Wednesday, June 10, 2015

Jun2015: Transport for Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
التجا
خیبرپختونخوا حکومت نے وفاق کی جانب سے پشاور میں ’میٹرو بس منصوبہ‘ شروع کرنے کی پیشکش ’بصداحترام ٹھکرا‘ دی ہے اور ساتھ ہی اپنے وسائل سے مذکورہ پبلک ٹرانسپورٹ کا منصوبہ شروع کرنے میں تاخیر کا سبب ’افسرشاہی‘ کو قرار دیا ہے‘ جو حیلوں بہانوں سے اِس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو وفاق اور نہ ہی صوبائی حکومت کو عام آدمی کی اُن مشکلات کا رتی بھر احساس ہے‘ جس کا واسطہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے رہتا ہے اور اُسے ہر دن ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بالخصوص ملازمت پیشہ خواتین‘ بزرگ شہری‘ بچے اور طلباء و طالبات کو جس ذہنی کوفت و جسمانی مشقت سے واسطہ رہتا ہے‘ اُس کی حدت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اِس آگ کے قریب ہے۔ اگر ہمارے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی‘ وزیر مشیر اور افسر شاہی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی تو صورتحال یکسر تبدیل دکھائی دیتی لیکن سرکاری وسائل سے پرآسائش گاڑیاں خریدنے اور استعمال کرنے کا ’بقلم خود‘ استحقاق بنانے والوں کے ہاں نچلے طبقات کی ضروریات و مشکلات کا احساس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نظر کرم کی التجا کے ساتھ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس منصوبہ صوبہ پنجاب اور وفاقی حکومت کے درمیان شراکت داری سے تکمیل پایا ہے تو کیا یہی کام دیگر صوبائی حکومتیں بالخصوص خیبرپختونخوا کیوں نہیں کر سکتی یا کیوں نہیں کرنا چاہتی؟

شہری وفاق کی طرف دیکھتے ہیں‘ تو اٹھارہویں ترمیم کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب دیکھتے ہیں تو وہاں کوئی سننے والا نہیں۔ اس مایوس کن صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے چند ضمنی نکات کے بارے میں سوچئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صوبائی خودمختاری کے بعد بھی ترقیاتی کام‘ جو عموماً شہری حکومتوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں اگر وفاق نے ہی کرنے ہیں تو پھر ایسی خود مختاری کس کام کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو صوبائی حکومتیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیارات ملنے پر خوش تھیں وہ خوشی کہاں گئی اور اختیارات کے ساتھ ملنے والی ذمہ داریاں کون نبھائے گا؟ تیسری بات اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو ملنے والے مالی وسائل کی بروقت ادائیگی اگر نہیں کی جاتی تو کہیں اس میں سیاسی بدنیتی کا عمل دخل تو نہیں؟

ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی سطح پر اقتدار متحدہ مجلس عمل سے ہوتا ہوا عوامی نیشنل پارٹی و پیپلزپارٹی اور اب تحریک انصاف کے پاس ہے اور اِس پورے منظرنامے میں‘ صرف چہروں کی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے نظام کی نہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مسائل کی شدت و گہرائی کا اندازہ لگا کر منصوبہ بندی کی جاتی۔ مثال کے طور پر ٹریفک پولیس کے مطابق پشاور کی سڑکوں پر روزانہ سات سے آٹھ لاکھ گاڑیاں اُمڈ آتی ہیں اور ٹریفک کے اِس دباؤ کو کم کرنے کے لئے کارخانو مارکیٹ چوک‘ حیات آباد فیز تین‘ فیز چار اور حاجی کیمپ سمیت جمرود روڈ‘ خیبرروڈ‘ جی ٹی روڈ‘ ورسک روڈ اُور رنگ روڈ پر انڈر پاسیز یا فلائی اوورز کی ضرورت ہے تاکہ جن چوراہوں پر ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے‘ اسے دیگر شاہراؤں پر منتقل کیا جاسکے۔ ٹریفک انجنیئرنگ کی نظر سے مفتی محمود فلائی اُوور اور ملک سعد فلائی اُوور ٹریفک کا دباؤ کم کرنے میں کارآمد ثابت نہیں ہو رہیں کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ رحمان بابا چوک میں تعمیر ہونے والے یہ دونوں ’فلائی اُوورز‘آپس میں منسلک نہیں اور دوسرا اِن کی تعمیر میں ایک وقتی ضرورت پورا کرنے کے بارے ہی ہدف مقرر کیا گیا۔ جب تک جی ٹی روڈ سے خیبرروڈ جانے والا ٹریفک کا دباؤ فلائی اُوور کے ذریعے بانٹ نہیں دیا جاتا اُس وقت تک اندرون شہر بھی ٹریفک کا دباؤ مستقل و بدستور رہے گا۔ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی موجودہ تعداد پانچ سو ساٹھ ہے جو ’ڈبل شفٹ‘ میں ڈیوٹی کرتے ہیں لیکن سات لاکھ گاڑیوں کی تعداد اور افرادی قوت کے درمیان تناسب نہیں۔ ایس ایس پی ٹریفک کے مطابق جب تک رنگ روڈ کا سرکل (ناردن بائی پاس) اُور لنک روڈ مکمل نہیں کئے جاتے‘ صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پشاور کے لئے بڑے پیمانے پر میٹرو بس منصوبے کی طرح سڑکوں کی توسیع و کشادگی کا عمل مکمل ہونا چاہئے۔

پشاور کی ٹریفک سے متعلق مرتب اعدادوشمار میں ہر چند ماہ بعداضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن جو ایک بات مستقل ہے وہ یہ ہے کہ سڑکوں کا موجودہ نظام یومیہ ایک لاکھ بیس ہزار گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے کافی ہے‘ جس سے اگر آٹھ لاکھ گاڑیاں استفادہ کر رہی ہیں تو یہ کسی بھی طرح ’کرامت‘ سے کم نہیں۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر سیاسی وجوہات کی بناء پر وفاق کی پیشکش قابل قبول نہیں اُور اپنے طور پر ’میٹرو منصوبہ‘ شروع کرنے میں بھی کئی ایک رکاوٹیں حائل ہیں تو اِس دوران مزید ’وقت ضائع کرنے کی بجائے‘ پشاور کی سڑکیں توسیع و تعمیر کا باقی ماندہ کام ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیاجائے۔ اقتدار مستقل نہیں لیکن بس ’یادیں‘ رہ جاتی ہیں!

No comments:

Post a Comment