں‘ جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا وجود ہی خطرے سے دوچار ہے۔ جب بلاول ملک سے جا رہے تھے تو تب بھی یہی کہا گیا کہ اُنہیں واپس آنا ہی آنا ہے۔ اگر کچھ لوگ نہ بھی چاہیں تو وہ واپس ضرور آئیں گے اور ایسا ہی ہو چکا ہے۔ بلاول کو پاکستان (کی سیاست و سرزمین) سے الگ اور پیپلزپارٹی سے دور رکھنے والے حلقوں میں پائی جانے والی ’شدید مایوسی‘ اور دلی کیفیت کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ باوجود انتہائی حفاظتی انتظامات بھی اُنہیں جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے اُور وہ وطن سے دور ہو جائیں۔
بلاول جدید طرز حکمرانی کے وہ سبھی تصورات رکھتے ہیں‘ جو آج کے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اُن کی جماعت ’روزگار‘ کے مواقع پیدا کرنے کے لئے خاص شہرت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر بلاول صرف اور صرف روزگار ہی فراہم کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل پیش کریں تو ’روٹی کپڑے اور مکان‘ جیسی ضروریات خودبخود پوری ہوتی چلی جائیں گی۔ کراچی سمیت صوبہ سندھ کے بڑے شہروں میں مفت انٹرنیٹ (وائی فائی) کی سہولت متعارف کرانے سے متعلق بلاول کا اعلان اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ تجربہ پہلے ہی پنجاب کے مختلف شہروں میں چھوٹے پیمانے پر کیا جاچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کو کچھ مختلف اور زیادہ بڑا سوچنا ہوگا کیونکہ بلاول سے وابستہ توقعات صرف سندھ کی حد تک محدود ترقی پر منحصر نہیں ہونی چاہیئں۔
پیپلزپارٹی کو پھر سے منظم کرنے کا عزم اور ’بھٹو اِزم‘ کے پرچار سے توجہ حاصل کرنے والے بلاول کو بہت سے چھبتے ہوئے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ کس طرح پیپلزپارٹی کے نام پر مفادپرستوں نے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کیا۔ معمولی سرکاری ملازمتیں اور انتظامی عہدوں پر فائز کارکن پارٹی کی کلیدی فیصلہ سازی کا حصہ بنے تو ایسی ’کارکن نوازی‘ کی مثالیں کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں ملتی۔ احسان فراموش اور موقع پرست کرداروں سے پیپلزپارٹی کو نجات دلائے بناء ’تنظیم سازی‘ کا ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بلاول کی مجبوری سیکورٹی کا حصار بھی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ تو دیرینہ کارکنوں سے مل سکتے ہیں اور نہ ہی کارکنوں کی اُن تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بلاول کا ٹوئٹر اکاونٹ (@BBhuttoZardari) اُن کے استعمال میں نہیں جبکہ اُن کے 9لاکھ 44 ہزار سے زیادہ فالوورز کو 15اپریل کے بعد کوئی (ٹویٹ) پیغام بھی نہیں دیا گیا۔ سات جون تک 53 دن ہو چکے ہیں جبکہ اُنہوں نے سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال نہیں کیا۔ اس سلسلے میں اُن کی بہنوں بختاور (@BakhtawarBZ) یا آصفہ (@AAliZardari) کے ٹویٹر اکاونٹ فعال ہیں جن کے اصل و نقل ہونے کو اُن کے خیالات یا پسندوناپسند کے اظہار سے باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اِس میں ’بلاول‘ سے تعلق رکھنے والوں پر ’بلاول ہاؤس‘ کے دروازے ہی بند کر دیئے جاتے ہیں! ٹوئٹر سمیت سماجی رابطہ کاری کے وسائل سے استفادہ کرنے والے بہت کم پیپلزپارٹی کے رہنما ایسے ہیں‘ جو بلاول کی تصویر کو اپنی اکاونٹ کی شناخت کا حوالہ (پروفائل) بنائے ہوئے ہیں!
پیپلزپارٹی کے سامنے تنظیم سازی سے پہلے اُس پارٹی نظم و ضبط کو بحال کرنا ہوگا۔ چند کردار اپنے سیاسی مستقبل‘ وجود اور مفادات کو ترجیح بنا کر ’پیپلزپارٹی‘ کا استعمال کر رہے ہیں۔گھر سے حکومت تک پرانے راستے‘ پرانے رویئے‘ پرانے اختیارات اُور پرانے طور طریقے تبدیل کرنا بلاول کے تجربے‘ سوچ اور حاصل آزادی کو دیکھتے ہوئے ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر بلاول سندھ حکومت میں مداخلت کرکے معاملات درست کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر سیاست میں اُن کی جگہ (اہمیت اُبھر کر) سامنے آ سکتی ہے لیکن اگر اُنہیں یہاں وہاں اِنتہائی حفاظتی حصار میں اجتماعات سے خطاب یا ذرائع ابلاغ کا پیٹ پالنے کے لئے بیانات کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے اُور وہ خود بھی اِس حیثیت پر اکتفا (اطمینان محسوس) کر لیتے ہیں‘ تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ سردست سوالات یہ ہیں کہ بلاول کیا چاہتا ہے اور بلاول کیا کہتا ہے؟ کیا اِن دونوں باتوں میں تعلق و مطابقت بھی پائی جاتی ہے؟
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور اگر اِس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے تعلیم و صحت کے شعبے میں اصلاحات لائی جاتی ہیں۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے قلیل و طویل المعیادی منصوبے شروع کئے جاتے ہیں۔ کراچی میں پانی جبکہ اندرون سندھ خشک سالی جیسے چیلنجوں سے نمٹا جاتا ہے تو ناممکنات ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔ بلاول پختہ سوچ کے مالک ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے فاصلہ رکھے لیکن اُن کا مؤقف نہ تو سنا اور نہ ہی سمجھا گیا! سندھ میں طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کے لئے ایک سے زیادہ ’پاور سنٹرز‘ میں بلاول اپنی جگہ کیسے بنائیں گے یا ایسا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ شریک چیئرمین زرداری اور اُن کی ہمشیرہ‘ وزیراعلیٰ سندھ‘ گورنر سندھ‘ خصوصی اختیاراتی اپیکس کمیٹی اُور متحدہ قومی موومنٹ الگ الگ طاقت کے مراکز ہیں۔ پیپلزپارٹی کے داخلی حلقے بلاول کو موقع دے رہے ہیں اور اُن کی ہر بات من و عن ماننے کی بجائے چاہتے ہیں کہ ایک حد تک بلاول کو محدود رکھا جائے۔
مالی و انتظامی بدعنوانیوں سے پاک طرز حکمرانی کا مطالبہ پاکستان میں زور پکڑ رہا ہے اور اگر بلاول پارٹی کی تنظیم نو کا آغاز پنجاب کی بجائے خیبرپختونخوا سے کرتے ہیں تو انہیں کم وقت میں زیادہ کامیابی و پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔ دورن خانہ (درپردہ) وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی کے آپسی تعلقات جتنے بھی اچھے ہوں لیکن پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب جیسے حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والوں کو ’تخت لاہور و اسلام آباد‘ پر بیٹھے ہوئے حکمران ایک ایسا خطرہ گردانتے ہیں‘ جس کا علاج دانت کے درد جیسا تجویز کیا جاتا ہے کہ اُسے منہ سے نکال ہی دیا جائے!
![]() |
Return of Bilal Bhutto Zardari & its importance in politics |
No comments:
Post a Comment