ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انوکھی منطق!
انوکھی منطق!
کسی حکومت کی ’غریب دوستی‘کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کم
آمدنی والے طبقات کے لئے کس قدر سہولیات فراہم کرتی ہے اور ٹیکسوں کا بوجھ
غریبوں پر کم سے کم ڈالنے جبکہ زیادہ آمدنی رکھنے والوں سے زیادہ ٹیکس وصول
کرتی ہے۔ اسی طرح وہ سبھی کردار جو سرکاری اِداروں کے مقروض یا نادہندہ
ہوتے ہیں‘ اُن سے رعائت نہ کرنا بھی ایک طرح کی ’غریب دوستی‘ ہی کے زمرے
میں آتا ہے۔ کیا ہم اپنے نام نہاد رہنماؤں (اصلاح کاروں) سے اِس بات کی
توقع بجا رکھ سکتے ہیں کہ وہ عام آدمی کے دُکھ سکھ کا اِحساس کریں گے اور
اگر کہیں رعائت یا چھوٹ دینا ہوگی تو اُس طبقے کو ترجیح دی جائے گی جس کے
پاس اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے خاطرخواہ وسائل نہیں۔
وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بجلی کے بل ادا نہ کرنے والے ایسے ہزاروں نادہندگان کو ’تیس فیصد‘ چھوٹ دی جائے جو اگلے مہینے اپنے بقایاجات کی (یکمشت یا اقساط کی صورت) مکمل ادائیگی کرنے پر آمادہ ہوں یقیناًیہ فیصلہ بجلی کے ایسے تمام صارفین کے ساتھ ناانصافی ہے‘ جو باقاعدگی کے ساتھ اپنے ماہانہ بل ادا کر رہے ہیں اور اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ کوئی بھی اپنے بل ادا نہ کرے اور بعدازاں انہیں تیس فیصد چھوٹ دے دی جائے گی تو یہ کوئی منطقی و مثبت سوچ نہیں بلکہ اس فیصلے سے یہ غلط تاثر بھی جاتا ہے کہ حکومت امرأ کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ جن نادہندگان سے واجبات کی ایک ایک پائی وصول کی جانی چاہئے تھی‘ اُنہیں رعائت دی جا رہی ہے اور جن کے پاس ادا کرنے کے ایک پائی بھی نہیں اُنہیں نچوڑ کر ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں!
سال 2009ء سے 2012ء تک بجلی بلوں کے نادہندہ افراد کے خلاف چھاپہ مار کاروائی ہونی چاہئے تھی اور انہیں دیگر صارفین کے لئے نشان عبرت بنایا جائے ناکہ اُنہیں رعائت کا یوں مستحق قرار دیا گیا کہ جیسے اُنہوں نے بروقت بل ادا نہ کرکے کوئی جرم یا بطور صارف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ یہ اُن کا احسان عظیم ہے کہ بجلی استعمال کرنے کے بعد کسی وجہ سے سالہا سال تک ماہانہ بجلی بل ادا نہیں کر سکے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جب کوئی عام آدمی ایک مہینے بل ادا نہ کرے تو اُسے ’ڈس کنکشن‘ کا ’نوٹس‘ ارسال کر دیا جاتا ہے لیکن بااثر افراد سالہا سال سے بجلی بل ادا نہیں کر رہے اور نہ تو اُن کی صنعتوں اور نہ ہی عدم ادائیگی کی وجہ سے اُن کی رہائشگاہوں کے بجلی کنکشن کاٹے جاتے ہیں۔ قواعد کے اطلاق کا یہ معیار حکومتی دعوؤں اور اصلاحات کے عملی اطلاق کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔ کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ جولائی 2009ء سے جولائی 2012ء کے عرصہ میں نجی صارفین کے ذمے بجلی کے ’182 ارب روپے‘ واجب الادأ ہیں! ابتدأ میں تو پچاس فیصد رعائت دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن نجانے کس خوف کے تحت یہ رعائت تیس فیصد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ باقی ماندہ وصول ہونے والے بل کا دس فیصد حصہ بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے ملازمیں اور پانچ فیصد حصہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ وہ بلوں کی وصولی کے لئے کوشش کریں گے حالانکہ یہ ملازمین تنخواہ اور مراعات ہی اِس لئے حاصل کرتے رہے ہیں کہ وہ بجلی بلوں کی سو فیصد وصولی یقینی بنائیں گے۔ عجیب حال ہے کہ اب سرکاری ملازمین کو تنخواہ کے علاؤہ مزید مراعات اِس لئے دی جائیں گی تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کریں! یہ سفارش کسی بھی صورت وفاقی حکومت کے شایان شان نہیں کہ وصول ہونے والی رقم کا دس فیصد بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے ملازمین جبکہ پانچ فیصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے۔ تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سرکاری ایجنسیوں کے اہلکاروں کے لئے بھاری نقد انعام کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور قابل ذکر وصولی کے لئے صرف بجلی کی کمپنیوں کو پانچ فیصد ترغیبی رقم دینے کی منظوری دی ہے۔ پیکج کے تحت ایسے نادہندگان جو رواں سال 31جولائی تک مکمل بجلی بلوں کی مکمل ادائیگی پر آمادہ ہوں انہیں تیس فیصد‘ جو اپنے بقایاجات کی مکمل ادائیگی اگست میں کریں انہیں پچیس فیصد جبکہ ستمبر کے مہینے میں اپنے بقایاجات ادا کرنے والوں کو بیس فیصد چھوٹ دی جائے گی!
