ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحافت‘ سیاست اُور وحشت !
صحافت‘ سیاست اُور وحشت !
ایک ایسا ملک جس کی معیشت اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی
تھی‘ اُس کے فیصلہ ساز ایوان کی ٹھاٹھ باٹھ کو غیرضروری اُور مصنوعی کہا
جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ چکمدار فرش‘ جس پر پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے
باوجود پھسلنے کا گمان ہوتا ہو۔ ائرکنڈیشن راہداریاں اور اُن سے زیادہ
ٹھنڈے کمروں میں یخ بستہ نرم و گداز صوفے۔ دیواروں پر لگی ہوئی تصاویر‘
جابجا قرآنی آیات کی خطاطی عمارت کے حسن کو چارچاند لگا رہی ہو یقیناًخوف
خدا‘ حقوق العباد‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر‘ علم کی اہمیت‘ علم میں
اضافے کی دعا‘ انصاف اور انسانی حقوق کے احترام کے علاؤہ مساوات و فرض
شناسی جیسے پیغامات اِن راہداریوں سے گزرنے والوں کے لئے آویزاں کئے گئے
ہوں گے جن کی حقیقت و سچائی اُور ضرورت سے تو انکار یا بحث کی گنجائش نہیں
لیکن اگر اِن پر عمل نہیں ہورہا تو اس کی وجہ ایک ہی سمجھ میں آتی ہے کہ
عربی زبان کے ساتھ آیات کا اُردو ترجمہ نہیں لکھا گیا بلکہ اگر صرف اُردو
ترجمہ ہی جلی حروف میں لکھ دیا جاتا تو بھی مفید نتائج برآمد ہونے کی توقع
کی جاسکتی تھی۔ قومی اسمبلی آمد پر خوش آمدید‘ بجٹ اجلاس کی کاروائی کا
مشاہدہ کرنے والے مہمانوں میں اکثریت اَراکین اسمبلی کے اِنتخابی حلقوں سے
آئے ہوئے مہمانوں یا اُن کے معاون عملے کی تھی‘ جن کے لئے شاید یہی بات
اطمینان بخش تھی کہ وہ یخ بستہ‘ مصنوعی روشنیوں سے منور اُور آرام دہ
نشستوں پر اُس ایک چھت تلے بیٹھے تھے جس میں قوم کی قسمت کے فیصلوں سے
متعلق بحث ہونا تھی۔ ابھی اجلاس شروع نہیں ہوا تھا کہ چند اراکین اسمبلی
تشریف لائے اور اُن کے چہروں پر نہ تو ایک دوسرے کو دیکھ کر اجنبیت تھی اور
نہ ہی وہ غم و غصہ جو اُن کے تند و تلخ بیانات میں ہوتا ہے۔
حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے اراکین کے درمیان تمیز صرف اُس وقت ہوئی جب اجلاس کی باضابطہ کاروائی کا آغاز قرآن کریم سے منتخب آیات کی تلاوت سے ہوا۔ سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ تلاوت کے دوران اور بعد میں آنے والے اشاروں سے ایک دوسرے کو سلام کرکے مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ خوشگوار ماحول تھا۔ مہانوں کو موبائل فون لیجانے کی اجازت نہیں تھی لیکن چند اراکین اپنے موبائل فونز پر مصروف دکھائی دیئے جس سے ظاہر تھا کہ قانون ساز اِیوان زریں میں داخلے کے حقوق بھی محفوظ تھے اور منتخب اراکین کا استحقاق اُس عام آدمی سے کہیں گنا زیادہ تھا‘ جو اِس ایوان کی ہر ایک بنیادی سہولت اُور آسائش کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھا!
