Monday, June 8, 2015

Jun2015: Suplementary Budget 2015-16

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بجٹ: تیکنیکی تخصیص نو!
بجٹ کے جاری اجلاس میں حکمراں جماعت کی جانب سے پیش کردہ ’آمدن و اخراجات‘ کے حساب کتاب کی منظوری کا مرحلہ وار عمل حسب توقع ’تیزرفتاری‘ سے جاری ہے۔ ایک طرف غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے کا اعلان ہے جس کے تحت ’سادگی‘ اختیار کرنے کی نوید سنائی گئی تو دوسری جانب نئے مالی سال کے لئے پارلیمنٹ سے 139ارب روپے مالیت کی ’ریگولر سپلیمنٹری بجٹ‘ کی پوسٹ فیکٹو منظوری حاصل کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات اعلان کردہ مقررہ حد سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے نئے مالی سال 2015-16ء کے لئے غیرترقیاتی اخراجات 114 فیصد زیادہ رکھے گئے ہیں!

پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی گئی بجٹ کی دستاویز کے مطابق 205.348 ارب روپے کی ’سپلیمنٹری (ضمنی) گرانٹ (مالی مدد)‘ اس فہرست میں شامل ہے۔ جن کی نوعیت تیکنیکی ہے‘ تاہم 139ارب روپے جیسے خطیر اخراجات کا بڑھنا‘ قومی خزانے پر اضافی بوجھ ہوگا۔ ان اخراجات میں سے کچھ اراکین کابینہ کی صوابدیدی تقسیم‘ اشتہارات‘ پرآسائش گاڑیوں کی خریداری‘ اراکین اسمبلی کے لئے مراعات‘ جج صاحبان کی رہائشگاہوں کی تزئین و آرائش اور خفیہ اداروں کے غیرواضح (خفیہ) اخراجات شامل ہیں۔ داخلی امور سے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ ’سپلیمنٹری گرانٹ‘ پچھلے دو برس کے دوران خاصی بڑھی ہے تاہم اس بجٹ کے بعد ضمنی طور پر ’تیکنیکی تخصیص نو‘ کے طور پر شامل کیا گیا تھا‘ جس سے بجٹ پر الگ سے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے تاہم پچھلے مالی سال کے بجٹ پر ’ریگولر سپلیمنٹری گرانٹس‘ نے 65ارب روپے کے اضافہ اثرات مرتب کیے جبکہ اس سال یہ رقم 114فیصد بڑھ کر 139ارب روپے کر دی گئی ہے۔ ان سپلیمنٹری گرانٹس میں سے زیادہ تر وفاق کے محفوظ فنڈز میں سے خرچ کی جاتی ہے‘ جسے پارلیمنٹ کے سامنے محض اطلاع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور بغیر ووٹنگ کے اس کی منظوری حاصل کرلی جاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں پارلیمنٹ اسے مسترد نہیں کرسکتی اس لئے کہ یہ رقم پہلے ہی خرچ کی جاچکی ہوتی ہے! مثال کے طور پر رعائت (سبسڈیز) میں کمی حکومت کے متعدد دعوؤں کے باوجود نہیں کی جاسکی جو لگ بھگ 63ارب روپے سے تجاوز کرگئی اُور اب اسے بجٹ ہی سے وصول کیا جارہا ہے۔ باقی اکسٹھ ارب روپے کی ’سپلیمنٹری گرانٹس‘ کو قریب سے دیکھا جائے تو یہ ’اسراف‘ کی عمدہ مثالیں ہیں! مثال کے طور پر گذشتہ مالی سال میں ’4.1 ارب روپے‘ وفاقی وزرأ‘ وزرائے مملکت‘ وزیراعظم کے مشیر اور خصوصی معاون کے ایڈہاک ریلیف پر خرچ کئے گئے! 2 کروڑ 10لاکھ کی ایک غیرمنظور شدہ رقم تفریحات‘ وزیراعظم کی جانب سے دیئے گئے تحائف‘ خوراک اور ادویات پر خرچ ہوئے۔ وزیراعظم کے ’انسپکشن کمیشن‘ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا اور اس نے ایک کانفرنس پر پانچ لاکھ روپے جبکہ وزیر مملکت برائے مواصلات و پوسٹل سروسیز کے لئے دو گاڑیوں کی خریداری کے لئے 76لاکھ روپے کی غیرمنظور شدہ رقم خرچ کی گئی! تقریباً 2کروڑ 26لاکھ روپے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمے کرنے کے لئے بطور فیس قومی خزانے سے ادا کیے گئے اور ایک اعشاریہ سات ارب روپے طورخم جلال آباد روڈ کی تعمیر پر خرچ ہوئے۔ بیس ارب روپے کے اضافی اخراجات پاکستان آرمی کی صلاحیت میں اضافے‘ دفاع کے لئے جدید آلات کی درآمد‘ پاکستان نیوی اور پاکستان نیوی کے رہائشی منصوبوں کی نذر ہوئے۔ علاؤہ ازیں ’وی وی آئی پی گلف اسٹیم ائرکرافٹ‘ کو اپ گریڈ کروانے اور دوبارہ ادائیگی پر تیرہ کروڑ چالیس لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ ایک اعشاریہ ایک ارب روپے کی رقم وزیرخزانہ کی خصوصی سبسڈیز کے طور پر ایک سیکیورٹی ایجنسی کو دیئے گئے۔ حکومت نے اُنیس ارب روپے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو‘ چار ارب روپے کراچی الیکٹرک کمپنی اور پندرہ ارب روپے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کاروائی ’ضرب عضب‘ کے لئے دفاعی بجٹ کے علاؤہ الگ سے فراہم کیے۔43کروڑ کی رقم لیبیا میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی پر خرچ کی گئی اور چالیس کروڑ کی رقم اسلام آباد میں قازغستان اور تاجکستان کے سفارتخانوں کی تعمیر اور زمین کی الاٹمنٹ پر خرچ ہوئی۔ کیا یہ اخراجات دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کسی ایسے ملک کے اخراجات کا حوالہ دے رہے ہیں جس کی اقتصادی صورتحال توانائی بحران تلے دبی ہوئی ہے اور اندرونی و بیرونی قرضہ جات کا بوجھ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے نہیں دے رہا! کیا ہم اپنے پاؤں اپنی چادر کے مطابق پھیلا رہے ہیں! کیا قومی خزانے کا استعمال کرتے ہوئے اُس عام آدمی کی حالت زار کے بارے میں بھی سوچا جاتا ہے جس کی آمدنی و اخراجات میں توازن نہیں رہا!