الاماشاء اللہ وفاقی حکومت نے ایک اور فیصلے میں چینی اور گندم پر درآمدی ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا ہے‘ تاکہ مارکیٹ میں ان اجناس کی قیمتیں برقرار رکھی جا سکیں۔ چینی کی قیمت اگر کم ہوتی تو اس سے فائدہ عام آدمی کا تھا لیکن چونکہ شوگرملز مالکان کے بھی مفادات ہیں‘ اِس لئے عوام کو درآمد ہونے والی سستی چینی کی بجائے اپنے ہی ملک میں‘ اپنے ہی گنے کی پیداوار سے حاصل ہونے والی چینی مہنگے داموں خریدنا پڑے گی۔ اگر وفاقی حکومت بجلی کے اکثریتی صارفین سے انصاف نہیں کر رہی تو اُن کاشتکاروں کو بھی شوگر ملز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جنہیں اپنی فصل کا معاوضہ نہ تو بروقت ملتا ہے اُور نہ ہی حکومت کے اعلان کردہ نرخوں کے مطابق صلہ مل پاتا ہے۔ ایک طرف بندۂ مزدور کے تلخ حالات ہیں تو دوسری طرف کاشتکار کے لئے خون پسینے ایک کرنا بھی سودمند نہیں۔ المیہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی سرمایہ کار مافیا نے ملک کو جھکڑ رکھا ہے۔ چینی‘ گھی و خوردنی تیل‘ دال چاول‘ سبزی فروٹ اُور آٹے جیسی اجناس و ضروریات پر خاص طبقے کی اجارہ داری ہے‘ جن کے لئے حکومتوں کے دل میں نرم گوشے کے سبب نجانے ہم عوام کی کتنی نسلوں کو محروم ومحکوم رہنا پڑے گا! ’’اک لہر مجھے کھینچ کے لے آئی بھنور میں۔۔۔ وہ لہر‘ جسے میں نے کنارے سے اُٹھایا!‘‘
وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بجلی کے بل ادا نہ کرنے والے ایسے ہزاروں نادہندگان کو ’تیس فیصد‘ چھوٹ دی جائے جو اگلے مہینے اپنے بقایاجات کی (یکمشت یا اقساط کی صورت) مکمل ادائیگی کرنے پر آمادہ ہوں یقیناًیہ فیصلہ بجلی کے ایسے تمام صارفین کے ساتھ ناانصافی ہے‘ جو باقاعدگی کے ساتھ اپنے ماہانہ بل ادا کر رہے ہیں اور اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ کوئی بھی اپنے بل ادا نہ کرے اور بعدازاں انہیں تیس فیصد چھوٹ دے دی جائے گی تو یہ کوئی منطقی و مثبت سوچ نہیں بلکہ اس فیصلے سے یہ غلط تاثر بھی جاتا ہے کہ حکومت امرأ کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ جن نادہندگان سے واجبات کی ایک ایک پائی وصول کی جانی چاہئے تھی‘ اُنہیں رعائت دی جا رہی ہے اور جن کے پاس ادا کرنے کے ایک پائی بھی نہیں اُنہیں نچوڑ کر ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں!
