ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زراعت دوستی!
زراعت دوستی!
ٹھیک اُن لمحات میں جبکہ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث جاری تھی‘
دارالحکومت اسلام آباد کی ’شاہراہ دستور‘ پر کسانوں نے انوکھے انداز میں
احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بڑی مقدار میں دودھ بہادیا۔ یہ
اپنی نوعیت کا منفرد احتجاج تھا‘ جسے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی خاطر خواہ
توجہ نہ مل سکی۔ احتجاج کا سبب یہ گلہ ہے کہ ’زرعی شعبہ محروم توجہ ہے اُور
سالہا سال سے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں‘ جس سے زراعت کو حاصل مراعات
یا تو ختم کی جا رہی ہیں یا پھر ان پر ایسے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں جن
سے کاشتکاری ایک دن بہ دن مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور بالخصوص چھوٹے
کاشتکاروں کے لئے تو کاشتکاری جاری رکھنا ہی ممکن نہیں رہا۔ کہیں اِس کی
وجہ ’کارپوریٹ فارمنگ‘ کے لئے ماحول بنانا تو نہیں؟
کون جانتا تھا کہ سولہ جون کی چلچلاتی دھوپ میں جمع ہونے والے سینکڑوں کاشتکار دودھ سے بھرے ہوئے کنستر سڑک پر اُنڈیل دیں گے اور اگر حکمراں حسب وعدہ ملک میں دودھ کی نہریں نہیں بہا سکے تو یہ کام کاشتکاروں نے کر تو دیا ہے‘ جن کا مطالبہ ہے کہ اُن کی محنت کا خاطرخواہ صلہ نہیں دیا جائے۔ یہ تماشا دیکھنے والوں کی اکثریت دودھ کے یوں ضیاع پر خوش نہیں تھی لیکن مظاہرین نے ایسے معترضین کو جواب دیا کہ ’’بین الاقوامی کمپنیاں جس قیمت پر پانی فروخت کررہی ہیں‘ اس سے کہیں کم ہمیں دودھ کی قیمت اَدا کرتی ہیں۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ وہ زراعت اُور مال مویشیوں سے وابستہ روزگار کے مفادات کا تحفظ کرے؟‘‘ اِس موقع پر وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسان اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کچھ منتخب نمائندوں کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور احتجاج کرنے والے کسانوں کو یقین دلایا کہ ان کے مسائل پارلیمنٹ میں اٹھائے جائیں گے تو یہ الگ سے تعجب خیز بات تھی کہ کاشتکاروں کے مسائل بارے متعلقہ حکومتی اہلکاروں کا علم محدود پایا گیا جبکہ اُنہوں نے ’ملٹی نیشنل‘ (غیرملکی) کمپنیوں کو حسب خواہش منافع کمانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ بناء کسی خوف و خطر کاشتکاروں کا استحصال کریں!
یہ حقیقت نہ تو گمشدہ ہے اور نہ ہی ڈھکی چھپی کہ گذشتہ کئی ماہ سے کسان برادری فصل کی کم ہوتی پیداوار‘ پیدواری ضروریات کی قیمتوں میں اضافے‘ موسم کے منفی اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے اُن معاشی مشکلات کا حل چاہتی ہے جس میں اُن زیرِ استعمال زرعی مشنری پر عائد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) واپس لینے سے ابتدأ کی جائے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرے کا اعلان کیا گیا لیکن ہر بار کسانوں کی گرفتاریوں نے بڑے اور منظم احتجاج کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ سولہ جون کو جب کاشتکار چھپ چھپا کر شاہراہ دستور پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو اُنہوں نے سب سے پہلے سڑک بند کی اور بعدازاں ملتان سے تعلق رکھنے والے ’پاکستان کسان اتحاد‘ نامی تنظیم کے مرکزی صدر خالد محمود کی قیادت میں حکومت مخالف نعرے لگا کر دل کی بھڑاس نکالنے لگے!
