ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نظراَنداز ’حقائق نامہ‘
نظراَنداز ’حقائق نامہ‘
فیصلہ سازوں کی رہنمائی کے لئے مرتب کئے جانے والے وہ چند کلیدی نوعیت کے
سرکاری تشخیصی اعدادوشمار ملاحظہ کیجئے‘ جن کی روشنی میں ’پشاور میں ٹریفک
کی صورتحال کے بارے رائے قائم کی جاتی ہے‘ اُور ٹریفک سے ’جڑے مسائل‘ کے حل
کی بابت اعلیٰ حکام انہی پر منحصر سوچ بچار کرتے ہیں۔
1: پشاور کی آبادی 71لاکھ سے زیادہ ہے۔
2: پشاور کے وسائل پر بوجھ میں اضافہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں اُور یہاں افغان مہاجرین کے مستقل قیام کی وجہ سے ہے جس کا سب سے زیادہ منفی اثر ’ٹریفک کی روانی‘ پر دیکھا جا سکتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ مضافاتی ہو یا شہر‘ یونیورسٹی اُور حیات آباد کے علاقہ‘ ہر چوراہے (کراسنگ) پر رش کی وجہ سے ٹریفک گھنٹوں معطل رہتی ہے۔
3: پشاور کے زمینی راستے افغانستان کے لئے تجارتی سازوسامان کی ترسیل ہوتی ہے اور ہر روز اوسطاً 1 ہزار مال بردار ٹرک پشاور سے ہو کر گزرتے ہیں جبکہ افغانستان کے لئے بطور پبلک ٹرانسپورٹ اتنی ہی تعداد میں استعمال ہونے والی دیگر گاڑیاں اِس کے علاؤہ ہیں۔
4: افغان تجارتی معاہدے (ٹرانزٹ ٹریڈ) کے علاؤہ پشاور کی سڑکوں کو یومیہ استعمال کرنے والی مقامی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی کل تعداد 8 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ سڑکوں کی گنجائش ڈیڑھ سے دو لاکھ گاڑیوں کی ہے۔
5: پشاور میں 50 ایسے بڑے شاپنگ پلازہ (کثیرالمنزلہ خریدوفروخت کے مراکز) ہیں جن کی تعمیر میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ مختص نہیں کی گئی اُور یہی وجہ ہے کہ اِن شاپنگ پلازہ سے رجوع کرنے والی اپنی گاڑیاں ملحقہ و متصل سڑکوں پر یہاں وہاں کھڑی (پارک) کر دیتے ہیں کیونکہ اِس کے بناء کوئی چارہ نہیں۔ آسمان سے باتیں کرنے والی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے اِن میں پارکنگ کیوں نہیں رکھی گئی جبکہ اِس کے بناء نقشے کی منظوری ممکن نہیں۔ زیادہ منافع کی لالچ میں پلازہ مالکان نے پارکنگ کے لئے مختص جگہ (عموماً تہہ خانے) بھی کرائے پر چڑھا دیئے ہیں۔ ضلعی و پشاور کے ترقیاتی ادارے میں ’بلڈنگ کنٹرول کے شعبہ جات‘ کو فعال بنانے اور کم از کم پچاس ایسے شاپنگ پلازہ مالکان کو اِس بات پر بہرصورت آمادہ کرنا ہے کہ وہ گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے منظور شدہ نقشہ جات کے مطابق جگہ مختص کریں اُور نئی تعمیرات کی کڑی نگرانی کی جائے۔
6: ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پشاور کے جن بازاروں و علاقوں میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کی گئی تھی‘ اُسے مکمل نہیں کیا جاسکا اور مختلف وجوہات کی بناء پر یہ کاروائی‘ جس کا ایک جز ترقیاتی کام بھی تھے معطل کر دی گئی ہے۔
7: اندرون شہر تجاوزات کے لئے ذمہ داروں میں بااثر و صاحبان ثروت تاجر بھی شامل ہیں‘ جو عملی طور پر تعاون نہیں کر رہے اُور مختلف قسم کے سیاسی و سماجی دباؤ کے ذریعے ’تجاوزات سے پاک پشاور‘ کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں۔
