Tuesday, June 16, 2015

The KP Budget

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
’بہت خاص‘ بجٹ؟
بہت سے کام ادھورے پڑے ہیں۔ توقعات بہت‘ وقت کم اُور مقابلہ سخت نہ ہوتا تو انتخابی وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ کا تیسرا بجٹ زیادہ مختلف ثابت ہوتا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ تنخواہوں اور دیگر مراعات و سہولیات کی مد میں فیصلہ سازوں پر ہی خرچ ہونے ہیں تو آخر ’ترقی‘ کا لفظ استعمال ہی کیوں کیا جاتاہے؟ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے لئے تاریخ کے سب سے بڑے ’عام انتخابات‘ کا انعقاد ہوتا ہے اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کی تسلی تشفی کے لئے پندرہ جون کو پیش کردہ صوبائی بجٹ کا بڑا حصہ مقامی حکومتوں کے نام کردیا جاتا ہے‘ تو کیا ایسا کرنا ہیکافی سمجھا جائے؟

’چارکھرب ستاسی ارب پچاسی کروڑ چالیس لاکھ روپے‘ کے بجٹ میں کم و بیش 175 ارب روپے ’سالانہ ترقیاتی پروگراموں‘ کے لئے مختص کئے گئے جن میں سے 42 ارب روپے مقامی حکومتوں کو دیئے جائیں گے۔ اس کے علاؤہ 102 ارب روپے سے زائد کی رقم مقامی حکومتوں کے دیگر اخراجات کے لئے مختص کرنے سے بلدیاتی نظام کو ملنے والے مالی وسائل کا حجم 144 ارب روپے سے زیادہ ہو جاتا ہے! جس کا 10فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرنے کو مشروط کرنا تبدیلی کے تناظر میں مرتب ہونے والی حکمت عملی کو بہت خاص بنا دیتی ہے۔ خواب ہے کہ آئندہ ایک سال کے دوران اضلاع کی سطح پر ہر مقامی حکومت 6 ارب روپے خرچ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہری و دیہی علاقوں میں اِس ’ترقیاتی انقلاب‘ کے ثمرات ظاہر نہ ہوں۔ تیس مئی کو خیبرپختونخوا کے 24 اضلاع (ایبٹ آباد‘ بنوں‘ بٹ گرام‘ بونیر‘ چارسدہ‘ چترال‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہنگو‘ ہری پور‘ کرک‘ کوہاٹ‘ لکی مروت‘ لوئر دیر‘ مالاکنڈ‘ مانسہرہ‘ مردان‘ نوشہرہ‘ پشاور‘ شانگلہ‘ صوابی‘ سوات‘ ٹانک‘ تورغر اُور اپر دیر)کی 978 یونین کونسلوں میں بلدیاتی عام انتخابات کا انعقاد ہوا‘ جہاں کے بلدیاتی اداروں کو مضبوط و فعال بنانے کے ساتھ چند اضلاع کے لئے صوبائی حکومت نے الگ سے ترقیاتی پیکجز کا اعلان بھی کیا جیسا کہ ضلع پشاور جس کی 92 یونین کونسلوں کے لئے خصوصی پیکج کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ تعلیم و صحت جیسے کلیدی شعبے کے ساتھ ثقافت‘ سیاحت اور آثارقدیمہ پر توجہ خوش آئندہے۔