اگر محنت کش مزدور‘ کاشتکار اُورکسان اکثریت میں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ تعداد کے لحاظ سے اقلیتی فیصلہ ساز اُن کی بات نہیں سن رہے؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارا مزدور‘ کسان و کاشتکار طبقہ متحد نہیں اور اسی بناء غیرمعمولی یا چھوٹے پیمانے پر احتجاج کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ ہم سب یقین رکھتے ہیں اور نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے تو اس سے آگے یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ پاکستان کے کسان کئی دہائیوں سے مصیبت و مشکلات میں مبتلا ہیں؟ ہر بجٹ میں زراعت پر نئے ٹیکس عائد کر دیئے جاتے ہیں لیکن زراعت سے کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرنے والوں پر ٹیکس عائد نہیں! زراعت میں ٹیکنالوجی متعارف کرانے میں حکومت کی عدم دلچسپی ایک الگ موضوع ہے۔ اگر ہم زراعت کو کچھ دے نہیں سکتے تو جو کچھ اسے حاصل ہے کم از کم اُسے تو بحال رکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ سال وفاقی حکومت نے ٹیوب ویلوں کے لئے تیس ارب روپے کی رعائت (سبسڈی) فراہم کی تھی تاکہ کسان دس روپے پچاس پیسے فی یونٹ کے فلیٹ ریٹ پر بجلی حاصل کرسکیں‘ لیکن اس سال (مالی سال دو ہزار پندرہ سولہ) کے لئے یہ سبسڈی واپس لے لی گئی ہے!
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سیّد خورشید احمد شاہ کایہ بیان ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’وفاقی بجٹ میں ’’کسانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا اور حکومت کسانوں کے ساتھ مخلص نہیں۔‘‘ معلوم نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو ہوش اُس وقت کیوں آتی ہے جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے کیونکہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کاشتکار آج کی نسبت کچھ زیادہ خوشحال نہیں تھے۔ ہر سال پیداوار کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاری منافع بخش نہیں رہی تو اس کے لئے صرف موجودہ حکومت ذمہ دار نہیں البتہ اصولی بات ہے کہ جب تک موجودہ حکومت زراعت کے حق میں حکمت عملیاں تیار نہیں کرتی‘ پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگی۔‘‘
دنیا میں کہیں بھی زرعی شعبے پر ’جی ایس ٹی‘ نافذ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار کی قیمتیں کم رکھنے کے لئے حکومت کاشتکاروں کو مختلف طریقوں سے رعائت دیتی ہے۔ ہمارے ہاں کسان نظرانداز جبکہ صنعتیں منظور نظر ہیں‘ جنہیں فعال رکھنے کے لئے نہ تو بجلی دستیاب ہے اور نہ ہی گیس۔ کھاد‘ زرعی ادویات‘ زرعی مشینری‘ ڈیزل اور دیگر مصنوعات پر فراخدلانہ ’جی ایس ٹی‘ نافذ ہے‘ جس کی وجہ سے زرعی پیداوار کی لاگت میں اس حد تک اضافہ ہو چکا ہے جو عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے۔ سولہ جون کو صبح دس سے دوپہر دو بجے تک غیراعلانیہ علامتی مظاہرہ کرنے والوں نے فیصلہ سازوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کے ساتھ اِس ولولے اور عزم کا اِظہار بھی کیا ہے کہ اگر بجٹ پر نظرثانی و منظوری کے مراحل میں چھوٹے کاشتکاروں کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا تو پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے زیادہ بڑا اور طویل دھرنا دیا جائے گا۔ ’پاکستان کسان اتحاد‘ کو ملک کے دیگر حصوں بالخصوص خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو اُس جدوجہد کا حصہ بنانا چاہئے جس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں زرعی پیداوار‘ غذائی تحفظ اور کاشتکاری کے عوامل و مراحل پر عائد جملہ ٹیکس ختم کرنے کے لئے کاشتکار‘مزدور اُور کسان ایک ہو جائیں۔ کاشتکاروں کو بیج‘ ادویات اور زرعی مشینری فراہم کرنے کے لئے الگ سے رعائتی فراہمی مراکز کیوں قائم نہیں ہو سکتے؟ صوبائی زراعت کا محکمہ (توسیع و تحقیق) کے ملازمین کو اَدا کی جانے والی تنخواہیں اگر زراعت پر براہ راست خرچ ہونے لگیں تو ملک میں زرعی انقلاب آ سکتا ہے؟ اگر اجتماعیت کا فقدان نہ ہوتا‘ اگر ایک جیسے مفادات رکھنے والے طبقات تقسیم نہ ہوتے (جنہیں ایک سازش کے تحت گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے) تو ہمارے لئے جوہری صلاحیت کے مقابلے زراعت کی زیادہ اہمیت ہوتی بلکہ ہماری اصل طاقت ہی ’غذائی خودکفالت و تحفظ‘ ہے‘ جس کے بارے میں فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اہل سیاست و ریاست‘ دانشور طبقات‘ ذرائع ابلاغ اور متعلقہ علوم کے ماہرین غوروفکر‘ بحث مباحثے یا زمینی حقائق و ضروریات کا ادارک کرنے سے ’دانستہ فاصلہ‘ رکھے ہوئے ہیں!
