The Budget
بجٹ 2015-16ء
نئے مالی سال کے لئے آمدن و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ برائے 2015-16ء)
مجموعی طور پر اچھی کوشش ہے جس میں اُن سبھی شعبوں پر توجہ دی گئی ہے جس کی
وجہ سے اقتصادی مشکلات نے عوام کو گھیر رکھا ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی اچھا
بجٹ ہے کیونکہ اس میں کل خسارے کو 4.3 فیصد تک رکھنے کے عزم کا اظہار کیا
گیا ہے جبکہ مجموعی (خام) قومی پیداوار (آمدنی) 5.5 کرنے کے لئے کوششیں کی
جائیں گی۔ حکومت کی جانب سے کم ترین مہنگائی کا ہدف بھی قابل تحسین ہے جبکہ
قومی سطح پر ترقی کے لئے ’پبلک سیکٹر ڈویلپنمٹ پروگرام‘ کا حجم 1.5 ارب
روپے رکھا گیا ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر اور کراچی میں ’گرین لائن‘ کے
نام سے ٹرانسپورٹ منصوبہ بھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ٹیکس سے چھوٹ کو وزارت
خزانہ کی دسترس سے قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو سونپ دیا گیا ہے۔
زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 20فیصد کر دی گئی ہے۔ ہوائی جہازوں (ایوی ایشن
سیکٹر) پر ڈیوٹی مکمل طور پرختم کر دی گئی ہے اور دہشت گردی سے متاثرہ
خیبرپختونخوا کی صنعتوں کو ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے!
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے دیا گیا بجٹ اس لحاظ سے بھی غیرمعمولی ہے کہ اس میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے اور اگر حکومت حسب اعلان اپنے ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کم کرلیتی ہے تو اس سے آئندہ مالی سال کے اخراجات میں 500 ارب روپے کی کمی آئے گی۔ اب تک نواز لیگ معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ثابت ہوئی ہے جیسا کہ غیرملکی کرنسی کے ذخائر جو کہ 11 ارب ڈالر تھے انہیں 17 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ مہنگائی کی شرح 10فیصد جسے سال سے کم عرصے میں 5فیصد تک لے آیا گیا ہے۔
نواز لیگ حکومت نے اختتام پذیر مالی سال کے دوران 15 اہداف مقرر کئے تھے جن میں سے 11 ایسے رہے جن پر خاطرخواہ (حسب اعلان) پیش رفت نہیں ہوسکی۔ مجموعی (خام) قومی پیداوار میں اضافہ‘ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافے کا ہدف‘ برآمدات کا ہدف اور غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ اِس مرتبہ (مالی سال 2015-16ء کے لئے) آمدنی کا ہدف حقیقت پسندانہ ہے لیکن مجموعی (خام) قومی پیداوار میں اضافے کے لحاظ سے اہداف زیادہ خوش فہمی پر مبنی دکھائی دیتے ہیں جبکہ اخراجات میں کمی کے حوالے سے بھی باتیں بڑا بول دکھائی دے رہی ہیں۔
قانون ساز اسمبلی کی کارکردگی پر نظر رکھنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق ’ایوان نے بجٹ پر کل 34 گھنٹے بحث کی اور اگر یہ دیکھا جائے کہ کسی ملک کے ایک سال کی آمدن و اخراجات اور ترقیاتی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہو لیکن اِس قدر کم وقت میں میزانیہ منظور کر لیا جائے تو یہ اِس قسم کی مثال دنیا کی کسی دوسری جمہوریت میں نہیں ملے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین کی ترجیحات اُن قومی ضروریات سے مختلف ہیں جن سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے اور یہی بڑی وجہ ہے کہ جس خوشحالی کے حصول کا خواب دیکھا جاتا ہے اُس کے نتائج و مثبت اثرات کبھی حاصل نہیں ہو پاتے۔
نئے مالی سال کے لئے براہ راست ٹیکسوں سے چالیس فیصد جبکہ دیگر طریقوں سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے 60 فیصد آمدنی حاصل کی جائے گی۔ قومی آمدنی کا 92فیصد قرضوں یا سود کی ادائیگی پر خرچ کرنے کیا جائےگا۔
بجٹ میں سب سے اہم ترجیح کیا ہونی چاہئے؟ اگر یہ سوال ماہرین سے کیا جائے تو سبھی کا اتفاق ہو گا کہ ہماری فوری ضرورت 3 کروڑ 60 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی ہے لیکن بدقسمتی سے نئے مالی سال کے بجٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کا ذکر ملتا ہے۔
ہمارے ہاں بننے والے بجٹ کی اوسط عمر تین ماہ ہوتی ہے اور جلد ہی اس پر نظرثانی کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس سے مقرر کردہ اہداف بھی تبدیل ہوتے ہیں اور بجٹ میں کئے گئے اعلانات پر عمل درآمد بھی رک جاتا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ توانائی بحران پر اگرچہ بجٹ میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن آنے والے چند ماہ میں یہ شعبہ خود بخود پورے بجٹ پر حاوی ہو جائے گا کیونکہ حکومت سمجھ لے گی کہ جب تک ملک میں توانائی بحران موجود ہے تو دیگر کسی شعبے میں ترقی کے خاطرخواہ ثمرات حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ مقدار (اعدادوشمار)پر انحصار کرنے والا بجٹ پیش کیا گیا ہے جسے معیار ہونا چاہئے تھا ناکہ تصوراتی۔ یہ حساب کتاب کا مجموعہ ہے جس میں دانش کا عمل دخل کم دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں سوچ بچار کا وقت ہی نہیں مل سکا اور زیادہ سے زیادہ زور اسے جامع بنانے پر خرچ کیا گیا۔ انسانی وسائل کی ترقی و روزگار کے مواقع بڑھانے کی ضرورت اپنی جگہ قائم ہے اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس حوالے سے بجٹ پر غوروخوض اور نظرثانی کے بارے میں اطلاعات جلد آنا شروع ہو جائیں گی۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے دیا گیا بجٹ اس لحاظ سے بھی غیرمعمولی ہے کہ اس میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے اور اگر حکومت حسب اعلان اپنے ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کم کرلیتی ہے تو اس سے آئندہ مالی سال کے اخراجات میں 500 ارب روپے کی کمی آئے گی۔ اب تک نواز لیگ معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ثابت ہوئی ہے جیسا کہ غیرملکی کرنسی کے ذخائر جو کہ 11 ارب ڈالر تھے انہیں 17 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ مہنگائی کی شرح 10فیصد جسے سال سے کم عرصے میں 5فیصد تک لے آیا گیا ہے۔
نواز لیگ حکومت نے اختتام پذیر مالی سال کے دوران 15 اہداف مقرر کئے تھے جن میں سے 11 ایسے رہے جن پر خاطرخواہ (حسب اعلان) پیش رفت نہیں ہوسکی۔ مجموعی (خام) قومی پیداوار میں اضافہ‘ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافے کا ہدف‘ برآمدات کا ہدف اور غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ اِس مرتبہ (مالی سال 2015-16ء کے لئے) آمدنی کا ہدف حقیقت پسندانہ ہے لیکن مجموعی (خام) قومی پیداوار میں اضافے کے لحاظ سے اہداف زیادہ خوش فہمی پر مبنی دکھائی دیتے ہیں جبکہ اخراجات میں کمی کے حوالے سے بھی باتیں بڑا بول دکھائی دے رہی ہیں۔
قانون ساز اسمبلی کی کارکردگی پر نظر رکھنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق ’ایوان نے بجٹ پر کل 34 گھنٹے بحث کی اور اگر یہ دیکھا جائے کہ کسی ملک کے ایک سال کی آمدن و اخراجات اور ترقیاتی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہو لیکن اِس قدر کم وقت میں میزانیہ منظور کر لیا جائے تو یہ اِس قسم کی مثال دنیا کی کسی دوسری جمہوریت میں نہیں ملے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین کی ترجیحات اُن قومی ضروریات سے مختلف ہیں جن سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے اور یہی بڑی وجہ ہے کہ جس خوشحالی کے حصول کا خواب دیکھا جاتا ہے اُس کے نتائج و مثبت اثرات کبھی حاصل نہیں ہو پاتے۔
نئے مالی سال کے لئے براہ راست ٹیکسوں سے چالیس فیصد جبکہ دیگر طریقوں سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے 60 فیصد آمدنی حاصل کی جائے گی۔ قومی آمدنی کا 92فیصد قرضوں یا سود کی ادائیگی پر خرچ کرنے کیا جائےگا۔
بجٹ میں سب سے اہم ترجیح کیا ہونی چاہئے؟ اگر یہ سوال ماہرین سے کیا جائے تو سبھی کا اتفاق ہو گا کہ ہماری فوری ضرورت 3 کروڑ 60 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی ہے لیکن بدقسمتی سے نئے مالی سال کے بجٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کا ذکر ملتا ہے۔
ہمارے ہاں بننے والے بجٹ کی اوسط عمر تین ماہ ہوتی ہے اور جلد ہی اس پر نظرثانی کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس سے مقرر کردہ اہداف بھی تبدیل ہوتے ہیں اور بجٹ میں کئے گئے اعلانات پر عمل درآمد بھی رک جاتا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ توانائی بحران پر اگرچہ بجٹ میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن آنے والے چند ماہ میں یہ شعبہ خود بخود پورے بجٹ پر حاوی ہو جائے گا کیونکہ حکومت سمجھ لے گی کہ جب تک ملک میں توانائی بحران موجود ہے تو دیگر کسی شعبے میں ترقی کے خاطرخواہ ثمرات حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ مقدار (اعدادوشمار)پر انحصار کرنے والا بجٹ پیش کیا گیا ہے جسے معیار ہونا چاہئے تھا ناکہ تصوراتی۔ یہ حساب کتاب کا مجموعہ ہے جس میں دانش کا عمل دخل کم دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں سوچ بچار کا وقت ہی نہیں مل سکا اور زیادہ سے زیادہ زور اسے جامع بنانے پر خرچ کیا گیا۔ انسانی وسائل کی ترقی و روزگار کے مواقع بڑھانے کی ضرورت اپنی جگہ قائم ہے اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس حوالے سے بجٹ پر غوروخوض اور نظرثانی کے بارے میں اطلاعات جلد آنا شروع ہو جائیں گی۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
The budget
ReplyDeleteDr Farrukh Saleem
Sunday, June 07, 2015