اُور اَب ملاحظہ کیجئے کہ صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے اُور اِن سات کلیدی مسائل کو سلجھانے کا آغاز جس حکمت عملی سے کیا گیا ہے‘ اُس کے درپردہ منطق کیا ہے؟ کیا یہ سوچ ٹریفک پھل دے گی یا ایک مستقل و گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ماضی کی طرح محض نمائشی حل پر اکتفا کر لیا گیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جلدبازی میں ’ترجیحات کا تعین‘ کرتے ہوئے مرتب کی جانے والی ترجیحی فہرست میں گڑبڑ ہو گئی ہے؟ تعلیم (شعور)‘ سہولت (خدمت) اُور منظم (نظم و ضبط) کے ’تین روشن اَصولوں‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’پشاور پولیس‘ نے اَٹھارہ جولائی سے ’206 مستعد اہلکاروں‘ پر مشتمل ’ٹریفک وارڈنز سروس‘ کا باضابطہ آغاز کیا ہے۔ ’دیوہیکل‘ چمکدار‘ برق رفتار اُور قیمتی موٹرسائیکل سواروں کو دیکھ کر مغربی ممالک کا نقشہ یا Chips نامی وہ ڈرامہ سیریل آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے‘ جس میں اَمریکہ کے دو ٹریفک پولیس اہلکار فرض شناسی کی مثال تھے۔ وہ سڑکیں جو پہلے ہی ٹریفک کا بوجھ نہیں اُٹھا رہیں‘ کیا یہ منطقی ہے کہ اُس پر مزید ٹریفک بڑھا دی جائے کہ اِس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مقامی طور پر تیار ہونے والے ستر‘ ایک سو‘ یا اَیک سو ’پچیس سی سی‘ کے ہلکے (کم خرچ) موٹرسائیکلوں کی بجائے اِنتہائی تیزرفتار (مہنگے اُور اِیندھن کے دشمن) موٹرسائیکلوں کا اِنتخاب کیا گیا ہے؟
یہ مسئلہ نہ تو سیدھا اور نہ ہی اُلٹے لٹکنے سے حل ہوگا۔ پشاور کے ٹریفک کی اصلاح اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں جب قواعد و ضوابط مسلط کرنے کی بجائے عوام کو فیصلہ سازی و مشاورت کے عمل میں ’براہ راست شریک‘ نہیں کر لیا جاتا۔ اِس سلسلے میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے وسائل موجود ہیں‘ جن کے ذریعے براہ راست اور تحریری مشاورت و تبادلہ خیال (بحث و مباحثہ) کی روایت متعارف کرائی جا سکتی ہے جس کے نتائج زیادہ مفید و پائیدار برآمد ہو سکتے ہیں۔ صرف ٹریفک ہی نہیں بلکہ پشاور کے دیگر مسائل کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ اِس شہر کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے والوں کا قلبی‘ روحانی و فکری تعلق پشاور سے نہیں۔ وہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے منتخب ہو کر یا پڑھ لکھ کر ملازمت کرنے آتے ہیں‘تاکہ اپنا مستقبل سنوار سکیں۔ اپنی ذہانت و قابلیت کا لوہا منوا سکیں۔ اَپنی تعلیم یا اِنتخاب پر اُٹھنے والے اخراجات بمعہ منافع پورا کر سکیں۔ (حسب محاورہ) فطری اَمر ہے کہ ہر کسی کے لئے اُس کا اپنا ملک کشمیر ہوتا ہے اُور یہی سبب ہے کہ فیصلہ سازوں کی اکثریت کے دامن گیر اپنے اپنے آبائی علاقوں اور انتخابی حلقوں کی فکر رہتی ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی تنخواہیں بمعہ مراعات یا مراعات بمعہ تنخواہ شمار کی جاتی ہیں۔
ایسے مخلصین سے توقعات وابستہ کرنے کی روائتی روش رکھنے والے ’اہل پشاور‘ کو بھی اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ وہ اپنے شہر کے بارے مسائل پر غور کریں اُور فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لیں۔
بڑے بڑے عزائم‘ ملکی و غیرملکی حالات و واقعات کی گھتیاں سلجھانے والی سراپا دانشور قائدین پر انحصار و توکل کرنے کی بجائے ’پشاور کو اپنی ذات‘ میں متحد ہونا ہوگا۔ اَلمیہ ہے کہ سال دو ہزار دو سے اب تک اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی نہ تو پشاور کے ٹریفک کا مسئلہ حل ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کی شدت میں کمی آئی ہے۔ سوچئے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب ’برکت‘ نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اِتفاق و اِتحاد نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی میں درجن سے زیادہ (بشمول مخصوص) نشستیں ہونے کے باوجود بھی پشاور قیادت و نمائندگی سے محروم ہے تو آخر کیوں؟ سمجھ لیجئے کہ ترقی کے نام پر حق تلفی‘ مسائل کا تسلسل اُور غیرمربوط‘ جزوی‘ جوں کی توں محض ’حکمت عملیاں‘ ہی کافی نہیں‘ جب تک ’سیادت کے منصب‘ پر پشاور خود فائز نہیں ہو جاتا!
