Monday, June 15, 2015

Jun2015: Health Reforms & issues

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شعبۂ صحت: انتظامی اصلاحات
خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال 2015-16ء کے لئے آمدنی و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) مرتب کرتے ہوئے صحت کے شعبے کو خاص توجہ دی ہے‘ جو اگرچہ حسب حال و ضرورت کافی نہیں لیکن اُمید ہے کہ اگر 10فیصد اضافی مالی وسائل فراہم کرنے سے صحت کی موجودہ سہولیات میں بہتری آئے گی اور اگر اِس مرتبہ سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کئے جانے والے علاج کے معیار پر توجہ دی جائے‘ طبی و معاون طبی عملے کو خوش اخلاقی کی تلقین کی جائے‘ سرکاری وسائل کا دردمندی سے استعمال کرنے کی ترغیب و تلقین کی جائے‘ سرکاری ہسپتالوں میں خراب طبی آلات (مشینری) کی مرمت و بحال کئے جائیں اور نجی علاج گاہوں کی طرح سرکاری ہسپتالوں سے رجوع کرنے والوں کو بھی اطمینان قلبی میسر ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کے حسب توقع بہتر و عملی طور پر نمایاں نتائج سامنے آئیں۔

نئے مالی سال کے بجٹ کا بڑا حصہ ترقیاتی حکمت عملیوں کے لئے مختص کرنے کا مقصد وہ تنقید ہو سکتی ہے جو تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت پر کی جاتی ہے۔ صوبائی بجٹ کا مجموعی حجم لگ بھگ پانچ سو ارب روپے میں سے شعبۂ صحت کا ترقیاتی بجٹ کم و بیش 9 ارب روپے غیرمعمولی رقم ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ مالی سال دوہزار چودہ پندرہ میں صحت کا ترقیاتی بجٹ 8.2 ارب روپے تھا اور چونکہ آبادی کے تناسب اور دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کے مراکز کی اشد ضرورت ہے‘ تاکہ ضلعی ہیڈکواٹرز اور مرکزی ہسپتالوں سے رجوع کرنے والے مریضوں کا بوجھ کم ہو سکے‘ لیکن اِس ضرورت کو ختم ہوئے مالی سال میں خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ اگر ہم گذشتہ مالی سال میں مختص کئے گئے مالی وسائل کے استعمال کا جائزہ لیں تو صحت کے لئے 8.2 ارب روپے مختص تو کر دیئے گئے لیکن پانچ جون تک اِس میں سے صرف 3.7 ارب روپے خرچ کئے گئے تھے جبکہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملنے والی غیرملکی امداد کا بھی صرف 63فیصد حصہ ہی باوجود کوشش و خواہش استعمال کیا جاسکا۔ تو معلوم ہوا کہ صحت کی سہولیات حسب ضرورت نہ ہونے سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ سرکاری اداروں کی صلاحیت و استعداد ہی نہیں کہ وہ طبی سہولیات کے معیار اور اُن کی توسیع جیسے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دستیاب مالی و دیگر وسائل بروئے کار لا سکیں۔ مستقل تنخواہوں اور مراعات پر نظر رکھنے والوں کے پیش نظر عام آدمی کی مشکلات نہیں۔ اگر بذریعہ قانون جملہ سرکاری ملازمین اُور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں بشمول سینیٹرز صاحبان کو اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ صرف اور صرف سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروائیں گے تو یقیناًدنیا بھر سے جدید ترین مشینری اور علاج کی بہتر سے بہتر سہولیات کا بندوبست ہونا شروع ہو جائے گا۔ سینئر و جونیئر معالجین اپنی تنخواہوں اور مراعات کے حق میں مظاہرے کرتے ہیں‘ ہڑتال کر کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کا پورا نظام ٹھپ کر دیا جاتا ہے لیکن آج تک کسی ڈاکٹر صاحب کو اِس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ متعلقہ ہسپتال میں سہولیات کی کمی کو موضوع بنا کر احتجاج کرے یا کم سے کم اِحتجاج کرنے کا اعلان ہی کردے تاکہ حکومت کی توجہ اِس شعبے کی اُن خامیوں کی طرف ہو سکے‘ جس کا تعلق زیادہ تر ’انتظامی بے قاعدگیوں‘ سے ہے!

خیبرپختونخوا میں شعبۂ صحت سے متعلق فیصلہ سازی کے مراحل سے آگاہ ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حکومت کو نجی علاج گاہوں کا بغور مطالعہ (سٹڈی) کرنا چاہئے جو انتہائی کم مالی وسائل میں علاج کی زیادہ بہتر سہولیات فراہم کر رہے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ معالج (ڈاکٹر) اور معاون طبی عملہ (پیرامیڈیکس) اپنی اپنی جگہ مطمئن نہیں اور نہ ہی سرکاری علاج گاہوں سے رجوع کرنے والے مطمئن ہیں تو آخر اِن اداروں کی کارکردگی ایک ایسی سیاسی حکومت کے لئے کس طرح ’اِطمینان بخش‘ ہو سکتی ہے جو تبدیلی اُور انقلاب و احتساب کے وعدوں کے ساتھ حکومت میں آئی ہو؟‘‘ ضلع پشاور ہی کی مثال لیں کہ یہاں 102 سرکاری (چھوٹی بڑی) علاج گاہیں ہیں لیکن اِن میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جس کی عمارت میں کوئی نہ کوئی کمی بیشی نہ ہو۔ توسیع کی ضرورت نہ ہو۔ طبی عملہ اور اَدویات وافر مقدار میں دستیاب ہوں اور سب سے بڑھ کر خون کے تجزیئے کی فوری سہولیات یا ایکسرے جیسی ضرورت ہر طبی سہولت کا حصہ نہیں۔ کیا ہم اِس عزم کا اظہار کرسکتے ہیں کہ نئے مالی سال کے دوران تمام سرکاری ہسپتالوں میں خراب پڑی ہوئی مشینری مرمت یا تبدیل کرکے فعال کر دی جائے گی؟ ایک لمبی مسافت چھلانگیں مار کر نہیں بلکہ قدم قدم چلتے ہوئے ہوئے طے کی جا سکتی ہے جسے ’ہنوز دلی دور است‘ کی طرح ہمارے تجاہل عارفانہ نے ’ترجیحاتی نظروں‘ سے اُوجھل کر رکھا ہے۔

ختم ہوئے مالی سال کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ شعبہ صحت میں انگوٹھے کے نشان سے حاضری متعارف کرائی گئی۔ وہ ڈاکٹر اور طبی عملہ جو کبھی وقت پر سرکاری ہسپتالوں میں تشریف نہیں لاتے تھے‘ کم از کم جسمانی طور پر حاضر ہونے لگے۔ یہ معاملہ شہری علاقوں میں بڑی حد تک کامیاب (کارگر) ثابت ہوا جبکہ دور دراز دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ و بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ’بائیومیٹرک حاضری کا طریقۂ کار‘ نافذ نہیں کیا جاسکا۔ سب سے زیادہ ڈاکٹروں کی موجودگی جہاں ضروری تھی‘ وہاں تاحال ممکن نہیں بنائی جاسکی! محکمۂ صحت کے زیراستعمال گاڑیوں کا غیرسرکاری یا نجی مقاصد کے لئے استعمال بھی تاحال کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے پاس ایمبولینس گاڑیوں کے لئے مالی وسائل کم ہیں لیکن انتظامی عہدوں پر فائز صاحبان اُور اُن کے اہل خانہ کے لئے نہ تو گاڑیوں کی کمی ہے اور نہ ہی ایندھن کی! تجویز ہے کہ تمام سرکاری گاڑیوں کو سبز یا لال رنگ کر دیا جائے تاکہ اُن کی شناخت ممکن ہو سکے اور صرف یہی ایک صورت باقی بچی ہے کہ دفتری اوقات کے علاؤہ سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے (مال مفت دل بے رحم) کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ ڈاکٹروں اُور اَدویات ساز اِداروں کے درمیان تعلق داری‘ ایک دوسرے سے ’حسب حال و ضرورت تعاون‘کے بارے میں غوروفکر ہونا چاہئے۔ نجی علاج گاہوں میں ’فارمیسی شاپس (ادویات فروشی)‘ پر پابندی ہونی چاہئے لیکن کیا ایسا عملاً ممکن ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کا ایک بڑا ہسپتال ایسا بھی ہے جہاں ’فارمیسی شاپ‘ گذشتہ کئی برس سے قائم ہے اور باوجود اجارے کی مدت ختم ہونے کے بھی (خاکم بدہن) یہ ’بے قاعدگی باقاعدگی‘ سے جاری ہے!

No comments:

Post a Comment