Sunday, June 14, 2015

Jun2015: Identity on sale too

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مجرم کون؟
’’۔۔۔بات صرف خیبرپختونخوا کی حد تک محدود نہیں رہی اور نہ ہی اِسے محدود سمجھنا چاہئے کیونکہ جعل سازی سے پاکستان کے ’کمپیوٹرائرذ قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کرنے والے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں اُور صرف یہی نہیں کہ اُن کی اکثریت بڑے شہروں میں آباد ہے بلکہ خود کو قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی نظروں سے دُور رکھنے کے لئے اکثریت آبادی کے اُن چھوٹے اضلاع (دیہی و نیم شہری علاقوں) کا رخ کرتی ہے‘ جہاں پاؤں جمانے‘ جائیدادیں خریدنے اور کاروباری‘ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد وہ مقامی افراد میں اِس طرح سرایت کر جاتے ہیں کہ وہ رشتے داریاں بنا لیتے ہیں۔ اگرچہ قانون تو پہلے ہی سے موجود تھا لیکن اب اُس پر نئے جذبے سے عمل درآمد کرنے کے عزم کے ساتھ اُن سبھی افراد کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جنہوں نے جعل سازی سے قومی شناختی کارڈز حاصل کر رکھے ہیں اُور چونکہ ابتدأ کہیں نہ کہیں سے کرنا ہی تھی اِس لئے کوائف کی جانچ سے شروع ہوئی بات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تصدیق کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز و بناء سیاسی وابستگیوں کا خیال کئے مقدمات (ایف آئی آرز) درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جنہوں نے قومی شناختی کارڈز کے مجوزہ فارم کسی نہ کسی وجہ سے (بشمول مالی فائدے) تصدیق کئے۔ اِن میں سابق ادوار سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی‘ سینیٹرز اور سرکاری ملازمین شامل ہیں‘ جنہوں نے ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کے اُس تصدیق والے طریقۂ کار کو بے معنی بنا کر رکھ دیا جو ملکی و غیرملکی کی شناخت معلوم کرنے کے لئے وضع کیا گیا تھا۔‘‘ پشاور پولیس کے ایک انتظامی اہلکار سے بات چیت کے دوران یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ’’سرفہرست پانچ منظم جرائم (بھتہ خوری‘ اغوأ برائے تاوان‘ اُجرت کے عوض قتل‘ جائیدادوں پر قبضہ اُور منشیات فروشی) کرنے والے پیشہ ور گروہوں کے تانے بانے کہیں نہ کہیں سرحد پار اُن افغان باشندوں سے جا ملتے ہیں جن کے پاس بیک وقت پاکستان اور افغانستان کی شناختی دستاویزات ہیں اور وہ آزادانہ طور پر آمدورفت کر سکتے ہیں اُور اپنی مذموم کاروائیوں کے لئے قبائلی علاقوں کا استعمال کررہے ہیں اور جب تک بندوبستی علاقوں سے متصل الگ انتظامی و قانونی ڈھانچہ رکھنے والی سرزمین کا ’امتیازی تشخص‘ ملک کے دیگر بندوبستی علاقوں کے مساوی نہیں کردیا جاتا ایسی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔‘‘ یاد رہے کہ قبائلی علاقے وفاق کے زیرانتظام ہیں اُور صوبائی حکومت باوجود خواہش بھی قبائلی علاقوں کے بارے میں نہ تو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی متصل بندوبستی علاقوں کی پولیس و قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے اُس قبائلی سرحد کو عبور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

خیبرپختونخوا پولیس نے افغان مہاجرین کو جاری ہونے والے ’کمپیوٹررائزڈ قومی شناختی کارڈز‘ کا معمہ حل کرنے کی ابتدأ اُن تمام افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے سے کی ہے جنہوں نے ’نادرا‘ کے فارم تصدیق کرنے سے قبل اس حساس معاملے سے جڑی اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہ ادراک و احساس نہیں کیا۔ یاد رہے کہ جاری ماہ کے دوران 531 ایسی ’ایف آئی آرز‘ درج کی گئیں ہیں جو صرف اور صرف شناختی کارڈ فارمز کی ’غلط تصدیق‘ کی بنیاد پر ہیں اور ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والی ’ابتدائی تفتیشی رپورٹوں‘ کی تعداد تو کم وبیش 500 ہے اور اِن ’ایف آئی آرز‘ میں ایک ایک حاضر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے علاؤہ دو سابق اراکین صوبائی اسمبلی کے علاؤہ پشاور کے سابق میئر اُور کئی یونین کونسلوں کے ناظم و نائب ناظمین‘ ہیڈ ماسٹر و دیگر سرکاری اہلکاروں کو پولیس نے شامل تفتیش کر رکھا ہے‘ جنہوں نے اپنے دستخط اُور مہریں لگانے میں احتیاط سے کام نہیں لیا! یاد رہے کہ ’نادرا‘ آرڈیننس (مجریہ) 2000ء‘ اُور ’پاکستان پینل کوڈ‘ کے تحت یہ مقدمات درج ہو رہے ہیں لیکن گرفتاریاں عمل میں نہیں آئیں کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی و سماجی اثرورسوخ‘ تعلق داریاں‘ قبائلی وابستگیاں اور سب سے بڑھ کر رشوت کے کرشمے عام ہیں یہی وجہ ہے کہ ’نادرا‘ کی جانب سے پولیس کو موصول ہونے والی فہرست پر گرفتاریوں سے قبل ہی اکثریت نے قبل اَز گرفتاری ضمانتیں کروا لیں!