’’جناب سپیکر! بجٹ اعدادوشمار کا گورگھ دھندا ہے‘ جس سے عام آدمی کی معاشی و اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہوگا‘ مہنگائی بڑھے گی جو پہلے ہی انتہا کو چھو رہی ہے۔ بجٹ دستاویز بنانے والوں نے ایک مرتبہ پھر ایسے خواب دکھائے ہیں جن کی تعبیر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں ایک ایسے حقیقت پسندانہ بجٹ کی ضرورت ہے‘ جس سے خواص کی نہیں بلکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔‘‘ حزب اِختلاف سے تعلق رکھنے والے ایک معزز رکن قومی اسمبلی نے سرنامہ کلام ہی میں بجٹ پر کڑی تنقید کی اُور یہ اُس دن ہونے والی درجن بھر تقاریر کے مشترکہ نکات تھے۔ بجٹ پر تنقید اُن سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی آ رہی تھی جو خود وفاق میں حکومت کر چکی ہیں اُور اُن کا پیش کردہ بجٹ زیادہ مختلف نہیں تھا جس کے بارے میں موجودہ حکمراں جماعت کے اراکین کی وہی رائے ہوا کرتی تھی جو آج حزب اختلاف کی تھی۔ پارلیمینٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ایک بزرگ صحافی کے بقول ’’یہاں جو نظر آتا ہے وہ اصل نہیں۔ جو باتیں کہی جاتی ہیں اُن میں حقیقت نہیں ہوتی۔ ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی جماعت کے وجود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
درون خانہ سب کو معلوم ہے کہ بجٹ آئندہ چند روز میں واجبی تبدیلیوں (ترامیم) کے ساتھ ’من و عن‘ منظور کر لیا جائے گا۔ یہ بحث و مباحثے‘ اعتراضات اور تحفظات رسمی ہیں۔ اِن اراکین اسمبلی میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو صبح گھر کے لئے دودھ‘ روٹی اور انڈے لایا ہو۔ انہیں سبزی کے نرخ معلوم نہیں کیونکہ یہ کبھی سبزی خریدنے عام آدمی کی طرح مارکیٹ نہیں جاتے۔ انہیں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کے مسائل و پریشانیوں کا اندازہ نہیں کیونکہ یہ سب کے سب ذاتی و سرکاری گاڑیاں رکھتے ہیں۔‘‘ اُن کی سانس پھول رہی تھی‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے ’’وہ دیکھو‘ یہ فیروزی رنگ کی چغہ نما قیمیض پہنے ہوئے رکن قومی اسمبلی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے ماہر ہیں۔ اِن کی جماعت گھاٹے کا سودا کرتی ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اُس سیاسی جماعت کے ساتھ رہتی ہے‘ جو برسراقتدار ہو۔ جن اراکین اسمبلی کا سیاسی قبلہ ہی نہ ہو‘ اُن سے بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لئے بہتر ثابت ہوں گے!‘‘
پارلیمینٹ میں مؤذن کے علاؤہ کسی دوسرے شخص کو بناء اجازت لئے بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بلند چوبارے پر سپیکر کے اختیارات دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ ہر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکر سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ غیرجانبدار رہے گا جبکہ اُس کا انتخاب ممکن ہی نہیں ہوتا جب تک ایوان میں اکثریتی جماعت کے اراکین اُسے منتخب نہ کریں اور پھر اُسے ہٹانے کا اختیار بھی انہی اکثریت رکھنے والوں کے پاس ہوتا ہے۔ کیا سپیکر و ڈپٹی سپیکر (ایوان کے نگرانوں) کا انتخاب اراکین اسمبلی میں سے ہونا ضروری ہے جبکہ وہ دیگر اراکین کی طرح قانون سازی کے حوالے سے بحث و مباحثے میں حصہ نہیں لے سکتے اور اُن کے زریں خیالات و تجاویز شامل نہ ہونے سے قانون سازی کا عمل جامعیت سے محروم ہو جاتا ہے! سیاست کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں تک محدود کرنے والوں کی ترجیحات نے ’جمہوری عمل‘ اُور ایک ’جمہوری ادارے‘ کی اہمیت و افادیت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔
آخر کسی مالی سال کے لئے آمدن و اخراجات کے تعین سمیت قانون سازی کے مراحل میں منتخب اراکین کے علاؤہ مختلف شعبوں کے تکنیکی ماہرین سے مشاورت کیوں نہیں کی جاتی؟ سوچتے ہوئے قدم خودبخود اُس سردخانے سے باہر نکلنے کی راہ پر ہو لئے‘ جہاں کی دیدنی رونقوں سے عام آدمی کا کیا لینا دینا! ’’ایسی ویرانی میں کرتے بھی تو کیا۔۔۔یہ بھی کچھ ہم ہے کہ وحشت کی ہے!‘‘
حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے اراکین کے درمیان تمیز صرف اُس وقت ہوئی جب اجلاس کی باضابطہ کاروائی کا آغاز قرآن کریم سے منتخب آیات کی تلاوت سے ہوا۔ سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ تلاوت کے دوران اور بعد میں آنے والے اشاروں سے ایک دوسرے کو سلام کرکے مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ خوشگوار ماحول تھا۔ مہانوں کو موبائل فون لیجانے کی اجازت نہیں تھی لیکن چند اراکین اپنے موبائل فونز پر مصروف دکھائی دیئے جس سے ظاہر تھا کہ قانون ساز اِیوان زریں میں داخلے کے حقوق بھی محفوظ تھے اور منتخب اراکین کا استحقاق اُس عام آدمی سے کہیں گنا زیادہ تھا‘ جو اِس ایوان کی ہر ایک بنیادی سہولت اُور آسائش کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھا!
’’جناب سپیکر! بجٹ اعدادوشمار کا گورگھ دھندا ہے‘ جس سے عام آدمی کی معاشی و اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہوگا‘ مہنگائی بڑھے گی جو پہلے ہی انتہا کو چھو رہی ہے۔ بجٹ دستاویز بنانے والوں نے ایک مرتبہ پھر ایسے خواب دکھائے ہیں جن کی تعبیر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں ایک ایسے حقیقت پسندانہ بجٹ کی ضرورت ہے‘ جس سے خواص کی نہیں بلکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔‘‘ حزب اِختلاف سے تعلق رکھنے والے ایک معزز رکن قومی اسمبلی نے سرنامہ کلام ہی میں بجٹ پر کڑی تنقید کی اُور یہ اُس دن ہونے والی درجن بھر تقاریر کے مشترکہ نکات تھے۔ بجٹ پر تنقید اُن سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی آ رہی تھی جو خود وفاق میں حکومت کر چکی ہیں اُور اُن کا پیش کردہ بجٹ زیادہ مختلف نہیں تھا جس کے بارے میں موجودہ حکمراں جماعت کے اراکین کی وہی رائے ہوا کرتی تھی جو آج حزب اختلاف کی تھی۔ پارلیمینٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ایک بزرگ صحافی کے بقول ’’یہاں جو نظر آتا ہے وہ اصل نہیں۔ جو باتیں کہی جاتی ہیں اُن میں حقیقت نہیں ہوتی۔ ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی جماعت کے وجود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
درون خانہ سب کو معلوم ہے کہ بجٹ آئندہ چند روز میں واجبی تبدیلیوں (ترامیم) کے ساتھ ’من و عن‘ منظور کر لیا جائے گا۔ یہ بحث و مباحثے‘ اعتراضات اور تحفظات رسمی ہیں۔ اِن اراکین اسمبلی میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو صبح گھر کے لئے دودھ‘ روٹی اور انڈے لایا ہو۔ انہیں سبزی کے نرخ معلوم نہیں کیونکہ یہ کبھی سبزی خریدنے عام آدمی کی طرح مارکیٹ نہیں جاتے۔ انہیں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کے مسائل و پریشانیوں کا اندازہ نہیں کیونکہ یہ سب کے سب ذاتی و سرکاری گاڑیاں رکھتے ہیں۔‘‘ اُن کی سانس پھول رہی تھی‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے ’’وہ دیکھو‘ یہ فیروزی رنگ کی چغہ نما قیمیض پہنے ہوئے رکن قومی اسمبلی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے ماہر ہیں۔ اِن کی جماعت گھاٹے کا سودا کرتی ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اُس سیاسی جماعت کے ساتھ رہتی ہے‘ جو برسراقتدار ہو۔ جن اراکین اسمبلی کا سیاسی قبلہ ہی نہ ہو‘ اُن سے بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لئے بہتر ثابت ہوں گے!‘‘
پارلیمینٹ میں مؤذن کے علاؤہ کسی دوسرے شخص کو بناء اجازت لئے بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بلند چوبارے پر سپیکر کے اختیارات دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ ہر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکر سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ غیرجانبدار رہے گا جبکہ اُس کا انتخاب ممکن ہی نہیں ہوتا جب تک ایوان میں اکثریتی جماعت کے اراکین اُسے منتخب نہ کریں اور پھر اُسے ہٹانے کا اختیار بھی انہی اکثریت رکھنے والوں کے پاس ہوتا ہے۔ کیا سپیکر و ڈپٹی سپیکر (ایوان کے نگرانوں) کا انتخاب اراکین اسمبلی میں سے ہونا ضروری ہے جبکہ وہ دیگر اراکین کی طرح قانون سازی کے حوالے سے بحث و مباحثے میں حصہ نہیں لے سکتے اور اُن کے زریں خیالات و تجاویز شامل نہ ہونے سے قانون سازی کا عمل جامعیت سے محروم ہو جاتا ہے! سیاست کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں تک محدود کرنے والوں کی ترجیحات نے ’جمہوری عمل‘ اُور ایک ’جمہوری ادارے‘ کی اہمیت و افادیت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔
آخر کسی مالی سال کے لئے آمدن و اخراجات کے تعین سمیت قانون سازی کے مراحل میں منتخب اراکین کے علاؤہ مختلف شعبوں کے تکنیکی ماہرین سے مشاورت کیوں نہیں کی جاتی؟ سوچتے ہوئے قدم خودبخود اُس سردخانے سے باہر نکلنے کی راہ پر ہو لئے‘ جہاں کی دیدنی رونقوں سے عام آدمی کا کیا لینا دینا! ’’ایسی ویرانی میں کرتے بھی تو کیا۔۔۔یہ بھی کچھ ہم ہے کہ وحشت کی ہے!‘‘
No comments:
Post a Comment