ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جہل کی گرداب
جہل کی گرداب
اصلاح کی ضرورت ہر کوئی محسوس کرتا ہے لیکن اِس کے عملی اطلاق کے لئے
آمادگی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ طرز حکمرانی میں مالی و انتظامی
بدعنوانیاں ہوں یا عام انتخابات میں دھاندلی کے امکانات‘ روائتی کو جاری و
ساری رکھنے والی جماعتیں اُور اُن کے اتحادی اِقدار تک رسائی کے لئے ’صراط
مستقیم‘ کی بجائے چور دروازے اور سیڑھیوں کا استعمال ترک کرنا نہیں چاہتے
ہیں کہ اِسی طرزعمل میں اُن کی بقاء ہے۔ مسئلہ نیت میں پائے جانے والے کھوٹ
کا بھی ہے یا محنت کش قوم کی قیادت اِس قدر آرام طلب ہو چکی ہے کہ مشکل و
پیچیدہ کاموں کو ہاتھ لگانا ہی نہیں چاہتی۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف
پاکستان کی جانب سے گجرانوالہ (پنجاب اسمبلی) کی ایک نشست پر ہونے جا رہے
ضمنی انتخابات کے دوران ووٹرز کی تصدیق کے لئے ’بائیو میٹرک مشین‘ کے
استعمال کے تجربے کا منصوبہ ترک کردیا ہے۔ یہ فیصلہ ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ
رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی استعداد میں کمی کے انکشاف کے بعد کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ’الیکشن کمیشن‘ باقاعدہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ دو
ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ووٹروں کی آن لائن تصدیق (بائیومیٹرک) کا
نظام متعارف کرائے گی اور اس کے لئے ادارے نے بڑے پیمانے پر تکنیکی
سازوسامان کی خریداری کا جائزہ لینا بھی شروع کر دیا ہے۔ اِس دوران کمیشن
کا خیال تھا کہ چھبیس جولائی کو ہونے والے پی پی 100گوجرانوالہ کی نشست کے
لئے ضمنی انتخاب کے موقع پر ایک ’پائلٹ پروجیکٹ‘ چلایا جائے اور ہر ووٹر کی
تصدیق پولنگ بوتھ پر اُس کے ووٹ ڈالنے سے قبل ہی کر لی جائے۔ بنیادی طور
پر بائیومیٹرک تجربے کا یہ خیال ’الیکشن کمیشن‘ ہی کی کمیٹی کی جانب سے پیش
کیا گیا تھا‘ جس کے سربراہ اس کے انتظامی ڈائریکٹرجنرل ہیں۔ کمیٹی کا نکتہ
نظر تھا کہ ضمنی انتخاب میں محدود سطح پر نادرا کے آن لائن تصدیقی نظام کا
تجربہ کرنا چاہئے۔ اس منصوبے کے تحت اس انتخابی حلقے میں پولنگ اسٹیشنوں
پر نادرا کی مشینیں نصب کی جانی تھیں۔ تاکہ آن لائن سسٹم کے ذریعے ان کے
انگوٹھوں کے نشانوں کی تصدیق کے بعد ووٹروں کو بیلٹ پیپرز جاری کیے جائیں۔
الیکشن کمیشن کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران نادرا کی ایک ٹیکنیکل ٹیم نے
بتایا کہ اس حلقے میں ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے‘ اور اس قدر
بڑی تعداد میں ووٹروں کی تصدیق کے لئے نادرا کے نظام کو کم از کم 9گھنٹے
درکار ہوں گے۔ نادرا کی ٹیم نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ یہ ممکن نہیں
ہوسکے گا۔ اس لئے کہ اس کے پاس چوبیس گھنٹوں میں ساٹھ سے ستر ہزار انگوٹھوں
کے نشانات کی تصدیق کرنے کی استعداد ہے! الیکشن کمیشن نے جب نادرا حکام سے
دریافت کیا کہ اُس وقت کیا ہوگا جبکہ ملک میں قومی اسمبلی کے ایک ایسے
حلقہ انتخاب میں تصدیق درکار ہوگی‘ جہاں ووٹروں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ
بھگ ہوسکتی ہے تو نادرا کی ٹیم نے کہا کہ یہ اتھارٹی بنیادی طور پر