1: پشاور کی آبادی 71لاکھ سے زیادہ ہے۔
2: پشاور کے وسائل پر بوجھ میں اضافہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں اُور یہاں افغان مہاجرین کے مستقل قیام کی وجہ سے ہے جس کا سب سے زیادہ منفی اثر ’ٹریفک کی روانی‘ پر دیکھا جا سکتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ مضافاتی ہو یا شہر‘ یونیورسٹی اُور حیات آباد کے علاقہ‘ ہر چوراہے (کراسنگ) پر رش کی وجہ سے ٹریفک گھنٹوں معطل رہتی ہے۔
3: پشاور کے زمینی راستے افغانستان کے لئے تجارتی سازوسامان کی ترسیل ہوتی ہے اور ہر روز اوسطاً 1 ہزار مال بردار ٹرک پشاور سے ہو کر گزرتے ہیں جبکہ افغانستان کے لئے بطور پبلک ٹرانسپورٹ اتنی ہی تعداد میں استعمال ہونے والی دیگر گاڑیاں اِس کے علاؤہ ہیں۔
4: افغان تجارتی معاہدے (ٹرانزٹ ٹریڈ) کے علاؤہ پشاور کی سڑکوں کو یومیہ استعمال کرنے والی مقامی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی کل تعداد 8 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ سڑکوں کی گنجائش ڈیڑھ سے دو لاکھ گاڑیوں کی ہے۔
5: پشاور میں 50 ایسے بڑے شاپنگ پلازہ (کثیرالمنزلہ خریدوفروخت کے مراکز) ہیں جن کی تعمیر میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ مختص نہیں کی گئی اُور یہی وجہ ہے کہ اِن شاپنگ پلازہ سے رجوع کرنے والی اپنی گاڑیاں ملحقہ و متصل سڑکوں پر یہاں وہاں کھڑی (پارک) کر دیتے ہیں کیونکہ اِس کے بناء کوئی چارہ نہیں۔ آسمان سے باتیں کرنے والی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے اِن میں پارکنگ کیوں نہیں رکھی گئی جبکہ اِس کے بناء نقشے کی منظوری ممکن نہیں۔ زیادہ منافع کی لالچ میں پلازہ مالکان نے پارکنگ کے لئے مختص جگہ (عموماً تہہ خانے) بھی کرائے پر چڑھا دیئے ہیں۔ ضلعی و پشاور کے ترقیاتی ادارے میں ’بلڈنگ کنٹرول کے شعبہ جات‘ کو فعال بنانے اور کم از کم پچاس ایسے شاپنگ پلازہ مالکان کو اِس بات پر بہرصورت آمادہ کرنا ہے کہ وہ گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے منظور شدہ نقشہ جات کے مطابق جگہ مختص کریں اُور نئی تعمیرات کی کڑی نگرانی کی جائے۔
6: ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پشاور کے جن بازاروں و علاقوں میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کی گئی تھی‘ اُسے مکمل نہیں کیا جاسکا اور مختلف وجوہات کی بناء پر یہ کاروائی‘ جس کا ایک جز ترقیاتی کام بھی تھے معطل کر دی گئی ہے۔
7: اندرون شہر تجاوزات کے لئے ذمہ داروں میں بااثر و صاحبان ثروت تاجر بھی شامل ہیں‘ جو عملی طور پر تعاون نہیں کر رہے اُور مختلف قسم کے سیاسی و سماجی دباؤ کے ذریعے ’تجاوزات سے پاک پشاور‘ کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں۔
اُور اَب ملاحظہ کیجئے کہ صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے اُور اِن سات کلیدی مسائل کو سلجھانے کا آغاز جس حکمت عملی سے کیا گیا ہے‘ اُس کے درپردہ منطق کیا ہے؟ کیا یہ سوچ ٹریفک پھل دے گی یا ایک مستقل و گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ماضی کی طرح محض نمائشی حل پر اکتفا کر لیا گیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جلدبازی میں ’ترجیحات کا تعین‘ کرتے ہوئے مرتب کی جانے والی ترجیحی فہرست میں گڑبڑ ہو گئی ہے؟ تعلیم (شعور)‘ سہولت (خدمت) اُور منظم (نظم و ضبط) کے ’تین روشن اَصولوں‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’پشاور پولیس‘ نے اَٹھارہ جولائی سے ’206 مستعد اہلکاروں‘ پر مشتمل ’ٹریفک وارڈنز سروس‘ کا باضابطہ آغاز کیا ہے۔ ’دیوہیکل‘ چمکدار‘ برق رفتار اُور قیمتی موٹرسائیکل سواروں کو دیکھ کر مغربی ممالک کا نقشہ یا Chips نامی وہ ڈرامہ سیریل آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے‘ جس میں اَمریکہ کے دو ٹریفک پولیس اہلکار فرض شناسی کی مثال تھے۔ وہ سڑکیں جو پہلے ہی ٹریفک کا بوجھ نہیں اُٹھا رہیں‘ کیا یہ منطقی ہے کہ اُس پر مزید ٹریفک بڑھا دی جائے کہ اِس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مقامی طور پر تیار ہونے والے ستر‘ ایک سو‘ یا اَیک سو ’پچیس سی سی‘ کے ہلکے (کم خرچ) موٹرسائیکلوں کی بجائے اِنتہائی تیزرفتار (مہنگے اُور اِیندھن کے دشمن) موٹرسائیکلوں کا اِنتخاب کیا گیا ہے؟
یہ مسئلہ نہ تو سیدھا اور نہ ہی اُلٹے لٹکنے سے حل ہوگا۔ پشاور کے ٹریفک کی اصلاح اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں جب قواعد و ضوابط مسلط کرنے کی بجائے عوام کو فیصلہ سازی و مشاورت کے عمل میں ’براہ راست شریک‘ نہیں کر لیا جاتا۔ اِس سلسلے میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے وسائل موجود ہیں‘ جن کے ذریعے براہ راست اور تحریری مشاورت و تبادلہ خیال (بحث و مباحثہ) کی روایت متعارف کرائی جا سکتی ہے جس کے نتائج زیادہ مفید و پائیدار برآمد ہو سکتے ہیں۔ صرف ٹریفک ہی نہیں بلکہ پشاور کے دیگر مسائل کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ اِس شہر کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے والوں کا قلبی‘ روحانی و فکری تعلق پشاور سے نہیں۔ وہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے منتخب ہو کر یا پڑھ لکھ کر ملازمت کرنے آتے ہیں‘تاکہ اپنا مستقبل سنوار سکیں۔ اپنی ذہانت و قابلیت کا لوہا منوا سکیں۔ اَپنی تعلیم یا اِنتخاب پر اُٹھنے والے اخراجات بمعہ منافع پورا کر سکیں۔ (حسب محاورہ) فطری اَمر ہے کہ ہر کسی کے لئے اُس کا اپنا ملک کشمیر ہوتا ہے اُور یہی سبب ہے کہ فیصلہ سازوں کی اکثریت کے دامن گیر اپنے اپنے آبائی علاقوں اور انتخابی حلقوں کی فکر رہتی ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی تنخواہیں بمعہ مراعات یا مراعات بمعہ تنخواہ شمار کی جاتی ہیں۔
ایسے مخلصین سے توقعات وابستہ کرنے کی روائتی روش رکھنے والے ’اہل پشاور‘ کو بھی اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ وہ اپنے شہر کے بارے مسائل پر غور کریں اُور فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لیں۔
بڑے بڑے عزائم‘ ملکی و غیرملکی حالات و واقعات کی گھتیاں سلجھانے والی سراپا دانشور قائدین پر انحصار و توکل کرنے کی بجائے ’پشاور کو اپنی ذات‘ میں متحد ہونا ہوگا۔ اَلمیہ ہے کہ سال دو ہزار دو سے اب تک اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی نہ تو پشاور کے ٹریفک کا مسئلہ حل ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کی شدت میں کمی آئی ہے۔ سوچئے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب ’برکت‘ نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اِتفاق و اِتحاد نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی میں درجن سے زیادہ (بشمول مخصوص) نشستیں ہونے کے باوجود بھی پشاور قیادت و نمائندگی سے محروم ہے تو آخر کیوں؟ سمجھ لیجئے کہ ترقی کے نام پر حق تلفی‘ مسائل کا تسلسل اُور غیرمربوط‘ جزوی‘ جوں کی توں محض ’حکمت عملیاں‘ ہی کافی نہیں‘ جب تک ’سیادت کے منصب‘ پر پشاور خود فائز نہیں ہو جاتا!
![]() |
Traffic Warden Services introduced in #Peshawar but to solve and resolve the traffic issues, govt have to set it's priorities first |
No comments:
Post a Comment