Saturday, June 13, 2015

Jun2015 Special Games in Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خصوصی افراد: خصوصی کھیل!
خیبرپختونخوا کے شہر ایبٹ آباد کے حصے میں ہر سال یہ اعزاز آتا ہے کہ یہاں ماہ جون میں خصوصی بچوں (افراد باہم معذوراں) کے درمیان مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے‘ جس میں پورے پاکستان سے ٹیمیں شریک ہوتی ہیں۔ رواں برس تین روزہ سالانہ مقابلوں میں لڑکیوں نے سب سے کم تعداد میں شرکت کی اور صرف ضلع ایبٹ آباد ہی سے تعلق رکھنے والی خواتین (لڑکیوں) کی ایک ٹیم کو مدعو کیا گیا۔

خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس کی زیرنگرانی اور میزبانی میں ہونے والے اِن سالانہ مقابلوں کے لئے اہتمام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بارہ جون دن ڈھلنے سے قبل مختلف شہروں سے ٹیمیں ایبٹ آباد پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں جنہیں ترک حکومت کے تعاون سے تعمیر ہونے والے ایک سرکاری سکول میں ٹھہرایا گیا اور عجب ہے کہ اس مقصد کے لئے سکول کے سینکڑوں طالبعلموں کو چھٹی دے دی گئی حالانکہ ایبٹ آباد میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے کئی ایک ایسے دفاتر (عمارتیں) موجود ہیں جہاں تیرہ جون کے دن ہفتہ وار تعطیل تھی اور معذور افراد کو باآسانی وہاں ٹھہرایا جا سکتا تھا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ جس سکول میں معذور افراد کو ٹھہرایا گیا وہ ’معذور دوست‘ نہیں تھی۔ نیچے والے حصے میں ’ویل چیئر‘ والے معذوروں کو ٹھہرایا گیا جبکہ باقی کو اوپر والی منزل پر کمرے دیئے گئے اور معذور افراد چاہے ’ویل چیئر‘ استعمال کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں اُن کے لئے سیڑھیاں اور ننگے فرش پر آرام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ نجانے ہمارے ارباب اختیار کو کب ہوش آئے گی کہ وہ دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھیں گے۔

کیا معذور افراد اِس قسم کے استقبالئے کے مستحق تھے کہ اُنہیں پھٹے پرانے کرائے کے استعمال شدہ‘ بناء تکیے اور کشن فوم فراہم کر دیئے جائیں‘ جنہیں کلاس رومز سے کرسیاں نکال کر فرش پر یہاں وہاں ڈال دیا گیا ہو۔ دل چاہتا تھا کہ منتظمین کو بھی اُسی ننگے فرش پر معذور افراد کی طرح سلایا جاتا‘ جو کسی بھی طرح مہمان نوازی کے شایان شان نہیں تھا۔ معذوروں کے نام پر تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والوں کو خوف خدا سے کام لینا چاہئے۔

خصوصی افراد کے لئے کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ایک روایت بن چکی ہے۔ سال میں ایک مرتبہ ہونے والے اِن کھیلوں کے مقابلوں کو زیادہ نظم و ضبط‘ باسہولت اور ایک ایسا ’ایونٹ‘ بنایا جاسکتا تھا جسے دیکھنے کے لئے پورے ملک سے لوگ آتے۔ ذرائع ابلاغ کی توجہ اِس جانب مرکوز کی جاتی۔ نجی اداروں کے تعاون سے ہر شرکت کرنے والی ٹیم کے لئے یونیفارم مہیا کئے جاتے۔ افتتاحی تقریب کو زیادہ پررونق بنانے کے لئے کم ازکم ایبٹ آباد کی سطح پر بھرپور تشہیر کی جاتی تاکہ مقامی افراد بڑی تعداد میں شرکت کے لئے آتے۔ کرکٹ چونکہ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اِس لئے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو مدعو کیا جاتا‘ جنہیں دیکھنے کے لئے دنیا اُمڈ آتی۔