 گذشتہ مالی سال کے مقابلے ’42 فیصد‘ زیادہ ترقیاتی بجٹ مختص کرنے سے ثابت ہوا ہے کہ ’تحریک انصاف‘ کے فیصلہ سازوں نے خیبرپختونخوا میں ترقی کے معطل عمل کو زیادہ تیزی سے شروع کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسی ضرورت تھی‘ جس کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جارہا تھا لیکن افسوس کہ ’سیاست برائے سیاست‘ کرنے والی حزب اختلاف نے اُن اچھے اقدامات کو بھی احتجاج کی نذر کر دیا‘ جن کا مطالبہ خود اُن کی طرف سے بھی آ رہا تھا۔ کیا پشاور کا ماسٹر پلان جس میں انفراسٹرکچر کی بہتری اور خوبصورتی کے ساتھ سب سے اہم ضرورت یونیورسٹی روڈ کی توسیع اور ’رنگ روڈ‘ کے منصوبے کی تکمیل شامل ہے کسی بھی طرح معمولی ہیں؟یاد رہے کہ مالی سال دو ہزار پندرہ سولہ کے لئے پشاور کے لئے جو ’ملٹی سیکٹورل ڈویلمپنٹ پروگرام‘ تشکیل دیا گیا ہے اس میں 43منصوبے شامل ہیں جن پر 5ارب سے زائد لاگت آئے گی جبکہ پورے صوبے میں پانی کے ترسیلی بوسیدہ پائپ تبدیل کرنے کے لئے بھی 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس کا بڑا حصہ بھی پشاور ہی پر خرچ ہوگا کیونکہ پشاور کی طرح کسی دوسرے ضلع میں پانی کا اِس قدر وسیع ترسیلی نظام موجود نہیں۔ پشاور کو ایک عرصے سے تعمیر و ترقی کی ضرورت تھی‘ جس کا ادراک کرنے میں اگرچہ تاخیر ہوئی لیکن صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آ جائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے لیکن عجب ہے کہ بلدیاتی اداروں کے مختص بجٹ کا بڑا حصہ غیرترقیاتی اخراجات کی نذر ہو جائے گا۔

مقامی حکومتوں کے لئے مختص 144 ارب روپے میں سے 98 ارب روپے تنخواہوں اور پانچ ارب روپے بناء تنخواہوں اخراجات کی مد میں خرچ ہوں گے۔ باقی ماندہ پیسوں میں سے 13 ارب روپے دیہی و ہمسائیگی کونسلوں اور 8 ارب روپے ضلع و تحصیل کی کونسلوں کو دیئے جائیں گے۔ فی ضلع ایک ارب روپے سے کم مالی وسائل کی فراہمی سے اراکین صوبائی اسمبلی کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ بلدیاتی ادارے اور مقامی حکومتیں اپنا وجود رکھیں گی لیکن اُن کے پاس ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل نہیں ہوں گے۔ اگر بلدیاتی نظام مرتب و تشکیل کر دیا گیا ہے تو پھر قانون ساز اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی فنڈز کیوں دیئے جاتے ہیں اور اگر ترقیاتی فیصلے صوبائی اراکین اسمبلی نے ہی کرنے ہیں تو پھر بلدیاتی اداروں کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے بلدیاتی ادارے ایک نئے بوجھ کی صورت ایک ایسی ذمہ داری بن گئے ہیں‘ جن سے درد کی کیفیت میں آرام تو ہوگا لیکن یہ ترقیاتی عمل کے تعطل سے پیدا ہونے والے پیچیدہ امراض کا علاج نہیں۔

صرف مقامی حکومتیں ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں پولیس کے لئے مختص 90فیصد مالی وسائل بھی تنخواہوں کی (غیرترقیاتی) مد میں خرچ ہو جائیں گے! پولیس کے لئے مختص رقم میں سے 28.57 ارب روپے تنخواہوں جبکہ 4.18ارب روپے آپریشنل اخراجات جبکہ تین کروڑ سے کم روپے ترقیاتی اَخراجات کے لئے اَدا ہونے کے بعد جو کچھ رہ جائے گا‘ اُس سے صرف منصوبہ بندی ہی ممکن ہو سکے گی! ایک طرف خیبرپختونخوا کو دہشت گردی متاثر قرار دے کر ہر سال پولیس کے بجٹ میں اوسطاً پندرہ فیصد اضافہ کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ مختص رقم کا بڑا حصہ تو غیرترقیاتی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے! اگر ہمیں مستعد و مؤثر پولیسنگ کی ضرورت ہے جس کے پاس فعال قسم کا بم ڈسپوزل سکواڈ ہو‘ جس کے پاس جیل خانہ جات میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش اور تفتیش میں استعمال ہونے والے جدید ترین آلات (ٹیکنالوجی) گاڑیاں و ہتھیار ہوں تو یقیناًبجٹ پر نظرثانی کے عمل میں نومنتخب مقامی حکومتوں اور محکمۂ پولیس کے لئے مختص مالی وسائل میں اضافہ ہونا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment