ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تیر بہ ہدف نسخہ!
تیر بہ ہدف نسخہ!
جمہوریت کا مستقبل اُور جمہوری اِداروں کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ عام
انتخابات کے عمل کو ’آزاد و شفاف‘ اور جملہ فریقین (سٹیک ہولڈرز) کے لئے
’قابل اعتماد و یقین‘ بنایا جائے۔ جب ہم ’عام انتخابات‘ کی بات کرتے ہیں تو
اِس سے مراد قانون ساز ایوانوں سمیت بلدیاتی طریقۂ چناؤ ہوتا ہے اور یہ
انتخابی عمل اُس وقت تک تنقید کا نشانہ بنتا رہے گا جب تک ارباب اختیار
’ٹیکنالوجی گریز و بیزار‘ رویہ ترک نہیں کر دیتے۔ مسئلہ سیاسی فیصلہ سازوں
کا بھی ہے جن کی نیت و عمل اُن کے زبانی دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مثال
کے طور پر کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد و خودمختار ہے لیکن اس کی
آزادی و خودمختاری کے ضامن سربراہ کا چناؤ حزب اقتدار و اختلاف باہم مشاورت
سے کرتے ہیں اُور دیگر سیاسی (پارلیمانی) جماعتوں کے مفادات‘ تحفظات اور
آرأ کو لائق توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ الیکشن کمیشن اُس وقت تک آزاد نہیں
ہوسکتا جب تک اِس کے سربراہ کا انتخاب سیاسی کرداروں کی سفارش سے طے کرنے
کے آئینی طریقۂ کار میں تبدیلی (اِصلاح) متعارف نہیں کرائی جاتی۔ دوسری بات
بائیومیٹرکس (ڈیجیٹل) شناخت کے عمل سے ’’اَیک فرد‘ اَیک ووٹ‘‘ کو بناء
عملاً ممکن بنائے ہمارے ہاتھ جو کچھ آئے گا‘ اُس سے نفرتیں اور اختلافات
میں اضافہ ہوگا۔ سیاست دانوں کا وجود اگر معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے تو عام
انتخابات کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک جیسے مسائل اور حالات کو
مختلف سیاسی نظریات کی عینک لگا کر دیکھنے والوں میں اتفاق رائے پیدا کیا
جائے۔ عمومی و سطحی اختلافات اِس حد تک کم کر دیئے جائیں کہ اُن کا وجود ہی
بے معنی ہو کر رہ جائے لیکن ہمارے ہاں ’سیاسی عمل‘ پر تعمیر کی بجائے
تخریب کا رنگ غالب دکھائی دیتا ہے تو اِس لمحہ فکر پر ٹھہر کر‘ سوچنا ہوگا
کہ ’خرابی کی ابتدأ کہاں سے ہوئی ہے؟ اور اس عارضے کے علاج کا تیر بہ ہدف و
مجرب نسخہ کیا ہوگا؟
اِصلاح کی ضرورت اُن وضع شدہ ترجیحات میں بھی ضروری ہے‘ جس کا ایک قبلہ نہیں۔ کیا ہم سب کو پاکستان کی ترقی مقصود ہے؟ کیا ہم درپیش مسائل اور بحرانوں سے نجات چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر برسراقتدار اور حزب اختلاف یا اقتدار سے محروم جماعتوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا تعلق عالمی مارکیٹ سے ہوتا ہے لیکن ایسی کسی صورتحال میں عوام کی رہنمائی کرنے کی بجائے سیاسی قیادت کی جانب سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے بیانات داغے جاتے ہیں جس سے عوام میں مایوسی پیدا ہونے والی صورتحال سے زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر شکوک و شبہات پیدا کرنے پر مبنی سیاسی ترجیحات رکھنے والے کس طرح ’رہنما یا قائد‘ ہو سکتے ہیں‘ بمعہ سود بدلہ لینے کی بات کرنے والوں کو قیادت کے اعلیٰ ترین منصب پر کس طرح فائز کیا جاسکتا ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ شعبدے بازیوں کی بجائے اختلافات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کئے جائیں۔ ایک دوسرے کے سیاسی نکتۂ نظر کو سمجھنا جائے‘ اہمیت دی جائے اور کم سے کم سننے کی حد تک ہی سنا جائے۔ برداشت‘ حوصلہ اُور اختلاف رکھنے والوں کی سوچ کو بھی سوچ سمجھا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ بیک زبان تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے۔ سیاست میں شعبدۂ بازی کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لب لباب یہ ہے کہ اقتدار اور اختیارات کی منطق اُور حزب اختلاف کی باریک بینی کے پیچھے شعوری زاویئے الگ الگ نہیں ہونی چاہئیں۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی ہے کہ ’’صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات ڈویژن کی سطح پر مرحلہ وار انداز میں منعقد کئے جائیں۔‘‘یقیناًیہ درخواست خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کے موقع پر ہوئی بدانتظامیوں اور ہار جیت کے علاؤہ حاصل شدہ نتائج کو دیکھنے کے بعد کیا گیا ہے اُور اِس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں‘ ہم اپنی یا دوسروں کی اُن غلطیوں سے سبق سیکھیں‘ جنہیں غلطی تسلیم کرنے کی روایت بھی ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ اگر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جو کہ رواں برس ماہ ستمبر میں ہونا طے ہیں تو سندھ کی حکمراں جماعت کی درخواست قبول کرلی جاتی ہے‘ تو مرحلہ وار اَنعقاد سے نہ صرف ناخوشگوار واقعات کو روکا جاسکے گا‘ بلکہ انتخابی عمل پر اُٹھنے والے اخراجات میں بھی خاطرخواہ کمی لائی جاسکے گی۔ ترجیح جانی و مالی نقصانات اور فسادات کے امکانات کم کرنا ہونی چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ کے بڑے شہروں کراچی و حیدرآباد میں بھڑکنے والی آگ کے شعلے کتنے بلند ہوتے ہیں!
