Saturday, June 20, 2015

Jun2015: Trust deficit between US & Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ناکافی اعتراف
’’ہم ہوئے کافر‘ تو وہ کافر مسلماں ہو گیا!‘‘ جیسی صورتحال سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے ’اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں اِس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ’انسداد دہشت گردی‘ کی کوششوں میں ’پاکستان‘ غیرمعمولی کردار ادا کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’پاکستان‘ کا شمار اُن چند ممالک میں کیا گیا ہے جو امریکہ کے ’انتہائی اہم ساتھی‘ ہیں! یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں شامل تعاون نہ کرنے والے ممالک کو سخت ترین امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’پاکستان متعدد شدت پسند گروپوں سے مقابلہ کررہا ہے جن میں سے کئی پاکستانی حکومت یا حریف مذہبی فرقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں!

سفارتکاری کی اپنی زبان اور لب و لہجہ ہوتا ہے۔ امریکہ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ پینٹاگون یا وائٹ ہاؤس کی ترجمانی کرنے والوں کے پاس ایسے الفاظ کا ذخیرہ موجود رہتا ہے‘ جن کے ایک سے زیادہ معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ الفاظ کے انتخاب اُور اُن کی ادائیگی میں احتیاط شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کی سفارتکاری کا حصہ ہو۔ ضمنی طور پر عرض ہے کہ اگر قارئین الفاظ کے چناؤ میں ’امریکی مہارت‘ یا ’جادوگری‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو وہ ہر روز براہ راست نشر ہونے والی ’اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ کی بریفنگز دیکھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ بریفنگ دیکھنے کے لئے آپ کو ’ڈش اینٹینا‘ کی ضرورت ہوگی جس کے ذریعے ’ایشیاء سیٹ(AsiaSat)‘ پر موجود سی اسپین (C-Span)‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائس آف امریکہ (VoA)کی نشریات مفت دیکھی جا سکتی ہیں۔ تو بات ہو رہی تھی ذومعنی الفاظ اُور اُن کے انتخاب میں امریکی مہارت کے حوالے سے جس کا مظاہرہ اُس سالانہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے‘ جو بیک وقت پاکستان کی تعریف بھی کر رہی ہے اور ساتھ ہی ایک وارننگ (دھمکی) بھی جاری کر دی گئی ہے کہ اگر پاکستان ’ڈو مور‘ نہیں کرتا تو آنے والے دنوں میں اُسے مشکل و مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں سال دوہزار چودہ کے دوران پاکستان کا تعاون ملا جلا رہا کیونکہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی تربیت دینے والے امریکی تربیت کاروں کو ویزے دینے سے انکار کرتا رہا! رپورٹ میں افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کی قیادت اور تنظیم کو پہنچنے والے نقصان کا ذکر کرتے ہوئے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ القاعدہ کی عالمی قیادت خطے کے دوردراز علاقوں میں موجود و فعال ہے۔ القاعدہ کی قیادت کو خطے میں افغان‘ پاکستانی اور بین الاقوامی فورسیز سے دباؤ کا سامنا ہے جبکہ پاکستان کے شمالی وزیرستان کے آپریشن سے گروپ کی آزادی سے کام کرنے کی طاقت مزید متاثر ہوئی ہے۔ افغانستان سے متعلق باب میں کہا گیا کہ ملک اب بھی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے بڑے حملوں کا سامنا کر رہا ہے جبکہ ان میں سے کئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی۔ سالنامہ رپورٹ میں پاکستان کی اُن فوجی مہمات کا ذکر بھی ملتا ہے‘ جنہیں وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ’لشکر طیبہ‘ کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اِن جیسے گروہوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جا رہی جو اب بھی حکومت کی نرم دلی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر عسکری تربیت دینے اور عسکریت پسندی و انتہاء پسندی پھیلانے کے لئے مالی وسائل جمع کر رہے ہیں! افغان طالبان اور حقانی قیادت کی پاکستان میں اب بھی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں‘ پاکستانی فوج کے آپریشنز نے ان کی کاروائیوں کو متاثر ضرور کیا تاہم انہیں براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا۔

سال دو ہزار چودہ کے دوران شروع کی گئیں دو فوجی کاروائیوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کراچی میں جرائم پیشہ منظم گروہوں اور عسکریت پسندوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کیا انتہاء پسندی اور اس سے جنم لینے والی عسکریت پسندی صرف پاکستان کا مسئلہ ہے یا دنیا کے دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہیں۔ اِس سلسلے میں اَمریکہ کے مرتب کردہ اَعدادوشمار کے مطابق دولت اسلامیہ نے 1083‘ طالبان نے 894 اور بوکو حرام نے 662 حملے کئے۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت خوش آئند نہیں کہ اربوں ڈالر اور ٹیکنالوجی کے بے دریغ و غیرمحتاط استعمال کے باوجود انتہاء پسندی و عسکریت پسندی کو شکست نہیں دی جاسکی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کی جڑ یعنی ’غربت و جہالت‘ کم کرنے کے لئے وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں کی جا رہی۔ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ جہاں امتیازات و طبقات کی حکمرانی ہو‘ وہاں اطمینان اور سکون کی بجائے محرومیاں پروان چڑھتی ہیں۔

 امریکہ سمیت مغربی دنیا بشمول پاکستان مسلمان ممالک سے کس قسم کا تعاون چاہتی ہے اُور پاکستان کی اپنے دوست ممالک سے توقعات ایسی دو الگ بلکہ متضاد باتیں ہیں جن کی اصلاح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہوئے نقصانات کا حسب وعدہ اَزالہ کرنے سے ہوگا بصورت دیگر ہرسال دہشت گردی کے اعدادوشمار اِسی طرح چونکا دینے والے ہوں گے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا کہ پاکستان کی عسکری قیادت اُور اَمریکہ کے درمیان تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہوں لیکن سوچنا یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں رہ جانے والی کمی کا تعلق ایک دوسرے پر ’اِعتماد‘ کی کمی سے تو نہیں!

No comments:

Post a Comment