رجسٹریشن کا کام کرتی ہے‘ اور اس کا بنیادی ڈھانچہ کمپیوٹرائزڈ شناختی
کارڈز کے اجرأ کے لئے تیار کیا گیا تھا عام انتخابات کے لئے نہیں! اس سے
پہلے تصدیق کے لئے پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کے ڈیٹا کے اسٹوریج کے منصوبے کو
بھی نادرا نے مسترد کردیا‘ اس کا کہنا تھا کہ اس کامطلب اس ڈیٹا کی
سیکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک
تصدیق سسٹم کا خیال انتخابی عمل کو مزید شفاف بنانے کے لئے تھا‘ جس پر ہر
سطح میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ موجودہ نادرا کا نظام
تکنیکی لحاظ سے عام انتخابات کرانے کے لئے کافی نہیں۔ اِس صورتحال میں صرف
ایک ہی حل باقی رہ جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے زیادہ ’نادرا‘ کی استعداد
میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بلاتاخیر کام کا آغاز کر دینا چاہئے۔
عام انتخابات میں الیکٹرانک و آن لائن تصدیق کا طریقۂ کار ایک ایسی ’ڈیٹابیس‘ سے رابطے کے ذریعے ہوتا ہے جس میں کروڑوں کی تعداد میں کوائف جمع ہوتے ہیں۔ نادرا پر انحصار کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن اپنا الگ ’ڈیٹابیس‘ تیار کر سکتا ہے جس میں کسی خاندان کی جملہ شناختی و حساس معلومات کی بجائے صرف نام‘ ولدیت‘ انگوٹھے کا نشان اور ووٹ کے اندراج کے انتخابی حلقے کا ذکر موجود ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن ہر ووٹر کو سات ڈیجیٹس پر مشتمل ایک امتیازی نمبر جاری کر دے جس کے ذریعے وہ ملک کے کسی بھی حصے یا آن لائن تصدیق کے بعد بذریعہ موبائل‘ یا ویب سائٹ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکے۔
نادرا حکام کا یہ مؤقف مضحکہ خیزہے کہ عام انتخابات کے لئے ووٹرز کے کوائف بائیو میٹرک تصدیق کے لئے فراہم کرنے سے یہ معلومات افشا ہو سکتی ہیں جبکہ اُس سے کہیں گنا زیادہ معلومات پہلے ہی امریکہ اور اُن یورپی ممالک کو دی جا چکی ہے جنہوں نے ’نادرا‘ بنانے کے لئے مالی و تکنیکی امداد فراہم کی تھی! اس سلسلے میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا ’فلور آف دی ہاؤس‘ پر دیا گیا بیان ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں اُنہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ۔۔۔’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ’نادرا‘ کا ریکارڈ امریکہ کو فراہم کیا گیا ہے۔‘‘ ایسی صورت میں ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کی کوئی ضرورت و منطق باقی نہیں رہتی۔ حال ہی میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اُن تمام فیکس مشینوں اور کمپیوٹرز کو دفتروں سے نکال باہر کیا ہے جو امریکہ سمیت کئی ’دوست ممالک‘ کی جانب سے دیئے گئے تھے اور معلوم ہوا تھا کہ خود کو پاکستان کا دوست ظاہر کرنے والے ممالک نے جو کمپیوٹر اور فیکس مشینیں دیں تھیں وہ مطلوبہ نمبروں کے ساتھ خودکار طریقے سے ایسے نمبروں پر بھی فیکس اور ای میل ارسال کردیا کرتی تھیں‘جن کا دفتر خارجہ سے تعلق نہیں تھا اور یوں اسلام آباد میں کئی ایک سفارتخانے ایک لمبے عرصے تک جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ اگر یہی کام پاکستان کے کسی سفارتخانے نے