مرحلہ وار عام انتخابات کی بات کرکے پیپلزپارٹی کا شمار ’کم سے کم‘ اُن ’روایت شکن‘ سیاسی جماعتوں میں ہونے لگا ہے جن میں سرفہرست ’پاکستان تحریک انصاف‘ کا نام جگمگا رہا ہے۔ ملک میں مالی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک سرمائے کی وطن واپسی کے ساتھ محصولات (ٹیکسوں) کے نظام کو ’عوام دوست و حقیقت پسندانہ‘ بنانے کے لئے تحریک کے ایجنڈے سے زیادہ جامع سوچ کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں پائی جاتی لیکن کیا تبدیلی لانے کے لئے محض سوچ ہی کافی قرار دی جاسکتی ہے؟ بنی گالہ کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ خیبرپختونخوا میں حکومت کے ذریعے ملنے والے نادر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے تھا تو اِس عزم کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیا ہیں اور کسی زیادہ بڑے اور عظیم مقصد کے لئے ’چھوٹی چھوٹی خواہشات‘ کی قربانی کیوں نہیں دے دینی چاہئے؟
اِصلاح کی ضرورت اُن وضع شدہ ترجیحات میں بھی ضروری ہے‘ جس کا ایک قبلہ نہیں۔ کیا ہم سب کو پاکستان کی ترقی مقصود ہے؟ کیا ہم درپیش مسائل اور بحرانوں سے نجات چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر برسراقتدار اور حزب اختلاف یا اقتدار سے محروم جماعتوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا تعلق عالمی مارکیٹ سے ہوتا ہے لیکن ایسی کسی صورتحال میں عوام کی رہنمائی کرنے کی بجائے سیاسی قیادت کی جانب سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے بیانات داغے جاتے ہیں جس سے عوام میں مایوسی پیدا ہونے والی صورتحال سے زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر شکوک و شبہات پیدا کرنے پر مبنی سیاسی ترجیحات رکھنے والے کس طرح ’رہنما یا قائد‘ ہو سکتے ہیں‘ بمعہ سود بدلہ لینے کی بات کرنے والوں کو قیادت کے اعلیٰ ترین منصب پر کس طرح فائز کیا جاسکتا ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ شعبدے بازیوں کی بجائے اختلافات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کئے جائیں۔ ایک دوسرے کے سیاسی نکتۂ نظر کو سمجھنا جائے‘ اہمیت دی جائے اور کم سے کم سننے کی حد تک ہی سنا جائے۔ برداشت‘ حوصلہ اُور اختلاف رکھنے والوں کی سوچ کو بھی سوچ سمجھا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ بیک زبان تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے۔ سیاست میں شعبدۂ بازی کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لب لباب یہ ہے کہ اقتدار اور اختیارات کی منطق اُور حزب اختلاف کی باریک بینی کے پیچھے شعوری زاویئے الگ الگ نہیں ہونی چاہئیں۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی ہے کہ ’’صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات ڈویژن کی سطح پر مرحلہ وار انداز میں منعقد کئے جائیں۔‘‘یقیناًیہ درخواست خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کے موقع پر ہوئی بدانتظامیوں اور ہار جیت کے علاؤہ حاصل شدہ نتائج کو دیکھنے کے بعد کیا گیا ہے اُور اِس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں‘ ہم اپنی یا دوسروں کی اُن غلطیوں سے سبق سیکھیں‘ جنہیں غلطی تسلیم کرنے کی روایت بھی ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ اگر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جو کہ رواں برس ماہ ستمبر میں ہونا طے ہیں تو سندھ کی حکمراں جماعت کی درخواست قبول کرلی جاتی ہے‘ تو مرحلہ وار اَنعقاد سے نہ صرف ناخوشگوار واقعات کو روکا جاسکے گا‘ بلکہ انتخابی عمل پر اُٹھنے والے اخراجات میں بھی خاطرخواہ کمی لائی جاسکے گی۔ ترجیح جانی و مالی نقصانات اور فسادات کے امکانات کم کرنا ہونی چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ کے بڑے شہروں کراچی و حیدرآباد میں بھڑکنے والی آگ کے شعلے کتنے بلند ہوتے ہیں!
مرحلہ وار عام انتخابات کی بات کرکے پیپلزپارٹی کا شمار ’کم سے کم‘ اُن ’روایت شکن‘ سیاسی جماعتوں میں ہونے لگا ہے جن میں سرفہرست ’پاکستان تحریک انصاف‘ کا نام جگمگا رہا ہے۔ ملک میں مالی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک سرمائے کی وطن واپسی کے ساتھ محصولات (ٹیکسوں) کے نظام کو ’عوام دوست و حقیقت پسندانہ‘ بنانے کے لئے تحریک کے ایجنڈے سے زیادہ جامع سوچ کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں پائی جاتی لیکن کیا تبدیلی لانے کے لئے محض سوچ ہی کافی قرار دی جاسکتی ہے؟ بنی گالہ کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ خیبرپختونخوا میں حکومت کے ذریعے ملنے والے نادر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے تھا تو اِس عزم کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیا ہیں اور کسی زیادہ بڑے اور عظیم مقصد کے لئے ’چھوٹی چھوٹی خواہشات‘ کی قربانی کیوں نہیں دے دینی چاہئے؟
No comments:
Post a Comment