It is a good budget. Given all the constraints all around us, it is a good budget. It is a good budget because it targets a deficit of 4.3 percent of GDP. It is a good budget because: the target on inflation is in the single digit; the target on GDP growth is 5.5 percent; the Public Sector Development Programme is Rs1.5 trillion; there’s appropriation of Daimer-Basha and a Green Line for Karachi; SROs only by parliamentary approval; establishment of an EXIM Bank; customs duty top slab to be 20 percent; duty on aviation industry goes down to zero and tax exemption for industries in Khyber Pakhtunkhwa.
The PML-N’s budget-making track record is superior to all the rest. The PML-N has managed to bring down the budgetary deficit from 8 percent of GDP to less than 5 percent of GDP-a positive impact of over Rs500 billion. The PML-N has managed to increase our foreign exchange reserves from $11 billion to over $17 billion. The PML-N has managed to bring down the rate of inflation from around 10 percent a year to less than 5 percent a year.
Yes, 15 targets were set last year and 11 of them have been missed including the GDP growth target, tax revenue target, export target and foreign direct investment target. This time around the revenue target is realistic but the GDP growth is overly ambitious and the expenditures estimate is grossly understated.
According to Ahmed Bilal Mehboob, “research on the fourteen budget sessions of the National Assembly shows that the assemblies discussed the budget for an average of 34 hours. Both the duration and the time spent on budget debate are one of the lowest in the world.” Simply stated: parliament does not give a hoot to the finance bill.
The tax revenue stream under Budget 2015-16 continues to be 60 percent indirect (read: regressive) and 40 percent direct. The single largest item in the budget continues to be debt servicing whereby 92 percent goes into servicing domestic and a mere 8 percent into servicing foreign debt.
The second-largest item in the budget is the Public Sector Development Plan (PSD) – and around 70 percent of the PSDP is spent on politically determined brick and mortar projects (both at the federal as well as the provincial level). An estimated 20 percent is spent on the purchase of vehicles and no more than 6 percent is spent on human capital. PSDP has at times been called ‘a slush fund for politicians’.
I have been told that accounting is the “practice and body of knowledge concerned primarily with methods for recording transactions, keeping financial records and performing internal audits.”
Sakib Sherani recently wrote: “A national budget should be the embodiment of an overall economic vision of a government. Rather than being a mere collection of numbers worked out on the basis of taking the previous year’s allocations and applying an ad hoc increase....the underlying fiscal and tax policy that underpins a budget should be designed to achieve a higher end.”
Should a budget be designed to achieve a higher end? Yes, I think so. And what should that higher end be? For the record, we need to create at least 36 million new jobs in the following 10 years – and there could be no higher end than to provide employment to all the entrants of the labour force. And Budget 2015-16 has almost nothing in it towards the achievement of that higher end.
The average life expectancy of our budgets is around three months (before the revisions start kicking in). The power sector is out of the control of the federal government (as of the last day of February, the circular debt stood at a colossal Rs606 billion). I am convinced that the energy sector is going to shake the foundations of the budget in the next few months.
ReplyDeleteIt is a quantitative budget – not qualitative. It is numerical – not imaginative. It is math – not wisdom. It has been a mathematical, arithmetical and algebraic exercise. It is not a thinking budget. It should have been a pensive, contemplative budget – a budget with the future in mind and a budget to achieve a ‘higher end’.