یورپ یا امریکہ میں کیا ہوتا تو عالمی سطح پر پاکستان کی اتنی سبکی ہوتی کہ جس کا بیان ممکن نہیں لیکن چونکہ ہمارا رویہ بھکاریوں جیسا ہے اِس لئے مفت کے کمپیوٹر اور فیکس مشینیں ہوں یا ادارہ شماریات‘ وزارت خزانہ‘ دفاع اور ’نادرا‘ جیسے حساس محکموں کا ’ڈیٹا (امور معلومہ)‘ ذخیرہ کرنے کے آلات‘ ہم فوری طور پر امداد کی پیشکش قبول کرنے میں قومی سلامتی تک کو داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام انتخابات میں الیکٹرانک و آن لائن تصدیق کا طریقۂ کار ایک ایسی ’ڈیٹابیس‘ سے رابطے کے ذریعے ہوتا ہے جس میں کروڑوں کی تعداد میں کوائف جمع ہوتے ہیں۔ نادرا پر انحصار کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن اپنا الگ ’ڈیٹابیس‘ تیار کر سکتا ہے جس میں کسی خاندان کی جملہ شناختی و حساس معلومات کی بجائے صرف نام‘ ولدیت‘ انگوٹھے کا نشان اور ووٹ کے اندراج کے انتخابی حلقے کا ذکر موجود ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن ہر ووٹر کو سات ڈیجیٹس پر مشتمل ایک امتیازی نمبر جاری کر دے جس کے ذریعے وہ ملک کے کسی بھی حصے یا آن لائن تصدیق کے بعد بذریعہ موبائل‘ یا ویب سائٹ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکے۔
نادرا حکام کا یہ مؤقف مضحکہ خیزہے کہ عام انتخابات کے لئے ووٹرز کے کوائف بائیو میٹرک تصدیق کے لئے فراہم کرنے سے یہ معلومات افشا ہو سکتی ہیں جبکہ اُس سے کہیں گنا زیادہ معلومات پہلے ہی امریکہ اور اُن یورپی ممالک کو دی جا چکی ہے جنہوں نے ’نادرا‘ بنانے کے لئے مالی و تکنیکی امداد فراہم کی تھی! اس سلسلے میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا ’فلور آف دی ہاؤس‘ پر دیا گیا بیان ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں اُنہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ۔۔۔’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ’نادرا‘ کا ریکارڈ امریکہ کو فراہم کیا گیا ہے۔‘‘ ایسی صورت میں ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کی کوئی ضرورت و منطق باقی نہیں رہتی۔ حال ہی میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اُن تمام فیکس مشینوں اور کمپیوٹرز کو دفتروں سے نکال باہر کیا ہے جو امریکہ سمیت کئی ’دوست ممالک‘ کی جانب سے دیئے گئے تھے اور معلوم ہوا تھا کہ خود کو پاکستان کا دوست ظاہر کرنے والے ممالک نے جو کمپیوٹر اور فیکس مشینیں دیں تھیں وہ مطلوبہ نمبروں کے ساتھ خودکار طریقے سے ایسے نمبروں پر بھی فیکس اور ای میل ارسال کردیا کرتی تھیں‘جن کا دفتر خارجہ سے تعلق نہیں تھا اور یوں اسلام آباد میں کئی ایک سفارتخانے ایک لمبے عرصے تک جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ اگر یہی کام پاکستان کے کسی سفارتخانے نے یورپ یا امریکہ میں کیا ہوتا تو عالمی سطح پر پاکستان کی اتنی سبکی ہوتی کہ جس کا بیان ممکن نہیں لیکن چونکہ ہمارا رویہ بھکاریوں جیسا ہے اِس لئے مفت کے کمپیوٹر اور فیکس مشینیں ہوں یا ادارہ شماریات‘ وزارت خزانہ‘ دفاع اور ’نادرا‘ جیسے حساس محکموں کا ’ڈیٹا (امور معلومہ)‘ ذخیرہ کرنے کے آلات‘ ہم فوری طور پر امداد کی پیشکش قبول کرنے میں قومی سلامتی تک کو داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment