Thursday, June 11, 2015

Jun2015: Example of dishonesty

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ایک سے بڑھ کر ایک!
جب کسی ملک میں قدرتی آفت آتی ہے تو وہاں انسانی ہمدردی کے جذبات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ ہر مکتب فکر کے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے طلبگار ہونے کے ساتھ مصیبت کی گھڑی میں متاثرین کی مدد کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مشکل کی گھڑی سے کچھ نہ کچھ کشید کر ہی لیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو یہ حکم نہ دینا پڑتا کہ وہ سیلاب سے متاثرہ افراد کے لئے سال دوہزار دس میں اُس وقت کے ترک وزیراعظم اور اب صدر کی اہلیہ کے عطیہ کردہ قیمتی ہار کی ’گمشدگی‘ کی تحقیقات کرے اگرچہ لفظ ’چوری‘ استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن وفاقی وزارت داخلہ نے باعزت اَلفاظ کے ذریعے اِس خبر کو تحلیل کردیا ہے کہ ایک ہار تھا‘ جو چوری ہوا اُور بس۔ اِبتدائی تحقیقات کے مطابق ’مذکورہ قیمتی ہار ’نادرا‘ کے وئر ہاؤس سے غائب ہوا ہے۔‘ ہمارے ہاں سرکاری دفاتر کا طریقۂ واردات ہی یہ ہے کہ اِس میں اپنے ’پیٹی بند ساتھیوں‘ کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔یاد رہے کہ ترک خاتون اوّل نے پاکستان کے سیلاب زدہ افراد کے لئے ذاتی طور پر دس ہزار ترک لیرا اور اپنے زیورات عطیہ کئے تھے جن میں وہ ہار بھی شامل تھا جو انہیں ان کے شوہر نے شادی کے وقت دیا تھا! یہ ہار کسی بھی طرح سونے چاندی اور ہیرے جوہرات کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ اس کی ایک خاص اہمیت تھی۔

 کرکٹ کے کھلاڑی کے زیراستعمال ’بلا‘ اگر کروڑوں روپے میں نیلام ہوتا ہے تو اس کی وجہ بلے کی اصل قیمت نہیں ہوتی بلکہ اس کی وہ خاص اہمیت ہوتی ہے‘ جو نسبت کے سبب مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔

ذرا سوچئے جب ہمارے ہاں زلزلہ اور سیلاب جیسی آفات آئیں تو کسی بھی مخیر شخص کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنی سب سے قیمتی چیز عطیہ کرتے بلکہ عوام وخواص نے کوشش یہ کی کہ گھر کا سب سے ناکارہ سامان اور استعمال شدہ وہ کپڑے عطیہ کئے جائیں جن کے ڈھیر بالاکوٹ کے بازار میں لگے دیکھے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ بالاکوٹ کے راستے میں کپڑے اور کھانے پینے کا سامان پڑا تھا لیکن کوئی اُٹھانے والا نہیں تھا‘ وجہ یہ نہیں تھی کہ متاثرہ لوگوں کی ضروریات پوری ہو گئیں تھیں بلکہ جو کپڑے عطیہ کئے گئے تھے‘ وہ کسی بھی طرح بالاکوٹ کے رہنے والوں کی تہذیب و ثقافت کے مطابق نہیں تھے اور بالاکوٹ کی خواتین جینز کی پینٹ نہیں پہنتی تھیں اور نہ ہی وہاں سمندر تھا کہ جس کے ساحل پر لیٹ کر سورج کی شعاعیں سمیٹنے کا رجحان پایا جاتا۔ المیہ ہے کہ اللہ کے نام پر ہم وہ کچھ دیتے ہیں جو اپنے لئے رکھنا پسند نہیں کرتے! ترک وزیراعظم کی اہلیہ اپنے قیمتی زیورات اور جمع پونجی عطیہ کرنے دو مرتبہ پاکستان آئیں لیکن یہ توفیق ہمارے ہاں کے شاہی حکمراں خاندان والوں کو نہیں آئی۔

ترک وزیراعظم کی اہلیہ نے اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ فوزیہ گیلانی کو ہار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اسے کسی سیلاب سے متاثرہ لڑکی کو شادی کے موقع پر بطور تحفہ دے دیا جائے۔‘‘ لیکن ترک عوام نے اس ہار کو ایک نیلامی میں خرید کر دوبارہ ترک خاتون اوّل کو واپس کردیا مگر انہوں نے ایک بار پھر اسے سیلاب زدگان کے لئے اس وقت عطیہ کردیا جب وہ اپنے شوہر اور یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ سندھ کے ضلع دادو میں ایک فلڈ ریلیف کیمپ تشریف لے گئیں اور وہاں انہیں معلوم ہوا کہ آٹھ لڑکیوں کی اجتماعی شادیاں ہونے والی ہیں۔ ترک وزیراعظم کی اہلیہ کے ہار کو اس وقت کے چیئرمین نادرا علی ارشد حکیم نے سولہ لاکھ روپے کے عوض خرید لیا تھا اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق وہ رقم ان نامعلوم لڑکیوں میں تقسیم کردیا‘ جن کے کوائف موجود نہیں! ایک خبر یہ بھی ہے کہ مذکورہ ہار بعدازاں علی ارشد حکیم کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو بطور تحفہ دے دیا گیا جسے وزیراعظم ہاؤس (سرکاری رہائشگاہ) کے ایک شوکیس میں ’پاک ترک دوستی‘کی علامت کے طور پر رکھا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر وہ ’ہار‘ گیا کہاں؟

ہمارے ہاں ’اَمانت و دیانت‘ کے تصورات کیا ہیں؟ خوف خدا نام کی اگر کوئی شے ہے تو کیا یہ خصوصیت اور اخلاق و کردار کی بلندی ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے؟ کیا ایسی صورتحال میں غیرملکی امدادی ادارے اور شخصیات ہم پر اعتماد کریں گی؟خدانخواستہ آئندہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں امداد دینے سے پہلے اِس بارے میں نہیں سوچیں گے کہ پاکستان جانے والی امداد خردبرد ہی نہ ہو جائے۔ ہمیں دوسروں کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ حکمرانوں کی حرص و طمع نے‘ ماتحتوں کے خوشامدانہ طور طریقوں اور ’ایک سے بڑھ کر ایک‘ بدعنوانی و بددیانتی کی اَن گنت مثالوں نے ہمیں زوال کی کن اتھاہ گہرائیوں میں زندہ درگور کر دیا ہے!

No comments:

Post a Comment