افسوس‘ حیرت اور پریشانی کا باعث امر یہ ہے کہ ہمیں اب تک اُس ’ایک ذمہ دار (مجرم)‘ کا نام نامی‘ اسم گرامی یا وہ محرک معلوم نہیں ہوسکا جو پاکستان کی قومی شناختی دستاویز کی ارزانی کا باعث بنا۔

کیا ’نادرا‘ کے قواعد تشکیل دینے میں کوتاہی ہوئی؟ کیا ہم ’نادرا‘ اہلکاروں کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں جنہوں نے فارم کی تصدیق اور جانچ کرتے ہوئے درخواست دہندہ کی ’باڈی لینگویج‘ اُس کی بول چال اور نفسیاتی جائزہ نہیں لیا۔ اگر فارم کی تصدیق کرنے والے مجرم ہیں تو انہیں من و عن قبول کرنے والوں کی بھی کچھ نہ کچھ اور کہیں نہ کہیں ذمہ داری تو بنتی ہے۔ افغان مہاجرین کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نے مارکیٹ ریٹ سے زیادہ کرائے پر گھر اور کاروباری جائیدادیں حاصل کر رکھی ہیں اور جائیداد کے مالک اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اُن کی پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ زیادہ کرائے کی لالچ میں ایسے افغان خاندانوں کے آلۂ کار بھی بنے ہوئے ہیں۔ اِس پورے منظرنامے کا حل ’ٹیکنالوجی کا استعمال‘ ہے۔ سردست پرانی تاریخوں میں ’سٹامپ پیپرز‘ کا حصول بھی ممکن ہے اور جائیداد کی خریدوفروخت کی ایسی اصل دستاویزات بنانا بھی مشکل نہیں جن پر قیام پاکستان سے پہلے یا اُنیس سو پچاس کی دہائی کے بعد کی تاریخیں درج ہوں۔ پٹوار خانے اور تعلیمی بورڈز و جامعات کی مکمل کمپیوٹرائزیشن میں غیرضروری تاخیر ’مجرمانہ غفلت‘ کے زمرے میں آتی ہے۔

اَفغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے قبائلی علاقوں سے ’قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کر رکھے ہیں‘ جن کی بنیاد پر بینک اکاونٹس‘ پاسپورٹ اُور جائیداد کی خریدوفروخت اگر ڈھکی چھپی بات نہیں تو آئندہ شناختی کارڈز کی تصدیق ’ڈی این اے ٹیسٹ‘ سے مشروط کی جاسکتی ہے جس کے لئے ’نادرا‘ کو مرکزی سطح پر اپنی الگ ’ڈی این اے لیب‘ بنانا ہوگی کیونکہ سردست وفاق حکومت کی زیرنگرانی ’ڈی این اے کی قومی تجزیہ گاہ‘ سے من چاہے نتائج حاصل کرنا مشکل نہیں! جہاں ذاتی مفاد کے لئے ’شارٹ کٹ‘ قومی مشغلہ ہو‘ جہاں سفارش اہلیت پر غالب اور اہلیت تعلق کی ’محتاج تعارف‘ ہو وہاں نت نئے قواعد و ضوابط تشکیل تو دیئے جا سکتے لیکن ایسی کوششوں سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ پاکستان کی قومی شناخت جعل سازی سے حاصل کی گئی اور یہ سلسلہ تفکر کے اِس لمحے یہیں رک جائے تو مسئلے کی جڑ (بنیاد) اُور مفاد پرست قومی مجرموں تک پہنچنے کے لئے ’ٹیکنالوجی‘ اِختیار کرنے کے سوأ کوئی دوسری ’بااختیار صورت‘ باقی نہیں رہی۔

No comments:

Post a Comment