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کامیابی اُور خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کرنے والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کا انتخابی وعدہ تھا کہ سرکاری سرپرستی میں کھیلوں کی سہولیات کا دائرہ ہر یونین کونسل کی سطح تک پھیلایا جائے گا یقیناًاِس سلسلے میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن معذور افراد زیادہ کچھ نہیں چاہتے بلکہ اُنہیں اگر کھیل کود کے یکساں مواقع اور سہولیات نہیں دی جاسکتیں تو کم از کم پورے صوبے میں ایک ایسا ’جمنازیم‘ تو بنایا جا سکتا ہے‘ جو صرف اور صرف خصوصی بچوں کے لئے مخصوص ہو۔ ایبٹ آباد کی آب وہوا ایسے جمنازیم کی تعمیر کے لئے موزوں ترین ہے اور یہ درخواست تیرہ جون کو ہوئی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کم وبیش سبھی مقررین نے کی کہ ’’خصوصی افراد کو ایک الگ جمنازیم دیا جائے۔‘‘ خصوصی افراد کے تئیسویں کھیلوں کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون تھے‘ جن کی سیاست کا محورومرکز ہی ’سماجی خدمت‘ ہے اور اگر وہ اپنے مختصر ترین سیاسی کیریئر میں رکن قومی اسمبلی جیسے بلند مقام پر پہنچے ہیں تو اِس کے پیچھے اُن کی بے لوث و بلاامتیاز سماجی خدمات کا مستند حوالہ موجود ہے۔ ڈاکٹر اظہر کا شمار شاید ایبٹ آباد کے دس امیر ترین افراد میں نہیں ہوتا لیکن وہ کئی ایک معذور افراد کے تدریسی و تربیتی اداروں کے سرپرست ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تقریب کے منتظم و میزبان ڈائریکٹر سپورٹس کو اپنی سیاسی وابستگی اور تعلق داری والا جب کوئی دوسرا شخص نہ ملا جو معذور افراد کے کھیلوں کی تقریب کا مہمان خصوصی بننے کو شایان شان سمجھتا تو اُنہوں نے ڈاکٹر اظہر سے رابطہ کیا اور کندھے کے شدید درد کے باوجود وہ بھاگم بھاگ ’پریس کلب‘ سے متصل ایبٹ آباد کے ہاکی سٹیڈیم جا پہنچے۔ جہاں اُنہوں نے اپنی جیب سے پچیس ہزار روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کا ’ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس‘ کھیلوں کا انعقاد کر رہا تھا جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں ہوتی لیکن جس انداز میں معذور افراد کو سہولیات کے نام پر تسلیاں دے کر ’نیک نامی‘کمائی جا رہی تھی‘ وہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ شدید مذمت کرنے کا مقام ہے۔

 کوشش یہ تھی کہ سب کچھ رازداری سے ہو جائے۔ خصوصی کھیلوں کے نام پر فنڈز کتنے مختص ہوئے؟ کتنے خرچ ہوئے اور ہرسال کمائی کے اِس نادر موقع سے کون کون کتنا مستفید ہوتا ہے؟ ایسے بہت سے سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہئے۔ تبدیلی ایسے افراد کا احتساب کرنے کا بھی نام ہونی چاہئے‘ جو سالہا سال سے اداروں پر مسلط ہیں اور ایک ہی عہدے پر تعینات انہیں دہائیاں گزر گئیں ہیں! پریس کلب سے متصل ہونے کے باوجود پریس بالخصوص پرنٹ میڈیا کی خصوصی کھیلوں کے موقع پر عدم موجودگی شدت سے محسوس کی گئی‘ کیونکہ اگر میڈیا کے نمائندوں کو مدعو کیا جاتا تو اندیشہ سوالات پوچھنے کا تھا اُور شاہی مزاج رکھنے والے تو اپنے ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے! بیچارے معذور افراد بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی خوش تھے کہ چلو سال میں ایک مرتبہ ہی سہی کسی نے اُن کی موجودگی اور ضرورت کو محسوس تو کیا!

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت صوبائی وزیر کھیل سے مطالبہ ہے کہ ’’ایبٹ آباد کرکٹ سٹیڈیم سے متصل دستیاب اراضی خرید کر وہاں خصوصی افراد کے لئے جمنازیم (کھیلوں اور رہائش کی سہولیات) کا بندوبست کیا جائے۔‘‘ مفت زمین کی لالچ میں کسی دور دراز مقام اور پہاڑ کی چوٹی پر جمنازیم نہ بنایا جائے۔ خصوصی افراد کی جسمانی کمزوریوں اور آمدورفت میں مشکلات کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور انہیں میدانی علاقے میں کرکٹ سٹیڈیم سے متصل حکومت کی خرید کردہ اراضی پر کھیل کی سہولیات فراہم کی جائیں کیونکہ وہ بھی ہمارا حصہ ہیں اور اُن سے کھیل کھیلنے کی بجائے اُنہیں خاطرخواہ توجہ بطور ہمدردی نہیں بلکہ اُن کے غصب شدہ حقوق (استحقاق) بطور واجب الادأ ذمہ داریاں ادا ہونے چاہیئں۔

No comments:

Post a Comment