سال 2009ء سے 2012ء تک بجلی بلوں کے نادہندہ افراد کے خلاف چھاپہ مار کاروائی ہونی چاہئے تھی اور انہیں دیگر صارفین کے لئے نشان عبرت بنایا جائے ناکہ اُنہیں رعائت کا یوں مستحق قرار دیا گیا کہ جیسے اُنہوں نے بروقت بل ادا نہ کرکے کوئی جرم یا بطور صارف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ یہ اُن کا احسان عظیم ہے کہ بجلی استعمال کرنے کے بعد کسی وجہ سے سالہا سال تک ماہانہ بجلی بل ادا نہیں کر سکے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جب کوئی عام آدمی ایک مہینے بل ادا نہ کرے تو اُسے ’ڈس کنکشن‘ کا ’نوٹس‘ ارسال کر دیا جاتا ہے لیکن بااثر افراد سالہا سال سے بجلی بل ادا نہیں کر رہے اور نہ تو اُن کی صنعتوں اور نہ ہی عدم ادائیگی کی وجہ سے اُن کی رہائشگاہوں کے بجلی کنکشن کاٹے جاتے ہیں۔ قواعد کے اطلاق کا یہ معیار حکومتی دعوؤں اور اصلاحات کے عملی اطلاق کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔ کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ جولائی 2009ء سے جولائی 2012ء کے عرصہ میں نجی صارفین کے ذمے بجلی کے ’182 ارب روپے‘ واجب الادأ ہیں! ابتدأ میں تو پچاس فیصد رعائت دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن نجانے کس خوف کے تحت یہ رعائت تیس فیصد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ باقی ماندہ وصول ہونے والے بل کا دس فیصد حصہ بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے ملازمیں اور پانچ فیصد حصہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ وہ بلوں کی وصولی کے لئے کوشش کریں گے حالانکہ یہ ملازمین تنخواہ اور مراعات ہی اِس لئے حاصل کرتے رہے ہیں کہ وہ بجلی بلوں کی سو فیصد وصولی یقینی بنائیں گے۔ عجیب حال ہے کہ اب سرکاری ملازمین کو تنخواہ کے علاؤہ مزید مراعات اِس لئے دی جائیں گی تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کریں! یہ سفارش کسی بھی صورت وفاقی حکومت کے شایان شان نہیں کہ وصول ہونے والی رقم کا دس فیصد بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے ملازمین جبکہ پانچ فیصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے۔ تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سرکاری ایجنسیوں کے اہلکاروں کے لئے بھاری نقد انعام کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور قابل ذکر وصولی کے لئے صرف بجلی کی کمپنیوں کو پانچ فیصد ترغیبی رقم دینے کی منظوری دی ہے۔ پیکج کے تحت ایسے نادہندگان جو رواں سال 31جولائی تک مکمل بجلی بلوں کی مکمل ادائیگی پر آمادہ ہوں انہیں تیس فیصد‘ جو اپنے بقایاجات کی مکمل ادائیگی اگست میں کریں انہیں پچیس فیصد جبکہ ستمبر کے مہینے میں اپنے بقایاجات ادا کرنے والوں کو بیس فیصد چھوٹ دی جائے گی!
الاماشاء اللہ وفاقی حکومت نے ایک اور فیصلے میں چینی اور گندم پر درآمدی ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا ہے‘ تاکہ مارکیٹ میں ان اجناس کی قیمتیں برقرار رکھی جا سکیں۔ چینی کی قیمت اگر کم ہوتی تو اس سے فائدہ عام آدمی کا تھا لیکن چونکہ شوگرملز مالکان کے بھی مفادات ہیں‘ اِس لئے عوام کو درآمد ہونے والی سستی چینی کی بجائے اپنے ہی ملک میں‘ اپنے ہی گنے کی پیداوار سے حاصل ہونے والی چینی مہنگے داموں خریدنا پڑے گی۔ اگر وفاقی حکومت بجلی کے اکثریتی صارفین سے انصاف نہیں کر رہی تو اُن کاشتکاروں کو بھی شوگر ملز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جنہیں اپنی فصل کا معاوضہ نہ تو بروقت ملتا ہے اُور نہ ہی حکومت کے اعلان کردہ نرخوں کے مطابق صلہ مل پاتا ہے۔ ایک طرف بندۂ مزدور کے تلخ حالات ہیں تو دوسری طرف کاشتکار کے لئے خون پسینے ایک کرنا بھی سودمند نہیں۔ المیہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی سرمایہ کار مافیا نے ملک کو جھکڑ رکھا ہے۔ چینی‘ گھی و خوردنی تیل‘ دال چاول‘ سبزی فروٹ اُور آٹے جیسی اجناس و ضروریات پر خاص طبقے کی اجارہ داری ہے‘ جن کے لئے حکومتوں کے دل میں نرم گوشے کے سبب نجانے ہم عوام کی کتنی نسلوں کو محروم ومحکوم رہنا پڑے گا! ’’اک لہر مجھے کھینچ کے لے آئی بھنور میں۔۔۔ وہ لہر‘ جسے میں نے کنارے سے اُٹھایا!‘‘
![]() |
Discount on electricity bills, why not to come up with something to benefit the low income consumers |
No comments:
Post a Comment