میاں بیوی اور 2 بچوں پر مشتمل کسی گھرانے کے کم سے کم ماہانہ اخراجات 16 ہزار 500 روپے سے زیادہ ہیں جس میں یومیہ گھی (90 روپے)‘ آٹا (100 روپے)‘ سبزی دال (100 روپے)‘ چینی (17 روپے)‘ چائے پتی (30 روپے)‘ دودھ (150روپے) اُور اگر 15 روپے کے مصالحہ جات استعمال کئے جائیں تو کل خرچ 502 روپے ہو گا‘ جس کا ماہانہ میزانیہ 15 ہزار 60روپے ہوا۔ گیس و بجلی کا بل اگر اوسط دو ہزار روپے لگایا جائے تو اِس گھرانے کے کل ماہانہ اخراجات سولہ ہزار پانچ سو روپے سے تجاوز کر جائیں گے جبکہ تنخواہ دار طبقے کی اُوسط تنخواہ آٹھ سے بارہ یا زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ اِن اخراجات میں کپڑے‘ ادویات‘ برتن و دیگر ضروریات کے علاؤہ سماجی تعلق داری پر اُٹھنے والے اَخراجات شامل نہیں۔ کیا اَیسے کم آمدنی والے طبقات کی معاشی مشکلات کے بارے میں میں بھی کچھ غور ہونا چاہئے؟

No comments:

Post a Comment