کون جانتا تھا کہ سولہ جون کی چلچلاتی دھوپ میں جمع ہونے والے سینکڑوں کاشتکار دودھ سے بھرے ہوئے کنستر سڑک پر اُنڈیل دیں گے اور اگر حکمراں حسب وعدہ ملک میں دودھ کی نہریں نہیں بہا سکے تو یہ کام کاشتکاروں نے کر تو دیا ہے‘ جن کا مطالبہ ہے کہ اُن کی محنت کا خاطرخواہ صلہ نہیں دیا جائے۔ یہ تماشا دیکھنے والوں کی اکثریت دودھ کے یوں ضیاع پر خوش نہیں تھی لیکن مظاہرین نے ایسے معترضین کو جواب دیا کہ ’’بین الاقوامی کمپنیاں جس قیمت پر پانی فروخت کررہی ہیں‘ اس سے کہیں کم ہمیں دودھ کی قیمت اَدا کرتی ہیں۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ وہ زراعت اُور مال مویشیوں سے وابستہ روزگار کے مفادات کا تحفظ کرے؟‘‘ اِس موقع پر وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسان اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کچھ منتخب نمائندوں کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور احتجاج کرنے والے کسانوں کو یقین دلایا کہ ان کے مسائل پارلیمنٹ میں اٹھائے جائیں گے تو یہ الگ سے تعجب خیز بات تھی کہ کاشتکاروں کے مسائل بارے متعلقہ حکومتی اہلکاروں کا علم محدود پایا گیا جبکہ اُنہوں نے ’ملٹی نیشنل‘ (غیرملکی) کمپنیوں کو حسب خواہش منافع کمانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ بناء کسی خوف و خطر کاشتکاروں کا استحصال کریں!
یہ حقیقت نہ تو گمشدہ ہے اور نہ ہی ڈھکی چھپی کہ گذشتہ کئی ماہ سے کسان برادری فصل کی کم ہوتی پیداوار‘ پیدواری ضروریات کی قیمتوں میں اضافے‘ موسم کے منفی اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے اُن معاشی مشکلات کا حل چاہتی ہے جس میں اُن زیرِ استعمال زرعی مشنری پر عائد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) واپس لینے سے ابتدأ کی جائے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرے کا اعلان کیا گیا لیکن ہر بار کسانوں کی گرفتاریوں نے بڑے اور منظم احتجاج کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ سولہ جون کو جب کاشتکار چھپ چھپا کر شاہراہ دستور پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو اُنہوں نے سب سے پہلے سڑک بند کی اور بعدازاں ملتان سے تعلق رکھنے والے ’پاکستان کسان اتحاد‘ نامی تنظیم کے مرکزی صدر خالد محمود کی قیادت میں حکومت مخالف نعرے لگا کر دل کی بھڑاس نکالنے لگے!
اگر محنت کش مزدور‘ کاشتکار اُورکسان اکثریت میں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ تعداد کے لحاظ سے اقلیتی فیصلہ ساز اُن کی بات نہیں سن رہے؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارا مزدور‘ کسان و کاشتکار طبقہ متحد نہیں اور اسی بناء غیرمعمولی یا چھوٹے پیمانے پر احتجاج کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ ہم سب یقین رکھتے ہیں اور نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے تو اس سے آگے یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ پاکستان کے کسان کئی دہائیوں سے مصیبت و مشکلات میں مبتلا ہیں؟ ہر بجٹ میں زراعت پر نئے ٹیکس عائد کر دیئے جاتے ہیں لیکن زراعت سے کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرنے والوں پر ٹیکس عائد نہیں! زراعت میں ٹیکنالوجی متعارف کرانے میں حکومت کی عدم دلچسپی ایک الگ موضوع ہے۔ اگر ہم زراعت کو کچھ دے نہیں سکتے تو جو کچھ اسے حاصل ہے کم از کم اُسے تو بحال رکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ سال وفاقی حکومت نے ٹیوب ویلوں کے لئے تیس ارب روپے کی رعائت (سبسڈی) فراہم کی تھی تاکہ کسان دس روپے پچاس پیسے فی یونٹ کے فلیٹ ریٹ پر بجلی حاصل کرسکیں‘ لیکن اس سال (مالی سال دو ہزار پندرہ سولہ) کے لئے یہ سبسڈی واپس لے لی گئی ہے!
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سیّد خورشید احمد شاہ کایہ بیان ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’وفاقی بجٹ میں ’’کسانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا اور حکومت کسانوں کے ساتھ مخلص نہیں۔‘‘ معلوم نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو ہوش اُس وقت کیوں آتی ہے جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے کیونکہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کاشتکار آج کی نسبت کچھ زیادہ خوشحال نہیں تھے۔ ہر سال پیداوار کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاری منافع بخش نہیں رہی تو اس کے لئے صرف موجودہ حکومت ذمہ دار نہیں البتہ اصولی بات ہے کہ جب تک موجودہ حکومت زراعت کے حق میں حکمت عملیاں تیار نہیں کرتی‘ پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگی۔‘‘
دنیا میں کہیں بھی زرعی شعبے پر ’جی ایس ٹی‘ نافذ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار کی قیمتیں کم رکھنے کے لئے حکومت کاشتکاروں کو مختلف طریقوں سے رعائت دیتی ہے۔ ہمارے ہاں کسان نظرانداز جبکہ صنعتیں منظور نظر ہیں‘ جنہیں فعال رکھنے کے لئے نہ تو بجلی دستیاب ہے اور نہ ہی گیس۔ کھاد‘ زرعی ادویات‘ زرعی مشینری‘ ڈیزل اور دیگر مصنوعات پر فراخدلانہ ’جی ایس ٹی‘ نافذ ہے‘ جس کی وجہ سے زرعی پیداوار کی لاگت میں اس حد تک اضافہ ہو چکا ہے جو عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے۔ سولہ جون کو صبح دس سے دوپہر دو بجے تک غیراعلانیہ علامتی مظاہرہ کرنے والوں نے فیصلہ سازوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کے ساتھ اِس ولولے اور عزم کا اِظہار بھی کیا ہے کہ اگر بجٹ پر نظرثانی و منظوری کے مراحل میں چھوٹے کاشتکاروں کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا تو پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے زیادہ بڑا اور طویل دھرنا دیا جائے گا۔ ’پاکستان کسان اتحاد‘ کو ملک کے دیگر حصوں بالخصوص خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو اُس جدوجہد کا حصہ بنانا چاہئے جس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں زرعی پیداوار‘ غذائی تحفظ اور کاشتکاری کے عوامل و مراحل پر عائد جملہ ٹیکس ختم کرنے کے لئے کاشتکار‘مزدور اُور کسان ایک ہو جائیں۔ کاشتکاروں کو بیج‘ ادویات اور زرعی مشینری فراہم کرنے کے لئے الگ سے رعائتی فراہمی مراکز کیوں قائم نہیں ہو سکتے؟ صوبائی زراعت کا محکمہ (توسیع و تحقیق) کے ملازمین کو اَدا کی جانے والی تنخواہیں اگر زراعت پر براہ راست خرچ ہونے لگیں تو ملک میں زرعی انقلاب آ سکتا ہے؟ اگر اجتماعیت کا فقدان نہ ہوتا‘ اگر ایک جیسے مفادات رکھنے والے طبقات تقسیم نہ ہوتے (جنہیں ایک سازش کے تحت گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے) تو ہمارے لئے جوہری صلاحیت کے مقابلے زراعت کی زیادہ اہمیت ہوتی بلکہ ہماری اصل طاقت ہی ’غذائی خودکفالت و تحفظ‘ ہے‘ جس کے بارے میں فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اہل سیاست و ریاست‘ دانشور طبقات‘ ذرائع ابلاغ اور متعلقہ علوم کے ماہرین غوروفکر‘ بحث مباحثے یا زمینی حقائق و ضروریات کا ادارک کرنے سے ’دانستہ فاصلہ‘ رکھے ہوئے ہیں!
No comments:
Post a Comment